شب براء ت: کرنے اوربچنے کے کام!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ہدی چلڈرنس اکیڈمی، دھنباد
اللہ تعالیٰ نے شعبان کے مہینے کویک گونہ فضیلت عطاکی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا: شعبان بین رجب وشہررمضان، یغفل الناس عنہ، یرفع فیہ أعمال العباد، فأحب أن لایرفع عملی إلاوأناصائم…۔(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر:۳۸۲۰) ’’شعبان رجب اوررمضان کے مہینوں کے درمیان ہوتاہے، لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، اس میںبندوںکے اعمال اٹھائے جاتے ہیں تومجھے یہ پسندہے کہ میرے اعمال روزہ کی حالت میںاٹھائے جائیں‘‘، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس مہینے میںکثرت سے روزہ رکھاکرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: لم یکن النبیﷺ یصوم شہراً أکثر من شعبان، فإنہ کان یصوم شعبان کلہ…۔ (بخاری، حدیث نمبر:۱۹۷۰) ’’نبی کریم ﷺ شعبان سے زیادہ کسی اورمہینے میںروزہ نہیںرکھتے تھے، وہ تو(گویا) پورامہینہ ہی روزہ رکھتے تھے‘‘۔
اس فضیلت والے مہینے کوہم میںسے بہت سارے لوگ واقعی غفلت میںگزاردیتے ہیں؛ حالاںکہ ہمیںشعبان کے پورے مہینے کی قدردانی کرنی چاہئے، پھراس مہینے کی پندرہ تاریخ، جسے عرف عام میں’’شب براء ت‘‘ بھی کہاجاتاہے، اس کی بھی اپنی الگ فضیلتیںواردہوئی ہیں، جو بالکلیہ بے اصل بھی نہیںہیں، مجموعۂ احادیث سے اس کاثبوت ملتاہے؛ چنانچہ محدث مبارکپوری ؒ نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ میںلکھاہے: ’’نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میںمتعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی اصل ہے‘‘(تحفۃ الأحوذی:۶؍۴۶۵)، اس تاریخ کی کچھ خاص فضیلتیں درج ذیل ہیں:
۱- اللہ تعالیٰ کاآسمانِ دنیاپراترنا: آج کی تاریخ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرشِ بریںسے پہلے آسمان پراترآتے ہیںاوراللہ تعالیٰ کایہ اترنااپنے بندوںسے محبت اورتعلق کوجتلانے کے لئے ہوتاہے، حدیث شریف میںہے: إن اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا( سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۳۹) ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کوآسمانِ دنیاپراترتاہے‘‘۔
۲- عمومی مغفرت کرنا: اس تاریخ کی دوسری بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی تعدادمیںاپنے ان بندوںکی بخشش کرتاہے، جومستحق جہنم ہوچکے ہوتے ہیں؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی حدیث میںہے: فیغفرلأکثرمن عددشعرغنم کلب، وزادرزین: ممن استحق النار(جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الأثیر، حدیث نمبر: ۶۸۶۸) ’’بنوکلب کی بکریوںکے بال سے بھی زیادہ تعدادمیںمعاف کرتاہے، اوررزین میںاضافہ ہے کہ : جومستحق جہنم ہوچکے ہوتے ہیں‘‘۔
۳- دعاؤوںکاقبول ہونا: شعبان کی پندرہ تاریخ کی رات ان راتوںمیںسے ہے، جن میںدعاقبول ہوتی ہے؛ چنانچہ ایک روایت میںہے کہ : پندرہویںشعبان کی رات ایک منادی ندالگاتاہے : ہل من سائل فأعطیتہ؟ ہے کوئی سائل، جسے میںعطاکروں؟پھرجوبھی شخص سوال کرتاہے، اس کی مانگ پوری ہوتی ہے(صحیح وضعیف الجامع للألبانی، حدیث نمبر: ۶۵۳)، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ کاایک اثربھی ہے: خمس لیال، لایردفیہن الدعاء: لیلۃ الجمعۃ، وأول لیلۃ من رجب، ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلتاالعید(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۷۱۳) ’’پانچ راتیںایسی ہیں، جن میںدعا رد نہیںہوتی، ایک جمعہ کی رات، دوسرے ماہ رجب کی پہلی رات، تیسرے پندرہ شعبان کی رات اورعیدین(عیدالفطروعیدالاضحی) کی دوراتیں‘‘۔
ان فضائل کے جان لینے کے بعداب آیئے ان اعمال کوبھی جانتے چلیں، جوہمیں کرنے ہیںاورجن سے ہمیںبچناچاہئے:
۱- عبادت : جب یہ رات فضیلت والی ہے توظاہرہے کہ اس رات میںعبادات کاخاص اہتمام ہوناچاہئے، سلف صالحین کے بارے میںیہی منقول ہے کہ وہ اس رات جاگاکرتے تھے اورنوافل، ذکرواذکار، اورادوظائف، تلاوتِ قرآن اورتسبیح ودعامیںمشغول رہاکرتے تھے(اخبارمکۃللفاکہی:۵؍۲۳)؛ البتہ عبادات میںتعدادمقررکرنا نادرست ہے کہ اس سلسلہ میںکوئی اصل موجودنہیںہے، نہ کتاب میں، نہ سنت میں اورناہی اسلاف کے عملی نمونوںمیں؛ اس لئے یہ جوعوام میںمشہورہے کہ اس رات سورکعت پڑھناچاہئے، اس کابہت ثواب ہے، ایک بے اصل بات ہے، اس سے بچناضروری ہے۔
۲- روزہ : اس تاریخ کے ایک عمل کے طورپرروزہ بھی رکھاجاتاہے، اس سلسلہ میںدراصل ایک حدیث واردہوئی ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: إذاکان لیلۃ النصف من شعبان، فقوموا لیلتہا وصوموایومہا(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۸۲۲) ’’جب شعبان کی پندرہ تاریخ ہوتواس کی رات قیام کرواوردن میںروزہ رکھو‘‘، سندی اعتبارسے اس حدیث پرکلام کیاگیاہے، اس کی سندمیںایک راوی’’ابوبکربن ابوسبرۃ‘‘ ہیں،محدثین اورائمۂ جرح وتعدیل انہیں ’’وضاع‘‘(حدیث گڑھنے والا) قراردیتے ہیں، (جامع الأحادیث للسیوطی:۳؍۴۸۳، تحفۃ الأحوذی:۶؍۴۶۸)۔
ان راوی کی وجہ اس دن کے روزہ کوبعض حضرات کم از کم مستحب کہتے ہیں اوریہی دارالعلوم دیوبندکافتوی ہے، ایک سوال کے جواب میںلکھاگیاہے: ’’پندرہویں شعبان کاروزہ نہ توفرض ہے، نہ واجب، نہ سنت مؤکدہ ہے، زیادہ سے زیادہ یہ مستحب ہے، اس سلسلے میںحدیث آئی ہے: قوموالیلہاوصوموانہارہا، یہ حدیث چوںکہ ضعیف ہے اورضعیف فضائل اعمال میںتمام محدثین کے نزدیک قابل عمل ہوتی ہے؛ اس لئے اگرروزہ رکھناچاہے تورکھ سکتاہے…‘‘ (www.darulifta-deoband.com, Fatwa ID: 699-699/B=9/1437جواب نمبر: ۶۸۱۴۱)۔
جب کہ بعض حضرات نے سنت یامستحب مانتے ہوئے اس دن روزہ رکھنے کونا درست قراردیاہے؛ چنانچہ عالم اسلام کے مشہورفقیہ حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب دامت برتہم فرماتے ہیں: ’’سارے ذخیرۂ حدیث میںاس روزہ کے بارے میںصرف ایک روایت ہے کہ شب براء ت کے بعدوالے دن روزہ رکھو؛ لیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص اس پندرہ شعبان کے روزے کوسنت یامستحب قراردینابعض علماء کے نزدیک درست نہیں؛ البتہ پورے شعبان کے مہینے میںروزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے…دوسرے یہ کہ یہ پندرہ تاریخ ایام بیض میںسے بھی ہے اورحضورﷺ اکثرہرماہ کے ایام بیض میںتین دن روزہ رکھاکرتے تھے…اگراس نیت سے روزہ رکھ لے توان شاء اللہ موجب اجرہوگا؛ لیکن خاص پندرہ تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزہ کوسنت قراردینابعض علماء کے نزدیک درست نہیں‘‘(اصلاحی خطبات:۴؍۲۶۷-۲۶۸)۔
لہٰذا اگرسنت نبوی پرعمل کرتے ہوئے کوئی شخص اس مہینے کے اکثردنوںکاروزہ رکھ رہاہو، یاایام بیض کے روزے رکھتارہاہو، یا کم از کم ایام بیض کے روزے سمجھ کررکھتاہو تورکھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ لیکن جس طرح سے اس دن روزہ رکھنے کااہتمام کیاجاتاہے، وہ خطرہ سے خالی نہیں کہ عوام میںسے بعض تواسے واجب اوربعض سنت سمجھ کرہی روزے رکھتی ہے؛ حالاںکہ بہت زیادہ تواسے مستحب ہی قراردیاجاسکتاہے۔
اس سلسلہ میںایک اوربات قابل ذکریہ ہے کہ اس سال شب براء ت جمعرات کی رات ہے اورروزہ رکھاجائے توروزہ کادن جمعہ کادن ہوگا، سوال یہ ہے کہ کیاتنہاجمعہ کاروزہ رکھاجاسکتاہے یانہیں؟یہ سوال اس لئے پیداہوتاہے کہ حدیث میںیہ بات آئی ہوئی کہ تنہاجمعہ کے دن روزہ رکھنے سے اللہ کے رسولﷺ نے منع فرمایاہے؛ چنانچہ محمدبن عبادکہتے ہیںکہ میںنے حضرت جابرؓسے پوچھا: نہی النبی ﷺعن صوم یوم الجمعۃ، (کیانبی کریم ﷺ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا)توانھوںنے جواب دیا: ہاں، ابوعاصم کے علاوہ دیگرحضرات نے اس میںاضافہ کیاہے: جمعہ کے دن تنہاروزہ رکھنے سے منع فرمایا۔(بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۸۴)، معلوم ہواکہ اگرجمعہ کے ساتھ جمعرات یاسنیچرکے دن کوملاکرروزہ رکھاجائے توکوئی حرج کی بات نہیں، اسی طرح کسی شخص کوروزہ رکھنے کی کوئی عادت ہو، مثلاً: ایام بیض کے روزے، اوروہ جمعہ دن پڑجائے تواس کے تنہااس دن روزہ رکھنے کوجائز قراردیاگیاہے(شرح النووی علی مسلم، کتاب الصیام:۷؍۹۶)۔
یہاںایک دوسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ تنہاجمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کیوںہے؟ اس سلسلہ میںمختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں؛ لیکن ملاعلی قاریؒ نے دووجہیں ذکرکی ہیں: ایک یہ کہ روزہ ررکھتے رکھتے کہیںہم اس دن کی تعظیم اس طرح نہ کرنے لگیں، جیسی تعظیم یہودسنیچر کے دن کی کرتے ہیں، اس سے بچنے کے لئے تنہاجمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیاگیاہے، دوسرے یہ کہ اس دن کی خاص فضیلتیںہیں، لہٰذا نبی کریم ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ جوفضائل اس دن کے لئے ہیں، ان کو دوسری عام فضیلتوںکے ساتھ ملایانہ جائے؛ اس لئے صرف اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے(مرقاۃ المفاتیح، باب صیام التطوع: ۶؍۳۷۷)۔
فقہاء میںسے امام ابوحنیفہ ؒاورامام محمدؒ کے یہاںجمعہ کے دن روزہ رکھنامستحب ہے(منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک للعینی، ص: ۲۷۹)،ان حضرات کی دلیل وہ حدیث ہے، جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: کان رسول اللہ ﷺیصوم من غرۃ کل شہرثلاثۃ أیام، وقلماکان یفطریوم الجمعۃ۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر:۷۴۲)’’رسول اللہ ﷺ ہرمہینے کے ابتدائی یا ایام بیض کے تین دن روزہ رکھاکرتے تھے اورجمعہ کے دن کم ہی اافطارکرتے تھے(یعنی اکثرروزہ رکھتے تھے)‘‘،ان ا قوال کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے علامہ کشمیریؒ لکھتے ہیں:اگرفساداعتقادکاوہم ہوتوروزہ نہ رکھے، ورنہ روزہ رکھنامستحب ہے(العرف الشذی: ۲؍۱۷۳، تحقیق:محموداحمدشاکر)۔
ان اقوال کی روشنی میںاس سال شب براء ت کے موقع پر روزہ رکھنے کے تعلق سے مندرجہ ذیل باتیںکہی جاسکتی ہیں:
(الف) اگراس سے پہلے اس دن روزہ رکھتے رہے ہوںتواس مرتبہ ترک کردیجئے کہ ایک مستحب عمل پرواجب یاسنت کی طرح مواظبت نہیںہونی چاہئے۔
(ب) اگرروزہ رکھنے کاارادہ ہوتودودن روزہ رکھیں؛ تاکہ ہراعتبارسے حدیث پرعمل ہوجائے۔
(ج) اوراگرتنہاجمعہ کے دن ہی روزہ رکھناچاہیںتواس کی بھی گنجائش ہے۔
۳- دعاکاخاص اہتمام : اس رات میںمانگی جانے والی دعاقبول ہوتی ہے؛ اس لئے اس کااہتمام ہوناچاہئے؛ البتہ اس دعاکاخاص اہتمام کیاجاسکتاہے کہ آںحضرتﷺ سے منقول ہے؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ شعبان کی پندرہ تاریخ کی رات کواللہ کے رسولﷺ حالت ِسجدہ میںدعاکیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے: اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ،جَلَّ وَجْہُکَ’’میںتیری بخشش کے ذریعہ تیری سزاسے پناہ مانگتاہوں، میںتیری رضاکے ذریعہ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتاہوں اورمیںتجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں، تیری ذات بلندہو‘‘(کنزالعمال ، حدیث نمبر: ۳۸۲۹۰)، نیزاس وقت عالمی وبا(Covid-19)پھیلی ہوئی ہے، اس سے چھٹکارہ کے لئے خصوصی طورسے دعاکرنی چاہئے، اسی طرح ملکی حالت کے سدھارکے لئے بھی دعاکرنی چاہئے، بالخصوص یہاںکے مسلمانوںکے ساتھ جوسلوک کیاجارہاہے، اس سے خلاصی کی دعاہونی چاہئے کہ اللہ کی ذات تودلوںکوپھیرنے والی ذات ہے۔
۴- قبرستان کی زیارت کرنا : اس تاریخ کاایک عمل قبرستان جانابھی سمجھاجاتاہے، اس سلسلہ میںحضرت عائشہؓ کی روایت بھی ہے، وہ فرماتی ہیںکہ (پندرہویں شعبان کی )ایک رات میںنے رسول اللہ ﷺ کونہیںپایاتومیںتلاش کرنے نکلی توکیادیکھتی ہوںکہ آپﷺ ’’جنت البقیع‘‘ میںہیں(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۳۹)؛ اس لئے مسلمان بھی اس بات کااہتمام کرتے ہیںکہ اس تاریخ کوقبرستان جائیں؛ لیکن اس قبرستان جانے کوویسی ہی حیثیت دے دی گئی، جیسی حیثیت اس رات کی فضیلت کی ہے؛ حالاںکہ رسول اللہ ﷺ سے ہرسال اس تاریخ کو قبرستان جاناثابت نہیں؛ اس لئے ہمیںبھی اس عمل کااہتمام اس طرح نہیںکرناچاہئے، جس طرح اہتمام رات جاگ کرعبادت کرنے کاکرتے ہیں، اس سلسلہ میںحضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنے والدماجدحضرت مولانامفتی شفیع دیوبندیؒ کے حوالہ سے بڑے پتہ کی بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں: (میرے والدماجدقدس سرہ) فرماتے تھے کہ جوچیز رسول اللہ ﷺسے جس درجہ میںثابت ہو، اسی درجہ میںاسے رکھناچاہئے، اس سے آگے نہیںبڑھناچاہئے، لہٰذاساری حیات طیبہ میںرسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانامروی ہے…اس لئے تم بھی اگرزندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ توٹھیک ہے؛ لیکن ہرشب براء ت میںجانے کااہتمام کرنا، التزام کرنااوراس کوضروری سمجھنا اوراس کوشب براء ت کے ارکان میںداخل کرنااوراس کوشب براء ت کالازمی حصہ سمجھنااوراس کے بغیریہ سمجھنا کہ شب براء ت نہیں ہوئی، یہ اس کواس درجہ سے آگے بڑھانے والی بات ہے‘‘(اصلاحی خطبات:۴؍۹۵۲-۲۶۰)۔
۵- چراغاںسے بچنا : یہ رات عبادت کی رات ہے، اللہ تعالیٰ اس رات کوآسمان دنیاپراترآتے ہیں، ظاہرہے کہ اس رات ہمیںعبادت میںہی اپنے آپ کومشغول رکھناچاہئے، دوسرے وہ کام بالکل نہیںکرناچاہئے، جوغیرثابت،فضول خرچی پرمبنی اورغیروںکے مشابہ ہو، چراغاں کامسئلہ بھی ایساہی کچھ ہے، اس کاکوئی ثبوت نہیں، نہ شرعاً، نہ عقلاً ، پھراس میںبے انتہافضول خرچی بھی کی جاتی ہے، جس سے قرآن نے صراحتاً منع کیاہے اورفضول خرچی کرنے والے کوشیطان کابھائی قراردیاہے(ألإسراء:۲۷)، پھریہ غیروںکی مشابہت ہے، چراغاںکرنے کاکام مجوسی اورغیرمسلم کرتے ہیں، اورظاہرہے کہ ان کی مشابہت ہمیںنہیںکرنی ہے؛ کیوںکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: من تشبہ بقوم، فہومنہم۔ (سنن أبی داود، حدیث نمبر:۳۵۱۲)’’جوکسی قوم کی مشابہت اختیارکرتاہے تواس کاشمارانھیںمیںہوتاہے‘‘؛ اس لئے ہمیںاس سے پرہیز کرناچاہئے۔
۶- اجتماع سے اجتناب : یہ رات عبادت والی ضرور ہے؛ لیکن اجتماع والی نہیں، عبادت چوںکہ نوافل میںہے اورنوافل کااہتمام گھرمیںکرنازیادہ بہتراورپسندیدہ ہے کہ یہ ریاسے دور،گھرقبرستان بنانے سے نکالنے والا اورگھروالوںکے لئے خیروبرکت کاباعث ہوتاہے(دلیل الفالحین، باب استحباب جعل النوافل: ۶؍۴۵۱)، نیز ابھی چوںکہ کوروناکی وجہ سے حکومتی سطح پراس کی ممانعت ہے؛ بل کہ اس کی خلاف ورزی پرای آئی آربھی ہورہاہے؛ اس لئے اجتماع سے بچتے ہوئے خوب خوب عبادت کریں۔
۷- حلوہ سے پرہیز : میٹھی چیزکاپکوان فی نفسہ جائز ہے، سال کے کسی بھی دن میٹھی چیزیں پکائی جاسکتی ہیں اورکھائی بھی جاسکتی ہیں؛ لیکن اس کے لئے دن اوروقت مقررکرنادرست نہیں، اس لحاظ سے شعبان کی پندرہ تاریخ کادن طے کرنااوریہ سمجھناکہ اس تاریخ کے اعمال میںسے ایک عمل اوراس کے ارکان میںسے ایک رکن ہے تویہ نادرست بات ہے، پھراس میںیہ عقیدہ رکھناکہ آج مرنے والوںکی عیدہے اوران کی روحیںآج اپنے گھروںمیںآتی ہیںاورحلوہ کھاکریاچکھ کرجاتی ہیں تویہ بدعات وخرافات کاحصہ ہیں، جن سے بچناہرحال میں ضروری ہے؛ کیوںکہ اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: من أحدث فی أمرناہذامالیس منہ، فہورد(بخاری، حدیث نمبر:۲۶۹۷)’’جس نے ہمارے اس دین کوئی نئی بات پیداکی تووہ قابل ردہے‘‘، لہٰذا ہمیںخاص اس دن حلوہ بنانے سے بالکلیہ پرہیزکرناچاہئے۔
یہ تھی کچھ ان اعمال کی فہرست، جوشب براء ت کے دن ہمیںکرنے اوربچنے ہیں، اللہ تعالی سے دعاہے کہ ہمیںعمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!
Comments are closed.