براءت اور ہماری جہالتیں

شاداب انظار ندوی
مینیجنگ ڈائرکٹر مدنی پبلک اسکول پاکٹولا
سیتامڑھی
شب براءت ، مطلب خلاصی کی رات .یہ مقدس شب شعبان کی پندرہویں تاریخ کو آتی ہے
شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھاگیا۔ (عمدة القاری، باب صوم شعبان۱۱/۱۱۶، فیض القدیر۲/۳
جہالت کے اس نئے دور میں ۔ہندوستان پاکستان بنگلادیش اور کئ ائے سے ممالک ہیں جسمیں اس رات نے تہواری روپ اختیار کر لیا ہے اور لوگ اسکو اسلامی تہوار سمجھنے لگے ہیں ۔جب کے یہ ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے۔کیونکہ۔ آپؐ کا فرمان ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
”جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کے اس رات کی قدرو منزلت کیا ہو نی چاہئے ۔انسان کو اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر اللہ کے سامنے رونا چاہئے اپنے گناہو کی معافی مانگنی چاہئے۔ یہ رات تو اس لئے دی گئ ہے کہ پورے سال کا جو کھاتہ ہے وہ آج کی رات پیش کیا جائے گا اسلئے اسکو پیش کر نے سے پہلے اپنے رب کو منا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ نئے رجسٹر کا رجسٹریشن نیکیوں سے کیا جائے۔مگر ہمارے سماج نے تو اسکو کھیل کود کی رات بنا دی گلیوں کو چراغا کریںگے چوک چوراہوں پر میلے لگائنگے قبرستانوں کو شادی کے منڈپ کی طرح سجائنگے اور پھر نئ نسل کے نوجوان وہ تمام برائیان اس رات میں کر گزر تے ہیں جو پورے سال کی ان نورمل راتوں میں نیہں کیا ہو ۔جس رات کو اللہ نے ہماری مغفرت کی رات بنائ تھی اسکو ہم نے گناہو کی رات بنا دیا یہ سونچ کر کے ہم شریعت کے ایک حصے پر عمل کر رہے ہیں ۔یہ رات ہم گناہگاروں کے لئے بم پر اوفر تھی اپنی گناہوں کی خلاصی لے لئے مگر ہم نے اپنے جہالت اور حدیث سے ناآشنائی کی وجہ سے اس رحمت ومغفرت کی رات کو گناہ کی رات بنا دیا۔ کیونکہ جو عمل اس رات میں ہم کرتے ہیں حدیث سے کہیں بھی ثابت نہیں ہے
اور جو حدیث سے ثابت ہے اس پر عمل نہیں کر تے ۔حضورصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی حدیث مبارکہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَہْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵) یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔ ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں: کَانَ اَحَبُّ الشُّہُورِ اِلٰی رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث ۲۴۵۸۴) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں
کیا اس حدیث کے مطالع سے آپ کو ان خرافات میں سے کسی کا پتا چلتا ہے جس کو ہمارا معاشرہ بڑے فخر سے منا تا ہے ۔رہی قبرستان جانے کی بات تو وہ بھی طریقہ جس کو ہم مانتے ہیں سہی نہیں ہے آپؐ کا ارشاد ہے
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس
اس رات کی اہمیت کے بارے میں
، شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں: شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براء ت ہوتی ہے: (۱) ایک براء ت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براء ت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۶)
نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شبِ براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۷
۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رات کی حدیث کی رو قدر کرنے اور عبادت کر نے کی توفیق عطا کرے آمین
Comments are closed.