ماہِ شبعان اور اس کی فضیلت

از: محمد سلمان قاسمی دھلوی
اللہ تعالی نے جنات و انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ لیکن عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے کوئی خاص ایام یا کوئی خاص دن و رات کو متعین نہیں کیا کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی ایام عبادت سے غفلت میں گزار دیا جائے؛ بلکہ انسان کی خلقت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے گناہوں کی بخشش کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتے ہیں،
قرآن مجید میں ہے کہ اللہ رب العالمین محتاج بندے کو ایسی جگہ سے رزق عطاکرتے ہیں، جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے ہی اللہ کریم اپنے موحد مگر گناہ گار بندوں کو.بخشنے کے سامان وذرائع ایسے مقامات سے پیدا کرتے ہیں کہ بندے کا ذہن کبھی اس طرف گیا ہی نہیں ہوتا۔ بندہ گناہ کرتا ہے، نافرمانیاں کرتا ہے مگر اللہ تعالی جو اکرم الاکرمین اور ارحم الراحمین ہے، اپنے بندہ سے اتنا پیار کرتا ہے کہ کسی بھی بہانے اس کو معاف کرتا رہتا ہے۔ اس کے گناہ معاف کر کے درجات بلند کرتا رہتا ہے۔ اس کو دنیا میں بھی کامیابیاں عطا کرتا ہے اور آخرت میں اپنی رضا وخوشنودی کا پروانہ عطا کر کے جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ اسی بہانے میں سے ایک عظیم نعمت شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہے، جس کو شب برأت کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، اس رات کی فضلیت کا بالکلیہ انکار کرنا قعطاً درست نہیں ہے؛ کیونکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے شعبان پندرہویں شب کی فضیلت ثابت ہے، نیز دور صحابہ، تابعین، تب تابعین، اولیاء عظام، مشائخ کرام اور اہل علم حضرات نے اس شب میں عبادت کا اہتمام کیا ہے،
ماہ شعبان کی فضیلت:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ. وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ. وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ.
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ روزے رکھنا نہیں چھوڑیں گے، پھر چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے نہیں رکھیں گے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور جتنے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے اتنے روزے کسی اور ماہ میں رکھتے نہیں دیکھا۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ: حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک کے روزوں سے ملا لیتے تھے۔
عَن عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا تَقُوْلُ: کَانَ اَحَبَّ الشُّہُوْرِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَنْ یَّصُوْمَہُ شَعْبَانُ، ثُمَّ یَصِلُہُ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نفلی روزے رکھنے کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ شعبان کا مہینہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں روزے رکھ کر اسے ماہِ رمضان کے ساتھ ملا دیتے۔
عَن ام سلمة ضی اللہ عنہا قَالَتْ: مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صَامَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ إِلَّا اَنَّہُ کَانَ یَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ: سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے ہوں، ماسوائے اس صورت کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کو رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَصُوْمُ الْأَیَّامَیَسْرُدُ حَتّٰییُقَالَ: لَا یُفْطِرُ، وَیُفْطِرُ الْأَیَّامَ حَتّٰی لَا یَکَادُ أَنْ یَّصُوْمَ، إِلاَّ یَوْمَیْنِ مِنَ الْجُمُعَۃِ، إِنْ کَانَا فِیْ صِیَامِہِ وَإِلَّا صَامَہُمَا، وَلَمْ یَکُنْیَصُوْمُ مِنْ شَہْرٍ مِنَ الشُّہُوْرِ مَا یَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّکَ تَصُوْمُ لَا تَکَادُ أَنْ تُفْطِرَ، وَ تُفْطِرُ حَتّٰی لاَ تَکَادُ أَنْ تَصُوْمَ، إِلَّا یَوْمَیْنِ إِنْ دَخَلَا فِی صِیَامِکَ وَإِلَّا صُمْتَہُمَا، قَالَ: (أَیُّیَوْمَیْنِ؟) قَالَ: قُلْتُ: یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَ یَوْمُ الْخَمِیْسِ، قَالَ: ((ذَانِکَ یَوْمَانِ تُعْرَضُ فِیْہِمَا الْأَعْمَالُ عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَأَحَبُّ أَنْ یُعْرَضَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِمٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَلَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ مِنْ شَہْرٍ مِنَ الشُّہُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَ: (ذَاکَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ، وَھُوَ شَہْرٌ یُرْفَعُ فِیْہِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِمٌ۔)
ترجمہ: سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کئی کئی دن تک مسلسل روزے رکھتے یہاں تک کہ کہاجاتا کہ لگتا ہے کہ اب آپ ناغہ نہیں کریں گے، لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طویل عرصہ تک ہفتہ کے دو دنوں کے سوا کوئی روزہ نہ رکھتے اور آپ جس قدر نفلی روزے ماہ شعبان میں رکھتے اتنے روزے دوسرے کسی مہینہ میں نہیں رکھتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ روزے رکھنے لگتے ہیں تو چھوڑتے ہی نہیں اور اگر ترک کرنے لگتے ہیں تو ہفتہ میں دو دنوں کے سوا روزے رکھتے ہی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کون سے دو دن ؟ میں نے عرض کیا: سوموار اور جمعرات کا دن۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان دو دنوں میںانسانوں کے اعمال اللہ رب العالمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اللہ کے سامنے جب پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ جتنے نفلی روزے ماہ شعبان میں رکھتے ہیںاتنے روزے دوسرے کسی اور مہینے میں نہیں رکھتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان والا یعنی شعبان ایسا مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، جبکہ اس مہینے میں اعمال اللہ رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اللہ کے حضور اس حال میں پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ» قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ لَيْلَةٌ أَغَرُّ وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ يَوْمٌ أَزْهَرُ.
ترجمہ: انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب ماہ رجب شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرماتے : اے اللہ ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے ، جمعہ کی رات ، چمک دار رات ہے اور جمعہ کا دن ترو تازہ دن ہے ۔
شب برأت کی فضیلت:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا، وَصُومُوا يَوْمَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ، أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ ، أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی کسی بیماری یا مصیبت میں مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟ ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ، فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ، قَالَتْ: قَدْ قُلْتُ وَمَا بِي ذَلِكَ، وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ .
ترجمہ: ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔ ( جب مجھے دیکھا تو ) فرمایا: عائشہ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا شاید آپ اپنی کسی اور زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ .
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور مسلمان بھائی سے دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا صَوْمَ حَتَّى يَجِيءَ رَمَضَانُ .
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے ـ
قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : يَطَّلِعُ اللهُ تبارك وتعالى إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيع خَلْقِه إِلَّا لِمُشْرِك أَوْ مُشَاحِنٍ.
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف شعبان كی رات اللہ تبارك و تعالیٰ اپنی مخلوق كی طرف جھانكتا ہے اور اپنی تمام مخلوق كو معاف كردیتا ہے سوائے مشرك اور كینہ ركھنے والے كے۔
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: إِنَّ اللهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.
ترجمہ: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات دنیا والوں کی طرف جھانکتا ہے اور اپنی تمام مخلوق کو معاف کر دیتا ہے، سوائے مشرک اور بغض وعداوت اور کینہ رکھنے والے کےـ
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: یَطَّلِعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی خَلْقِہِ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَیَغْفِرُ لِعِبَادِہِ إِلَّا لِاثْنَیْنِ مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر نظر ڈالتا ہے اور اپنے تمام بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے، ما سوائے دو قسم کے آدمیوں کے، کسی سے بغض رکھنے والا اور کسی کا قاتل۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا» .
ترجمہ: ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب نصف شعبان ہو جائے تو پھر روزہ نہ رکھوـ
اوپر ذکر کردہ احادیث میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے گرچہ کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید دیگر بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، لہذا دس صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں، پس جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا نا انصافی اور بہت غلط بات ہوگی۔ البتہ یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ اس رات میں کوئی مخصوص عبادت ثابت نہیں ہے، جیسا کہ عوام الناس میں مشہور ہیکہ فلاں فلاں طریقے سے عبادت کی جاے اور اس میں پہلی رکعت کے اندر فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے یا فلاں آیت اتنی مرتبہ پڑھی جاے یہ سب بے بنیاد ہے شریعت اسلامی میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ انفرادی طور پر ہر شخص جس قدر چاہے نفل نماز، زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار، قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنے گناہوں کی معافی تلافی، تسبیحات وغیرہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، اپنی جانب سے شریعت میں کسی چیز کا اضافہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کو جس قدر کیا ہے امت محمدیہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اس سے تجاوز کرنا دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے ، اور دین اسلام میں کسی نئی چیز کا ایجاد کرنا بدعت ہے، اور بدعت گمراہی و ضلالت کے اندھیرے میں ڈال دیتی ہے اور پھر انسان اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیتا ہے، کیونکہ فرمان رسول حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہیکہ!
عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ.
ترجمہ: سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات بدعت پیدا کرنا ہے دین میں اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
شب برأت میں قبرستان جانا:
اس شب میں ایک عمل قبرستان جانے کا ہے چونکہ حضور اکرم سرکار دوجہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع تشریف کے گیے تھے، ام المؤمنین سیدنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ارشاد فرماتی ہیں:کہ! ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔(جب مجھے دیکھا تو) فرمایا: عائشہ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا شاید آپ اپنی کسی اور زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔
اب مسلمان زور و شور سے اس بات کا اہتمام کرنے لگے ہیں کہ وہ ہر سال قبرستان جانا ضروری سمجھتے ہیں، اگر نہ جائیں تو یہ گمان کرتے ہیں شب برأت کی فضیلت سے ہم محروم رہ گیےـ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم اپنے والد محترم (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہ) کے حوالہ سے رقم طراز ہیں: کہ حضرت علیہ الرحمہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، وہ یہ کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جانا ثابت ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا ثابت ہے، اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
پندرہ شعبان المعظم کا روزہ:
پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ سنت موٴکدہ ہے، ہاں اس کو مستحب کہا جاسکتا چنانچہ اس سلسلے میں جو حدیث آئی ہے ”اذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا“
یہ حدیث چونکہ ضعیف ہے، لیکن ضعیف حدیث بھی تمام محدثین کے نزدیک بابِ فضائل میں قابل عمل ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے، شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کرنا اور یہ سمجھنا کہ جو شخص یہ روزہ رکھے گا اس کے ایمان کا خطرہ ہے، یا جو روزہ نہ رکھے اس کو مردود جاننا یہ سب باتیں درست نہیں ہیں ـ حسبِ توفیق ہر شخص کو اس رات کی فضیلت سے فایدہ اٹھانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ اللہ سے توبہ و استغفار طلب کرنا چاہیے، اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحیم و کریم ہے اور توبہ سے اللہ تعالی انسانوں سے راضی ہوتا ہے، کیونکہ بندہ کی توبہ سے الله تعالیٰ کی خوشی بھی اس کی شانِ ربوبیت اور رحمت کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک بھٹکا ہوا بندہ اپنی نادانی سے شیطان کے فریب میں آکر اس کی عبادت کی راہ سے بھٹک گیا تھا، اب وہ راہ راست پر آگیا۔ لیکن بندہ کی توبہ واستغفار سے الله تعالیٰ کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے ۔ وہ بڑا ہے اور بڑا ہی رہے گا۔ وہ بے نیاز ہے، اسے ہماری ضرورت نہیں ہے، لیکن ہم اس کے محتاج ہیں۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے، وہ پوری کائنات کا خالق ومالک و رازق ہے، الله تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے کا فائدہ ہمیں ہی پہنچتا ہے، جس طرح الله تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کا نقصان بھی ہمیں ہی پہنچتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطاء فرماے، اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و شریعت مطہرہ کا پابند بنائے…
Comments are closed.