تبلیغی جماعت پر حملہ، سیاست یا کچھ اور؟

محمد اللہ قیصر قاسمی
کیا سمجھتے ہیں آپ، آپ اگر سیاست کی بات چھوڑدیں تو آپ کو یہ بخش دیں گے؟ آپ اگر صرف مسجد مدرسہ تک محدود ہو جائیں تو یہ آپ کو معاف کردیں گے؟ آپ اگر ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں تو آپ کی غلطیوں کو نظر انداز کردیں گے؟ ملک سے محبت اور اس کے قوانین کی پاسداری کریں، تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا؟ جی نہیں بھول جائیے،، کیوں کہ جھگڑا سیاست، اور اچھے برتاؤ یا قانون کی پاسداری کا نہیں جھگڑا دین کا ہے، یقینا آپ "امن و مان” ، "قومی یکجہتی”” باہمی تعاون” ” خوش اخلاقی” "نرم خوئی” ” آپسی بھائی چارہ” اور "باہمی ہمدردی” مت چھوڑیں، کہ یہ زندگی کو حسین بنانے کا ایک پر اثر اور آزمودہ "اسلامی نسخہ” ہے، اسلام ہمیں یہی سب سکھاتا ہے، کہ ہم دوسروں کے ساتھ بھی "باہمی تعاون "”محبت و خیر خواہی” اور ” خیر سگالی” کے جذبہ کے تحت زندگی گذاریں، ملکی قوانین کا احترام کرتے ہوئے، کسی طرح کی خلاف ورزی سے بچیں، ملک سے محبت تو ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے، ملک کو جہاں ضرورت پڑی مسلمان کبھی پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ ہر مشکل دور میں ملک کی حفاظت کرنے والوں کی اگلی صف میں رہے، اور ان شاءاللہ رہیں گے، یہ سب ہماری دینی ،اور اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے، ہم اسے جوں کا توں انجام دیتے رہیں گے، اور ان شاءاللہ نبھاتے رہیں گے، لیکن مخالفین کی حرکات کو صرف "وقتی سیاست” کا نتیجہ کہہ کر خود کو دھوکہ دینا بھی اپنے ساتھ زیادتی ہے،
اس ساری اٹھا پٹخ، اور سارے ہنگاموں کے ادراک کے لئے *”کرونو لوجی”* سمجھئے،
ایک طرف ہندستان میں موجود ہماری مخالف قوتیں ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ ہم ان کے خود ساختہ "مین اسٹریم” (بنیادی قومی دھارا)میں شامل ہوجائیں،جب یہ "مین اسٹریم” بولتے ہیں تو اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو ہم سمجھتے ہیں، بلکہ ان کے نزدیک "مین اسٹریم” میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ ہم "ہندستانی ثقافت” کے نام پر پیش کی جانے والی "ہندو تہذیب” اپنا کر اسلام کو "ہندو ازم” میں ضم کردیں، یعنی بقول ان کے "محمڈن ہندو” بن جائیں ، آپ عید منائیں، لیکن "ہولی” اور "دیوالی” بھی شروع کردیں، اللہ کے ساتھ ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی پوجا بھی شروع کردیں، رسول اللہ "صلی اللہ علیہ وسلم” کو نبی مانیں، لیکن ان کے "دیوی دیوتاؤں” کو بھی وہی اہمیت دینا شروع کردیں تو آپ ان کے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔
اور یہ بے سر پیر کی بات نہیں، ان کے گرو "گولوالکر” کی کتاب "بنچ آف تھاٹ” کا ایک پیرا گراف پڑھ لیں، بات سمجھ میں آجائے گی، پہلے اس اقتباس پر نظر ڈالیں پھر دوسری تفاصیل پر گفتگو کرتے ہیں۔
*”کیا ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک نہیں ہو سکتے؟ ہمارا سب سے زیادہ مشہور تہوار جو سماج کے مختلف طبقات کو ایک جٹ کرتا ہے، ہولی ہے، فرض کیجئے کہ اگر کسی مسلمان پر ہولی کے رنگ چھڑک دئے جائیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ یہ عمل قرآن کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہوگا؟ اسے اجتماعی معاملہ کیوں نہیں خیال کیا جاتا، ہندو مسلمانوں کے مختلف تہواروں میں حصہ لیتے آئے ہیں، جیسے اجمیر کے عرس میں، لیکن فرض کیجئے کہ ہم مسلمانوں سے "ستیہ نارائن پوجا” میں شرکت کرنے کو کہیں، تو کیا ہوگا؟ ایک دفعہ "ڈی ایم کے” پارٹی کے لوگ ایک مسلم منسٹر کو "رامیشورم” لے کر آئے، انہوں نے مندر کی طرف سے پیش کئے گئے تمام قابل فہم اعزازات قبول کئے، لیکن جب انہیں "پرشاد” دیا گیا تو انہوں نے اسے پھینک دیا، ان کے لئے ایسا کرنا کیوں ضروری تھا؟ مان لیجئے کہ وہ پرشادلے لیتے تو کیا اس سے ان کے مذہب کی خلاف ورزی ہوتی؟ ہمیں باہمی احترام کا رویہ اپنانا سیکھانا ہوگا”*
ایک دوسری جگہ گولوالکر نے اس ہدف کو پانے کے لئے ، بہتر تدابیر اور حکمت عملی اپنانے کی تاکید کی یے، ان تدابیر میں ایک طرف لبرل مسلمانوں کو سیاست و حکومت اور بڑے تعلیمی اداروں میں، نمایاں جگہ دیکر انہیں مامور کیا جاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو توڑمروڑ کر پیش کریں، ان پر بے جا عتراض کرتے ہوئے بتائیں کہ 1400 سال پرانی تعلیمات آج کے زمانے سے میل نہیں کھاتیں، ، دینی تعلیمات سے جڑے رہنے اور دینی ثقافت کو مضبوطی سے تھامے رہنے پر مسلمانوں کی توبیخ کریں، "نمسکار” اور "نمستے” نہ کرنے پر ان کو یاد دلائیں، بچوں کے "اسلامی نام” رکھنے پر ٹوکیں، "ہندی” ناموں کیلئے ابھاریں، اور انہیں "ہندستانی ثقافت”کے نام پر "ہندو تہذیب” اپنانے کی دعوت دیں، دین سے ناواقف سیاست میں قسمت آزمائی کا شوق رکھنے والوں کو ” سماجی ہم آہنگی "کے پردے میں ہندو تہذیب اپنانے کےلئے اخلاقی دباؤ ڈالیں، اور اس کے علاوہ بہت کچھ تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، جن کے تفصیل کا موقع نہیں۔
دوسری طرف، دین کی حفاظت اور اس کی نشر و اشاعت میں جو لگے ہیں ان کو بدنام کیاجائے، اور یہ دو ہی طرح کے لوگ ہیں: ایک مدرسہ والے دوسرے تبلیغ والے۔
مدرسوں میں دین پڑھایا جارہا ہے، وہاں قرآن و حدیث، تفسیر، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ پڑھا کر دین اور دینی علوم محفوظ کئے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ ،اسلام کی حقانیت، توحید کی اہمیت، اور رسالت کی سچائی بیان کرنے کے ساتھ اسلامی افکار علمی شکل میں بیان کئے جاتے ہیں، اس طرح دینی علوم نہ صرف محفوظ رہتے ہیں؛ بلکہ وہ پڑھنے پڑھانے والوں میں راسخ ہو جاتے ہیں، گویا یہ مدارس راسخ العقیدہ مسلمان بنانے کے کارخانے ہیں، ( واضح رہے کہ ،جب تک پڑھنا پڑھانا نہیں ہوگا، دنیا کا کوئی علم یا دنیا کی کوئی فکر محفوظ نہیں رہ سکتی، اس لئے دینی علوم کی حفاظت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے جو صرف اور صرف مدرسوں میں ہورہا ہے، ٹیوشن پڑھا کر دین سکھانے سے نہ دین کا فائدہ ہوتا ہے نہ دنیا کا۔
دوسری جانب تبلیغی جماعت کی سرگرمی دیکھئے، وہ کیا کرتے ہیں، یہ ہر شخص کو دین سے جوڑتے ہیں، تبلیغی جماعت مسلمانوں کو ایک اللہ کی عبادت اور اس سے قربت پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہے، تبلیغ والوں کے چال ڈھال، اور برتاؤ سے ایک بگڑا ہوا مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا، کتنے شرابیوں نے میخانہ چھوڑ، مسجد کو اپنا اڈا بنا لیا، کتنے بگڑے ہوئے دین کی راہ پر آگئے ، کتنے بندے جو اپنے رب سے دور تھے اس کے قریب آگئے، یہ سب تبلیغیوں کے کردار و اعمال کا ہی نتیجہ تو ہے، کسی نے کہا تھا :
نصیحت کے لئے حسن درکار ہے ناصح
یہ بہتر ہے کہ لفظوں کے بجائے زندگی بولے
واعظوں کے الفاظ، بولتے ہیں، جبکہ تبلیغیوں کے کردار کی روشنی، اندھیروں میں بھٹکنے والوں کی زندگی میں اجالا پیدا کردیتی ہے، ان کی سادگی، ان کی میٹھی بولی، ان کا کردار، سب مل کر سیاہ دلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور لمحہ بصر میں وہ ایمان کی روشنی سے جگمگا اٹھتا ہے، تبلیغیوں کا کردار کسی کو "فلم” ،”میوزک”اور "نائٹ کلب” کی چمچماتی اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی دنیا سے لاکر مسجد کے کونے کا باسی بنادیتا ہے، کسی کو میخانے کی بے پروا دنیا سے بچاکر، اپنے ایمان کی فکر کرنے والا بنادیتا ہے، تبلیغیوں کے میٹھے بول کا جادو سننے والوں کو ایسا مسحور کرتا ہے کہ "سون اسٹار” کے گدوں پر زندگی بسر کرنے والا، مسجد کی ٹوٹی چٹائی میں جنت کا لطف محسوس کرنے لگتا ہے۔
اب مخالفین کے ارادے اور تبلیغی جماعت کے کام کو دیکھیں تو دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جائے گا کہ زمینی سطح پر مسلمانوں کو مسلمان باقی رکھنے کا کام اگر کہیں سے ہورہا ہے تو مدارس اور تبلیغی جماعت ہیں، اگرچہ تبلیغ والے اپنا کام کسی "مخالف” کے "مقابلہ” کی بجائے ایمانی فکر کے تحت کررہے ہیں، لیکن ان کے کام کی ہیئت اور روح ہی کچھ ایسی ہے کہ کمزور اور غریب طبقہ کے مسلمان جن کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا مخالفین کیلئے آسان ہے آسان "لقمہ” ہے، و ہی تبلیغیوں سے زیادہ تر متاثر ہوتے ہیں، اور تبلیغ سے جڑنے والے بھی اصل وہی ہیں، گویا مخالفین کے ناپاک ارادوں کے آڑے مدارس والے "علمی” اور "فکری” قوت سے لیس ہوکر آتے ہیں تو جماعت والے اسی فکر کو گاؤں گاؤں، شہر شہر، اور محلہ در محلہ پہونچاتے ہیں اور ان سے جڑنے والوں کی ایمانی قوت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ ان پر مخالفین کی دوسری تدابیر کارگر نہیں ہوپاتیں، پورے گاؤں میں اگر ایک تبلیغی یا ایک مولوی ہے تو اس گاؤں والوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا بڑی حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔اس لئے دوسری تدابیر کو مؤثر بنانے کے لئے مدارس اور جماعت پر ہلہ بولنا لازم ہے، ورنہ ہمیشہ یہی کہنا پڑے گا کہ : الٹی پڑگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
علماء اور اہل مدارس کو پورے سال بدنام کیا جاتا ہے، ان کے خلاف موقع بھی خوب ملتا ہے، کیوں کہ جب بھی دین کی کوئی بات توڑ مڑوڑ کر پیش کی جاتی ہے، تو علماء سامنے آجاتے ہیں، پھر میڈیا والے جو کہتے اور کرتے ہیں وہ پورے سال آپ دیکھتے ہیں۔ جبکہ تبلیغ والوں کے خلاف موقع ملنے کی توقع کم رہتی ہے، اس لئے کہ یہ خود کو اختلافی باتوں سے دور رکھتے ہیں، نیز سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اب جبکہ ایک موقع ہاتھ لگا ہے تو یہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس جماعت کو پوری طرح”اچھوت” بنا دینا چاہتے ہیں، کوئی کسر باقی نہ رہے یہ ان کی پوری کوشش ہے، ورنہ دنیا کے کس ملک میں ایسا ہورہا ہے کہ مریضوں کے مذہب بتائے جارہے ہوں؟ وہ کس جماعت سے ہے، اس کی تفصیل دی جاتی ہو، اور سر عام یہ کہا جا رہا ہو کہ مرض کنٹرول ہوگیا تھا، لیکن فلاں مذہب کے ماننے والوں، یا فلاں جماعت سے منسلک افراد کی وجہ سے بے قابو ہوگیا، کسی ملک نے اب تک نہیں کہا ہے کہ ہمارے اوپر ” حیاتیاتی” حملہ ہوا ہے، لیکن ہمارے ملک کی میڈیا اس سطح تک گر چکی ہے، کہ جماعت کے ممبران کو دہشت گرد تک، کہا جا رہا ہے، زہر آلود فضاء بنائی جا رہی ہے، سیاسی لیڈران کہہ رہے ہیں کہ "دیکھتے ہی گولی مار دینے کا آرڈر جاری ہونا چاہئے” یہ ہے ان کی "انسانیت، نوازی۔
اتنا سب ہونے کے بعد بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی چال ہے تو یقین کیجئے آپ دھوکہ میں ہیں، خود کو فریب دے رہے ہیں، اس کے چنگل سے نکلئے، اور اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کیجئے، کیوں کہ کل جو ارتداد کا طوفان آئے گا اس میں ہوسکتا ہے آپ بچ جائیں؛ لیکن آپ کی اگلی نسل محفوظ نہیں رہ پائیگی،
اور ایمان کی حفاظت کا واحد اور تنہا راستہ یہی ہے کہ اللہ سے قربت پیدا کریں، کسی بااعتماد اور دین دار شخص سے اپنا رشتہ جوڑیں،جہاں آپ کو شک ہو کہ آپ کا کوئی قدم دین مخالف ہے یا نہیں، وہیں اس عالم دین سے سوال کریں، روز مرہ کی زندگی سے متعلق مسائل بھی دریافت کرتے رہیں، قرآن کی تعلیم شروع کریں، سیرت کا مطالعہ کریں، نماز کی پابندی کریں، فرصت ملے تو تبلیغ میں وقت لگائیں، گھر والوں کے ساتھ گپ شپ کی مجلس کا رخ صرف پانچ منٹ کے لئے بدلتے ہوئے اسے دینی تعلیم کی مجلس بنادیں، جس میں آپس میں ایک دوسرے سے دینی سوالات کریں، اس کے لئے ہو سکے تو کوئی کتاب متعین کرلیں، ان شاءاللہ، مخالفین کی طرف سے آنے والے باد سموم کے تھپیڑے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ آپ اور آپ کی نسل محفوظ بے دینی کی وبا سے سے محفوظ رہیں گے۔
( بصیرت فیچرس )
Comments are closed.