لاک ڈاؤن میں شب برات: افراط و تفریط سے بچیں

کامران غنی صبا، مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان
آج شب برات ہے۔آج کی رات کے متعلق مختلف طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ شب برات کے تعلق سے ایک بڑا طبقہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ جہاں ایک طرف بہت سارے افراد بالخصوص نوجوان شب برات میں صرف شب بیداری کو عبادت سمجھتے ہیں اور رات بھر جاگنے کے لیے وہ یا تو سڑکوں پر مٹرگشتیاں کرتے ہیں، بائیک چلاتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کر کے رات گزار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شب برات کی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لیں وہیں دوسری طرف ایک اور بڑا طبقہ سرے سے شبِ برات کی اہمیت و فضیلت کا ہی انکار کرتا ہے۔یہ دونوں رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ جو لوگ شب برات کی اہمیت و فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ کثرت کے ساتھ درود و سلام کا اہتمام کریں۔ اپنی، اپنے رشتہ داروں اور تمام عالمِ انسانیت کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مذہب اور قوم کی بدنامی ہو۔ وہیں جو لوگ شبِ برات کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے معروضیت کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ عام لوگوں کے ذہن میں شب برات کے تعلق سے جو غلط روایات اور رسومات رواج پا گئی ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم سرے سے شب برات کی اہمیت و فضیلت کا ہی انکار کر دیں۔ عام طور سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ شب برات کے حوالے سے جو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں وہ ضعیف ہیں اس لیے شب برات کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ حدیث کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث سند کے اعتبار سے کمزور ہو اور وہی حدیث یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ دوسری حدیث دوسرے اسناد کے ساتھ موجود ہو، تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ شب برات کے متعلق دس صحابہ کرامؓ سے اس کے فضائل روایت کیے گئے ہیں۔ اس لیے روایتوں کو ضعیف کہہ کر انہیں سرے سے رد کر دینا مناسب نہیں۔ ہاں شب برات کی وہ رسومات جن کی اصل نہ تو قرآن و حدیث میں ہے اور نہ صحابہ کرام نے کبھی یہ رسومات انجام دیں، ان سے گریز کرنا چاہیے۔ اسلام رسومات کا دین نہیں ہے۔ رسومات کے نام پر کھیل تماشا، فضول خرچی اور نئے نئے افعال کو فروغ ملتا ہے۔ گمراہی کے دروازے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے ادوار میں بھی رسم و رسومات پر سختی سے روک لگائی گئی۔ اسلام دین فطرت ہے وہ تفریح کے نام پر لوگوں کو تکلیف پہنچانے، تہواروں کے نام پر شور و غوغا کرنے اور دین کے نام پر ہنگامہ آرائی کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔
اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دہشت ہے۔ ہزاروں افراد اس وائرس کی زد میں آکر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔دنیا کے بیش تر ممالک میں لاک ڈائون چل رہا ہے۔ہمارے ملک میں بھی حکومت نے احتیاط کے پیش نظر لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مذہبی عبادتگاہیں عوام کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ مذہبی رہنائوں کی جانب سے بھی بار بار اپیل کی جا رہی ہے کہ لوگ عبادات و رسومات اپنے گھروں میں ہی انجام دیں۔ اس بار لاک ڈائون میں ہی شب برات ہے۔مسلمان آج کی رات قبرستان جاتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور متعلقین کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔ ملی اداروں اور مذہبی رہنمائوں کی طرف سے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شب برات کی عبادت اپنے گھروں میں ہی کریں۔ ایصال ثواب بھی گھروں سے ہی کیا جائے۔ نوجوان گلیوں اور سڑکوں میں نہ گھومیں۔ حکومت کی طرف سے عوامی اجتماعات اور گھر سے غیر ضروری کاموں سے باہر نکلنے پر پہلے سے ہی پابندی ہے۔ تقریباً سبھی بڑے ملی اداروں اور رہنمائوں کی طرف سے بھی بار بار اپیل کی جا رہی ہے کہ لوگ غیر ضروری کاموں سے گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ایسے میں یہ ہمارا قانونی، مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات سے بچنے کی جو تدبیریں بتائی جا رہی ہیں ہم ان پر سختی سے عمل کریں۔ اپنے کسی عمل سے قوم و مذہب کی بدنامی نہ ہونے دیں۔ شب برات میں جہاں اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے دعا مانگیں وہیں اللہ سے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ کورونا وائس کی دہشت سے پوری دنیا کو نجات عطا فرمائے اور ہم سب کو مہلک اور وبائی امراض سے محفوظ رکھے۔

Comments are closed.