ملک کے موجودہ حالات میں سماجی بائیکاٹ کا خدشہ اور اس کا نبوی حل

محمد امداداللہ قاسمی

١٢/شعبان١۴۴١ھ۔٧/اپریل ٢٠٢٠ع۔منگل
———————————————-
کچھ جگہوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ اور اس کی کوشش کی خبریں موصول ہو رہی ہیں، مسلمانوں کے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں، شعب ابی طالب کا واقعہ ان کے سامنے ہے، 7 نبوی سے محرم 10نبوی تک تقریباً 3 سال حضورؐ اور خاندانِ بنو ہاشم کا معاشرتی معاطقہ (Social Boycott) ہوا، جب مشرکینِ مکہ کی اسلام اور پیغمبرِ اسلامؑ کے خلاف تمام سازشیں اور چالیں ناکام ہو گئیں تو آپس میں اتفاقِ رائے سے؛ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف یہ عہد وپیمان کیا کہ: نہ ان سے شادی بیاہ کریں گے ، نہ خرید وفروخت کریں گے، نہ ان کے ساتھ اُٹھیں گے بیٹھیں گے ، نہ ان سے میل جول رکھیں گے ، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے،نہ ان سے بات چیت کریں گے، یعنی بنو ہاشم سے ہر طرح کے تعلقات توڑ لیے جائیں ؛ جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے نہ کردیں، اس دوران حضورؐ اور آپ کے خاندان کو نہایت مشکلات کا سامنا رہا۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھوک کو مٹانے کے لیے بعض اوقات درختوں کی جڑیں چبانا پڑتی تھیں اور پیٹ پر کھجور کے تنے یا چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ مگر تاریخ اسلام گواہ ہے کہ ایک دن یہ ظلم ختم ہوا اور اسلام کو فتح و نصرت حاصل ہوئی۔
ملک کے موجودہ مشکل حالات میں بھی مسلمانوں کو نبیؑ کی سیرت سے سبق لے کر حکمت و دانشمندی اور برداشت کا ثبوت دینا ہوگا، اور اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دعوتی مزاج کے ساتھ مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر انسانیت اور خلقِ خدا کی خدمت کے لئے آگے آنا ہوگا، جس خدا نے نبیؑ اور ان کے خانوادے کو سوشل بائکاٹ کے باوجود سرخرو فرمایا وہی آج بھی مسلمانوں کا محافظ ہے۔
اللہ تعالی ہماری محافظت و نصرت فرمائیں۔

Comments are closed.