ٹی وی پر اوقات گذارنے کے بجائے ، اپنے مسلم بچوں کے ساتھ یہ پانچ ” لاک ڈاؤن سرگرمیاں” آزمائیں

تحریر :ام خالد ( مقیم یو ایس اے )
ترجمہ : محمد اللہ قیصر قاسمی

لاک ڈاؤن اور قرنطین کے دوران ، تھکے ہوئے والدین یہ جاننے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ سارا دن گھر میں پھنسے رہنے کے دوران، اپنے بچوں کو کس طرح مشغول اور زیادہ تر خاموش رکھیں۔
ایسے میں جبکہ بچوں کے اسکول بند ہیں، اور والدین کو گھر سے کام کرنے کے احکام ملے ہیں، تو کنبہ کو اپنے لئے ایک نیا معمول ترتیب دینا چاہئے۔
ایک تھکے ہارے جوڑے نے اس صورتحال کے متعلق کہا، کہ ، "میرے بچے باؤلے ہوئے جارہے ہیں، اور میرا گھر خطہ جنگ بن گیا ہے، !
مشہور امریکی مصنف "رالف والڈو ایمرسن” نے ایک بار کہا تھا ، ” ہر وقت کی طرح یہ وقت بھی بہت اچھا ہے، اگر ہم جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے تو”
میدان جنگ کی صورتحال کو پر سکون بنانے، اور بچوں کے ساتھ بڑوں کو مشغول رکھنے کیلئے 5 بہترین، مفید مشورے ہیں، اور انشاءاللہ پورے ہوں گے۔
1. مجلس قرآن :
اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر "درس قرآن” یا حلقہ قرآن کا اہتمام کریں: یہ آپ کے بچوں کی عمر اور ان کی شخصیات پر منحصر ہے ، یہ سیشن زیادہ گہرائی کے ساتھ یا کچھ سرسری طور پر ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہو کہ بہت چھوٹے بچے ، جیسے 3 اور 4 سال کی عمر، کے بھی، پارۂ عم` کی مختصر سورتوں کے کچھ پہلوؤں کو پسند کر سکیں،اور سمجھ سکیں۔
چھوٹے بچوں کے لئے ، سیشن مختصر اور مباحثہ ہلکا رکھیں۔ مثال کے طور پر ، اپنے 4 سالہ بچے کے سامنے مختصر طور پر مکمل سورۃ اخلاص پڑھیں، اور صرف اللہ کے بارے میں بات کریں۔ اللہ ایک ہے۔ اس جیسا کچھ بھی نہیں۔ اس نے ہمیں اور اس دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ، ، ہم اسی سے محبت کرتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو ایک طریقہ مل گیا۔
تھوڑے سے بڑے بچے، حتی کہ 5 اور 6 سال کی عمر والوں کے ساتھ بھی ، انشاء اللہ گفتگو قدرے گہری ہوسکتی ہے۔ ایک سورت پڑھیں اور اس کی آیت کی تفسیر کریں، جو بچوں کے موافق ہو۔ اپنے بچے کو یہ سکھائیں کہ غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ کیسے سلوک کریں۔ حسن سلوک کے اہمیت کی وضاحت سورۃ المؤمنون ، سورت الفجر ، اور سورت البلاد کے حوالے سے کریں۔ یا سورۃ الفیل کے حوالے سے "ابرہہ” اور اس کے فوج کی مکمل کہانی سنائیں۔ یا سورۃ "القارعہ” اور سورۃ "الزلزال” کی تفسیر کرکے آخرت کے متعلق بات کریں۔
اور آپ آیت کی تفسیر کے بعد ، اپنے بچوں کو سوالات کرنے کی اجازت دیں، پھر سنجیدگی سے آپ ان کا جواب دیں، یہ احساس مت رکھئے کہ آپ معلومات کو آسان بناکر پیش نہیں کریں گے تو وہ سمجھ نہیں پائیں گے، بے شک ، اپنی ہوشمندی کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے بچوں کی صلاحیت کا اندازہ لگائیں ، لیکن عام طور پر ، آپ خوشگوار حیرانی ہوگی کہ بچے کتنا سمجھتے ہیں، اور سمجھ کر جذب کرلیتے ہیں۔ سورۃ کے متعلق ان کے خیالات و افکار سنیں۔
یقینا ، جیسے ہی آپ کو تھکاوٹ یا نامانوس حرکات کا احساس ہو ، قرآن مجید کی مجلس ختم کریں۔ خاص طور پر اگر کوئی نئی سرگرمی ہو تو، آہستہ اور آسان آغاز کریں۔ اگر نئی سرگرمی ہو یا تدریجی طور اس عمر کے بچوں کیلئے نامناسب ہو، تو بچوں پر دباؤ نہ بنائیں کہ وہ دو گھنٹوں تک سیدھے ہوکر بیٹھے ر ہیں۔
آپ کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ آپ اپنے بچے کو اللہ کی کتاب سے متعارف کروائیں اور اس کے دل میں کتاب الٰہی کی گہری محبت پیدا کریں ، انشاء اللہ۔
قرآن کی اس فکر اور مباحثے کے سیشن کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آپ بچوں کو دکھائیں، کہ قرآن اور حقیقی زندگی کے درمیان بلاواسطہ ربط ہے۔ قرآن کا ہماری زندگی سے بڑا قریبی تعلق ہے، اور وہ ہماری زندگی کیلئے اہم ہے ، ۔ *یہ کوئی ثانوی درجہ کی یا بعد میں خیال آنے والی شئی نہیں ، جیسا کہ بدقسمتی سے کچھ لوگ اپنے عمل سے ظاہر کرتے ہیں*۔ ہم قرآنی ذہنیت سے دنیا اور روزمرہ کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔
2. کتابیں پڑھیں اور کہانیاں سنائیں:
بچوں کو اونچی آواز میں پڑھنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے ، جیسا کہ ان گنت تحقیقات سے پتہ چلتا ہے۔ بچوں کے سامنے اونچی آواز میں پڑھنے سے ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا یے ، ان کے ادراک کے طریقہ کار کو تقویت ملتی ہے ، ان کے جذبات کا پتہ چلتا ہے، ان کے ارتکاز کا دورانیہ اور توجہ دینے کی صلاحیت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے والدین اور بچوں کے مابین تعلقات بھی فروغ پاتے ہیں۔
ایک اور چیز جس سے بچوں کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے ہیں وہ ہے بچوں کو کہانیاں سنانا، ۔ یہ بات محض اس کہانی کے متعلق نہیں ہے جو آپ سنارہے ہیں ، بلکہ اس کا تعلق بڑی حد تک اس رشتہ سے ہے جو آپ اپنے بچے کے ساتھ بنا رہے ہیں۔ کہانی سے تو قصہ گو اور سننے والوں کے مابین ایک رشتہ قائم ہوتا ہے۔
ویب سائٹ پر ایک معلوماتی مضمون ہے، ” بچوں کو کہانیاں کیسے سنا ئیں ،” اس میں کہتے ہیں:
قصہ گوئی کے مقابلہ تعلقات کے عینک سے، کہانی زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔ جو شخص بھی اپنے بچوں کو کہانیاں سناتا ہے (بشمول دادا ، نانا ، اساتذہ ، دیکھ بھال کرنے والے وغیرہ) وہ ادراک کرتے ہیں کہ اچھی کہانی کے اختتام پر ، آپ دور نہیں جاتے – آپ دونوں کو ایک دوسرے کی قربت محسوس ہوتی ہے۔ کیوں؟
رشتے کی محبت اور اس پر اعتماد کے ذریعے ہی (صرف الفاظ ہی نہیں) حقیقی اقدار انسان سے انسان اور والدین سے بچے تک منتقل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے والدین اور نگہداشت کرنے والے، انوکھے انداز میں، کہانی سنانے کی تیاری کر تے ہیں۔ کیوں کہ آپ کے بچے کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
گذشتہ ستر سالوں میں سائنس دانوں نے جو تحقیق کی ہے، وہ یہ ہے کہ کہانی سنانا، کچھ چیزوں کیلئے بنیادی جز کی حیثیت رکھتا ہے، ہم اپنی زندگی کو کس طرح سوچتے، بیان کرتے ہیں، اور اسے معنی دیتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ثالثی کرتا ہے، اور ہماری "انسانی اصلیت” کی گہرائی کو پھیلاتا ہے۔
3. ہلکا پھلکا رویہ (کھیل ، گدگدی ، تعاقب کرنے والے کھیل):
اپنے بچوں کے ساتھ ہلکے کھیل کھیلیں۔ یہ آپ دونوں کے لئے اچھا ہے۔
بعض اوقات گود والے اور چھوٹے بچوں کے والدین اتنے دباؤ میں رہتے ہیں ، اتنے زیادہ دباؤ میں ہوتے ہیں کہ بچوں کی کارستانیوں اور ان کی شرارتوں سے نبٹنے میں ان کے ساتھ واقعتا کبھی کھیلنا ہی نہیں ہوتا،۔ میں جانتی ہوں کیونکہ کبھی کبھی میرے بھی ایسے دن آتے ہیں۔
لیکن کبھی کبھی بچوں کی شرارتوں سے نبٹنے کی بجائے ، انہیں اپنے حال پر چھوڑدیتی ہوں۔ ، میں خود ان کے ساتھ ڈوب جاتی ہوں۔ آپ یہ کہاوت جانتے ہیں: "اگر آپ انہیں شکست نہیں دے سکتے تو ، ان کے ساتھ شامل ہوجائیں”۔ اور شرارت میں کبھی کوئی، کسی نو عمر بچے کو مات نہیں دے سکتا!
ہم مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔ زیادہ تر کھیلوں میں، میں مختلف کردار میں شامل ہوتی ہوں۔
ایک کھیل میں مجھے ولن جیسا غیر منطقی نام دیکر سیدھے گدگدی لگاکر کھیلتے ہیں ، بچے بھاگتے ہیں اور میں ان کا پیچھا کرتی ہوں ، اور کسی کو بھی میں پکڑلیتی ہوں وہ گدگدی کیلئے کھیل کا ہدف ہوتا ہے۔ اور وہ مجھے گدگدی کرتے ہوئے مجھے دور کرتے ہیں۔ کبھی کبھی جب کوئی بچہ ولن (میرے) کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے، اور گدگدی کی جاتی ہے تو بالکل اخیر وقت میں دوسرا اس کی مدد کو آتا ہے ، اور اسے بچا لیتا ہے۔
ایک اور کھیل ریسلنگ ہے جو گدگدی والے کھیل کی طرح ہی ہے۔ لیکن *یہ تبدیلی زیادہ بے سمت ہیں* ، بچے مجھ سے یا اپنے والد سے لڑتے ہیں، پھر فرضی مکے اور لات مارتے ہیں۔ (میں اب بھی صرف ان کو گدگدی کرتی ہوں)۔ نفسیات کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے، کہ بچوں کے معمول کی نشوونما کے لئے بے ترتیب جسمانی کھیل بہت اہم ہے۔ اس سے وہ جسم پر قابو رکھنے، اور انہیں کنٹرول کرنے کے تصور سے متعارف ہوتے ہیں۔ اس سے بچوں کو اپنے جسم میں ٹھہراؤ لانے اور اندرونی آرام حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
بچوں کی نشوونما کے لئے، بے ترتیب اور لڑھکنے والے جسمانی کھیل انتہائی ضروری ہیں ، کیونکہ اس سے وہ یہ سیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ، کس سے انہیں تکلیف ہوگی اور کس سے نہیں۔ کھیل کے دوران جب آپ بچے کو گرفت میں لیتے ہیں، اسے اوپر نیچے اچھالتے ہیں، تھپتھپاتے اور دھکا دیتے ہیں ، اسے کھینچتے ہیں، انہیں ان کے جسم ، کی حدود اور اس کے صلاحیت کے پیمانے بتا رہے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں گدگدی کرنے دیں تاکہ وہ یہ سیکھ سکیں کہ کیا چیز بہت مشکل ہے اور تکلیف دہ ہے، اور اس کے مقابلے کیا چیز آسان اور ہنساتی ہے، آپ اپنا ہاتھ گرفت میں لینے دیں،تاکہ اسے اپنی پکڑ کی قوت کا اندازہ ہو، وہ سیکھتا ہے کہ اپنا جسم قابو میں رکھتے ہوئے، ابو امی کے جسم پر بے ہنگم طریقہ سے کودنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ان کی آنکھوں میں انگلی گھسانا ،ان کے بال نوچنا، یا حقیقتا مکا مارنا ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کھیل اور تشدد کے درمیان فرق، معاشرہ نواز طرز عمل اور معاشرہ مخالف جارحیت کے درمیان فرق سیکھتا ہے۔
اس طرح کی جانکاری بچوں کے لئے بے حد معاون ہوتی یے، اس سے بچوں کے لئے دوسروں کے ساتھ مل جل کر ساتھ کھیلنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثلا، اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم پارک یا پلے گراونڈ جاتے ہیں ، اور میرے بچے اپنے ہم عمر دوسرے بچوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں، ۔ دونوں پارٹی ایک منٹ کے لئے ایک دوسرے کی طرف دیکھے گی ، ایک دوسرے کے سائز کا اندازہ لگائے گی، پھر ایک ٹیم دوسرے کے قریب ہوگی اور سب ایک دوسرے سے ربط ضبط شروع کردیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کھیل کا اشارہ کریں ، جیسے ٹیگ کا کھیل شروع کرنے کے لئے تھپتھپانا، یا پیچھا کرنے والا کھیل شروع کرنے کے لئے ان کے سامنے دوڑنا وغیرہ۔ اور پھر وہی تیزی! سب بچے دوڑ لگا دیتے ہیں! اس قسم کے کھیل کا حلقہ شروع کئے بغیر ، بچے جسمانی طور پر عجیب اور معاشرتی طور پر غیر یقینی کیفیت کے شکار ہوسکتے ہیں۔ کچھ بچے اس طرح کے کھیل سے خوش نہیں ہوتے، اور نہ ہی اس کے عادی ہوتے ہیں ، اور وہ کھیل کے اشاروں کا مناسب جواب نہیں دیتے، ، لہذا دوسرے بچے ان کے ساتھ نہیں کھیلتے ،انہیں ساتھ کھیلنے کیلئے کوئی دوسرا مل جاتا ہے ۔
میں نے سیکھا ہے کہ اکثر اس طرح کے بے ترتیب کھیل اور تخیلاتی ورزش، مجھے تناؤ سے آزاد کرتے ہیں، اور ذہنی دباؤ میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ تفریحی کھیل کھیلنے کی یہ ایک اچھی وجہ ہے۔
پھر جب دوڑنے ، گدگدی کرنے یا ریسلنگ کی وجہ سے بھاری سانس لیتے ہوئے، ان کی وسیع مسکراہٹیں اور روشن آنکھیں دیکھتی ہوں ، تو مجھے ایک اور بلکہ بہتر وجہ نظر آتی ہے۔ وہ اسے چاہتے ہیں۔ جب ہم بحیثیت والدین ان کی سطح پر اترتے ہیں اور ان کی دنیا میں ان کے ساتھ شامل ہاجاتے ہیں، تو ان میں ایک چمک آجاتی ہے۔ بچپن کے یہی وہ لمحات ہیں جنہیں وہ شوق سے ان شاءاللہ ،یاد رکھیں گے اور جب وہ بڑے ہوں گے تو اس کا خیال آتے ہی مسکرا اٹھیں گے۔
4. بیرونی کھیل:
ہر عمر کے بچوں کے لئے "بیرونی کھیل کے فوائد” جیسے بڑے عنوان پر کتنی ہی سیاہی پھیلا دی گئیں۔ صرف "آئس برگ” کے اشارے کے طور پر ، میں یہاں فقط اہم فوائد کے خلاصے بیان کرتی ہوں۔
غیر منظم آؤٹ ڈور کھیل بچوں کی "تحریکی مہارت” (جیسے کودنا ، دوڑنا ، گیند پھینکنا وغیرہ) بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے بچوں کے اندر عام جسمانی نشوونما میں دو بالکل ضروری صلاحیتیں "جسمانی توازن” اور "مکانی بیداری” کا احساس بھی عام ہوتا ہے ۔ ان دونوں نظام کو vestibular sense(کان کے اندر موجود ایک نظام جو جسمانی حرکت میں معاون اور توازن کا احساس پیدا کرتا ہے۔) اور proprioception (عضلات اور مفاصل میں موجود ایک نظام جو اپنے قریبی عضو کی ہیئت کا اور اس کی حرکت میں صرف ہونے والی قوت کا احساس رکھتا ہے)۔کہا جاتا ہے۔
ایک دوسرا جسمانی حس، جس کی نشو و نما باہر زیادہ ہوتی ہے، نظر ہے۔ ایک بصریات اور وژن سائنس (علم رویت) کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے باقاعدگی سے باہر کھیلتے ہیں ان کی دور کی نظر ہمیشہ ہی گھر میں رہنے والے بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
جو بچے اکثر باہر کھیلتے ہیں وہ خود ہدایت شدہ اور متجسس ہوتے ہیں ،جیسے ہی انہیں اپنا بیرونی ماحول ملتا ہے، وہ با آسانی پہل کرتے ہیں ۔ ان میں بہتر ارتکاز اور ایک کام پر دیر پا جماؤ کی اہلیت ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن میں زیادتی نشاط کے ساتھ انتباہ میں کمی (ADHD) جیسی بیماری کی تشخیص ہوئی، ان کی تحقیق سے، پتہ چلا ہے کہ ADHD والے جن بچوں نے زیادہ تر وقت باہر گذارا، ان میں کم علامات ظاہر ہوئیں۔
ان گنت جسمانی فوائد کے علاوہ ، بیرونی کھیل سے جذباتی، یہاں تک کہ ادراکی صلاحیت کو منظم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ باہر جاکر سبز مکانات دیکھنا، اپنے چہرے پر "سورج کی شعاعوں کو محسوس کرنا، "سیروٹونن”(serotonin) اور "ڈوپامائن”( Dopamine) کی سطح میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ، اور آپ کا مزاج فوری طور پر بہتر ہوجاتا ہے۔ تناؤ اور (Cortisol) (تناؤ کا ہارمون) کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ آپ پہلے سے زیادہ پرسکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بڑے اور بچے دونوں کے لئے مفید ہے۔
شکر ہے ، زیادہ تر مقامات پر لاک ڈاؤن کے سبب اب بھی پارکوں اور کھلی جگہوں پر جانے کی اجازت ہے۔ لہذا ایک خوبصورت ہری بھری جگہ جاکر دھوپ کی حرارت کا لطف اٹھائیں، تھوڑی بلند جگہ جائیں، یا اپنے بچوں کے ساتھ کسی خوبصورت فٹ پاتھ پر چہل قدمی کریں،یہ آپ کیلئے اور آپ کے بچوں کیلئے جسمانی ، ذہنی اور جذباتی طور پر مفید ہے۔
5. گفتگو:
آپ کے بچے چاہے کتنے ہی بڑے یا چھوٹے ہوں ، ان کے ساتھ ہمیشہ حقیقی اور با معنی گفتگو کریں۔ اس سے آپ کے مابین تعلقات کو تقویت ملے گی، نیز مواصلات، معاشرتی اشارے پڑھنے، سننے، استدلال، اور حتی کہ جذباتی ضابطے جیسی اہم معاشرتی مہارات سیکھنے میں بھی بچوں کو مدد ملے گی۔
یہ موضوع خود ہی ایک الگ مضمون کا مستحق ہے، لیکن ابھی تک ، یہ کہنا کافی ہے کہ ہارورڈ کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، والدین اور بچوں کے مابین بامعنی گفتگو بڑے ہوکر کامیاب ہونے کی واحد اہم ترین پیش گوئی ہے۔
بہت سے والدین تھکے ہوئے اور دباؤ میں ہوتے ہیں ، بچوں کے ساتھ حقیقی گفتگو میں مشغول ہونے کے لئے بھی زندگی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ یقینا قابل فہم ہے ، خاص طور پر ان دنوں قرنطین کے ساتھ ہی ہمارے کام کی غیر یقینی صورتحال اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ زیادہ تر والدین یا تو اپنے بچوں کو دور کردیتے ہیں یا انہیں یک لفظی جواب دیتے ہیں۔
آپ کو بچوں کے ساتھ ہر لمحہ لمبی لمبی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اگر آپ ، بعض اوقات ، باہر کی پریشانیوں کو دور کرکے، اپنی پوری توجہ بچے کی طرف موڑ سکتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس سے خود کو حقیقتا جوڑ سکتے ہیں، تو آپ ایک دل چسپ اور گہری گفتگو میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ بہت چھوٹے بچے تک کے خیالات و نظریات کی تلاش کیلئے بہت دلچسپ ہے۔ بچے ادراک و مشاہدہ کی قوت کے حامل ہوتے ہیں، وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں نتائج تک پہنچتے ہیں۔کبھی تو ان کے نتائج گہرے اور پر اثر ہوتے ہیں ،اور کبھی وہ تفریحی اور مزاحیہ حد تک بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اپنے بچے پر توجہ دینے کے لئے وقت نکالیں اور اس کے ذہن میں جو کچھ ہے اس پر اچھی گفتگو کریں۔
انشاء اللہ! ذاتی توجہ اور آپ کا معیاری وقت آپ کے بچوں کے حق میں حیرت انگیز ثابت ہوگا۔
اللہ ہمارے پورے کنبہ کو ہماری ذہنی راحت اور خوشی کا ذریعہ بنائے۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ َْزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ َْعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَامًا.
"ہمارے پروردگار ، ہمیں اپنی شریک حیات اور اولاد سے ہماری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک عطا کر، ، اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔” (سورت الفرقان ، 74)

Comments are closed.