قیامت سے پہلے قیامت

سمیع اللہ ملک
امریکی جریدے لائف (LIFE) کے جنوری 1948کے شمارے میں شائع بانی پاکستان قائد اعظم نے امریکی صحافی مارگریٹ بورک وائٹ کوانٹرویو میں یہ پیش گوئی کردی تھی: پاکستان دنیامیں مرکزی حیثیت رکھتاہے،اس کامحل وقوع ایسے مقام پرہے جہاں دنیاکے مستقبل کاانحصارہوگا۔ہرگزرتادن یہ ثابت کررہا ہے کہ قائد اعظم کی بات درست تھی۔
یوں توان دنوں عالمی طورپرکرونانے ایسی دیشت پھیلادی ہے کہ مغرب وامریکاجیسے مضبوط ممالک بھی معاشی بدحالی کابھی نشانہ بن رہے ہیں اوربیک وقت کئی محاذ کھل گئے ہیں۔ جب تمام معاملات جڑے ہوں تب کسی ایک چیزکے خراب ہونے پردوسری بہت سی چیزوں کاخراب ہوجانابھی فطری امرہے۔اس وقت یہی ہورہاہے۔امریکااوریورپ مل کرجو کچھ کرتے ہیں وہ کئی ممالک ہی نہیں بلکہ خطوں کوبھی ہلاکررکھ دیتے ہیں۔ان دنوں امریکااوریورپ کیلئے بہت کچھ تبدیل ہورہاہے۔تبدیلیاں توخیرپوری دنیامیں آرہی ہیں مگر امریکا ویورپ کیلئے یہ معاملہ بہت ہی اہم ہے کہ کروناکی وجہ سے عالمی سیاست ومعیشت کامرکزاب ایشیا کی طرف منتقل ہورہاہے۔ چین،جاپان،روس اورترکی کی معیشت غیر معمولی رفتارسے مستحکم ہورہی ہیں۔جنوبی کوریااورملائیشیاوغیرہ کااستحکام بھی اس معاملے میں روشن مثال کادرجہ رکھتاہے۔امریکاچاہتاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی فیصلہ کن حیثیت برقراررہے۔واحد سپر پاورہونے کے ناطے امریکاکے ساتھ یورپ نے بھی تین عشروں کے دوران بھرپورفائدہ اٹھایاہیمگراب یہ دوررخصت ہوتادکھائی دے رہا ہے۔امریکااوریورپ نے مل کردنیاکواپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔
تین عشروں کے دوران چین تیزی سے ابھراہے،جس نے امریکااوریورپ دونوں ہی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔چینی معیشت کافروغ تیزرفتاررہاہے۔چین خودبہت بڑی مارکیٹ ہے،اس لیے بہت بڑے پیمانے پرپیداواری عمل اس کیلئے ہراعتبارسے موزوں اور سودمندہے۔امریکااوریورپی ممالک اس معاملے میں اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔امریکانے محسوس کرلیاہے کہ یورپ اپنی راہ بدل رہاہے اورہرمعاملے میں اس کاساتھ دینے کوتیارنہیں۔یورپ وہی کررہاہے،جوعقل کاتقاضاہے۔یورپ کی بیشتر قوتیں افریقا اورایشیاکے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرچکی ہیں۔وہ اب سافٹ پاورپریقین رکھتی ہیں۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہرمعاملے کو ہارڈپاورکے ذریعے درست کرنانہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموارکرتاہے۔
چارپانچ سال کے دوران چین نے باقی دنیاسے اپنامعاشی رابطہ بہتربنانے کی بھرپورتیاری کی اوراس حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تیارکیا۔انہی خطوط پرچین نے پاکستان کے ساتھ مل کرسی پیک شروع کیا۔یہ منصوبہ سنکیانگ سے بحیرہ عرب تک صرف ہائی وے نہیں بلکہ میگا پروجیکٹس پرمشتمل ایک سلسلہ ہے جس کے ذریعے پاکستان بین الاقوامی تعلقات میں اپنی غیرمتحرک حیثیت کوتبدیل کرکے تیزی سے بدلتے عالمی نظام میں اہم مقام حاصل کرلے گا۔اس مرکزی راہداری ’’یوریشیا‘‘یورپ اورایشیاکے جڑنے کے بعد پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی جس سے پاکستان کے معاشی امکانات امید افزاہیں۔
سی پیک(CPEC)بیجنگ کے وژن ایک خطہ ایک سڑککامنصوبہ ہے،اس کی مددسے عوامی جمہوریہ چین کیلئے بحیرہ جنوبی چین اورآبنائے ملاکاکے بحری راستے سے گریزکرتے ہوئے مشرق وسطی اورافریقاتک رسائی کاقابلِ اعتبارراستہ ممکن ہوسکاہے۔ساتھ ساتھ چین کی معیشت کیلئے توانائی کے ذرائع اورچینی مصنوعات کیلئے بڑی منڈی بھی حاصل ہوئی ہے۔ایک خطہ ایک سڑک منصوبہ عالمی تجارتی راستوں کارخ مغرب سے مشرق کی جانب موڑرہاہے اوراس کے ساتھ ہی کثیرقطبی عالمی نظام کی بنیادرکھ رہاہے۔سی پیک میں پاکستان کے اہم کردارکوسامنے رکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ چین کایہ شراکت دارمستقبل کیلئے بیجنگ کے عالمی منظر نامے کالازمی جزہے۔اس سے پاکستان کی مرکزی حیثیت کا اندازہ ہوتاہے لیکن معاملہ یہاں تک محدودنہیں۔اسی وجہ سے پاکستان نے بارہاعالمی برادری کومتوجہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دے اورپاکستان کی متوقع پیداواری صلاحیت سے فائدہ حاصل کرنے کاموقع نہ گنوائے ۔
ادھرعمران خان نے وزیراعظم کامنصب سنبھالتے ہی یوٹرن لیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج لیے بغیربات نہیں بنے گی کیونکہ قومی خزانے میں کچھ نہیں امریکاکواسی موقع کی تلاش تھی اوروہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پرایسی شرائط نافذ کرانے کی ساش میں مصروف ہے کہ جنہیں پوراکرنے میں اس کی ساری ترقی ڈھیرہو جائے ۔امریکاچاہتاہے کہ سی پیک میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموارکی جائے۔اسی لئے وہ پاکستانیوں کوباورکرانے کیلئے پچھلے ڈھائی سال سے مسلسل یہ راگ الاپ رہاہے کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان عملاچین کاغلام ہوجائے گا۔چین نے کئی ممالک کوقرضوں کے جال میں جکڑلیاہے اوراب پاکستان کوبھی قرضوں کے شکنجے میں کسناچاہتاہے۔ امریکا کے علاوہ یورپ کے میڈیاآوٹ لیٹس بھی سی پیک کے حوالے سے تحفظات پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔چین نے بارہاوضاحت کی ہے کہ ایساکچھ بھی نہیں۔
15/اکتوبر2018کوچینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میڈیاکوبریفنگ کے دوران بتایاتھاکہ چین آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کوبیل آوٹ پیکیج دیے جانے کے حوالے سے سی پیک اوردیگرامورکاجائزہ لینے کاحامی ہے۔پاکستان کوقرضوں کاپیکیج دینے سے قبل بہترہے کہ سی پیک اورپاکستانی قرضوں کابھرپورجائزہ لیاجائے،تاہم یہ سب کچھ حقیقت پسندی کے ساتھ ہوناچاہیے تاکہ پاک چین تعلقات کونقصان نہ پہنچے۔سی پیک دوممالک کے درمیان طویل مشاورت کے بعدطے پانے والامعاہدہ ہے جسے آسانی سے ختم یا تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔اس میں کسی بھی بڑی تبدیلی غیرمعمولی دانش مندی کامظاہرہ ہوگا۔چینی دفترخارجہ کی بریفنگ اس بات کی مظہر تھی کہ چین سی پیک کوغیرمعمولی اہمیت دیتاہے۔پاکستان کیلئے بھی بہت مشکل مرحلہ تھا۔ایک طرف اسے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج بھی لیناتھااوردوسری طرف چین سے اپنے خصوصی تعلق کوبھی سنبھال رکھنا ہے۔یہ گویادودھاری تلوارسے بچنے کامعاملہ تھا ۔امریکا چاہتاتھاکہ اس مرحلے پرچین اورپاکستان کے تعلقات زیادہ بارآورثابت نہ ہوں اوردونوں ممالک مل کرروس اورترکی کے اشتراک سے ایشیاکوعالمی سیاست ومعیشت کامرکزبنانے میں ناکام ہوجائیں۔ اس کیلئے اب بھی امریکاجوکچھ کرسکتاہے وہ کررہاہے۔ ایسے میں پاکستان کوثابت کرناہے کہ وہ اپنے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئے کسی بھی ملک کے دباؤکوایک خاص حد تک ہی برداشت کرسکتاہے۔
پاکستان کے امیدافزااقتصادی امکانات،عالمی برادری سے روابط کی صلاحیتوں،بے مثل جیواسٹریٹجک محل وقوع کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ معیاری فوج اوردہائیوں پرمبنی تجربہ کار سفارت کاری نے جنوبی ایشیاکے اس ملک کواکیسویں صدی کی عالمی توجہ کی حامل ریاست بنادیاہے۔اہل بصیرت کیلئے یہ حیران کن بات ہوگی کہ21ویں صدی میں دنیاکی توجہ کامرکزچین،امریکایاروس نہیں پاکستان ہوگا۔ افسوسناک امریہ ہے کہ امریکااوربھارت نے کئی دہائیوں پرمحیط سائبروارکے ذریعے عالمی سطح پرپاکستان کی ساکھ کونقصان پہنچایا لیکن جنوبی ایشیا کی اس ریاست کی جیواسٹریٹجک اورداخلی صلاحیتیں اس بات کامظہرہیں کہ پاکستان آنے والی صدی کے خدوخال ڈھالنے کی بہترین حالت میں ہے۔اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ چین نے اپنے دیرینہ دوست کی قابلیت کاکسی اورملک سے پہلے ادراک کیااوراب دوسری عالمی قوتوں جیسے روس نے بھی پاکستان کی اہمیت کو سمجھ لیاہے۔اس طرح پاکستان عالمی منظرنامے پرتزویراتی اہمیت کاحامل ملک بنتاجارہاہے۔اس میں کچھ تعجب نہیں کہ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات جیسے بڑے سرمایہ کارملک اپنے حریفوں سے پہلے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے میدان میں آئے ہیں اورچاہتے ہیں کہ مسابقت کے اس دورمیں وہ عالمی منڈی میں اپنے قدم جمالیں کیونکہ پاکستان ان کی معیشتوں اور چین کے درمیان مختصرترین تجارتی راہداری بن گیاہے۔یہی نہیں،پاکستان سی پیک کوشمال،مغرب اورجنوب میں وسعت دیکرخودکو وسط ایشیا،روس،مغربی ایشیا(ایران،ترکی) اور افریقاسے جوڑرہاہے،جوتہذیبوں کے ارتکازکاسبب بن سکتاہے اورساتھ ہی دنیاکے مشرقی حصے کیلئے تقسیم کرواورحکومت کروپرمبنی امریکی پولیٹکل سائنس دان سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) کے نظریے تہذیبوں کاتصادمکا تریاق یعنی زہرختم کرنے کاذریعہ بن سکتاہے۔
سی پیک،تہذیبی اورجغرافیائی روابط کے امکانات کویقینی بناکرپاکستان یوریشیا(یورپ اورایشیا)کوجوڑنے میں اپناکردارادا کرسکتاہے ، اس کیلئے دوفریقوں یعنی ایران،ترکی کے ساتھ چین وروس کے ساتھ اپنے سہ فریقی اتحادکوایک پلیٹ فارم پرلاناہوگا۔عالمی طاقتوں پر مبنی یہ گولڈن رنگ یوریشیاکے وسط میں قائم ہوگا۔افغانستان سے امریکی انخلاکے بعد اسلام آباد کاکرداراس سلسلے میں بہت معاون اورفیصلہ کن ثابت ہوگا۔پاکستان اس سارے عمل کوکامیابی سے چلانے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے۔چاہے امریکااورچین ہوں یا سعودی عرب اورایران،اسلام آبادسفارت کاری کے ذریعے کئی طاقتوں سے تعلقات میں توازن قائم رکھنے کاکامیاب تجربہ رکھتاہے اورپاکستان کی بہترین صلاحیتوں کی حامل اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس فوج کے بھی ان ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں۔
سادہ سی زبان میں یہ کہاجاسکتاہے کہ پاکستان وہ مرکزی ریاست ہے جس پرچین کے مستقبل کے منصوبوں کاانحصارہے،اسی لیے اِسے نئی سردجنگ اور21ویں صدی میں تیزی سے پروان چڑھتی کثیرقطبی دنیاکابادشاہ گربنایاجارہاہے۔پاکستان اپنی ذات میں بھی مرکزی حیثیت رکھتاہے،جویوریشیا کی کئی قوتوں کوجوڑنے اورمشرقی کرہ کی مختلف تہذیبوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہ قوتیں گولڈن رنگ کے فریم ورک یاسانچے میں منظم ہونے جارہی تھیں کہ کرونانے ایک عالمی وباکی صورت میں وقت کی لگام کواپنے ہاتھ میں لے لیاہے۔
کرونا وائرس ساری دنیامیں پھیل چکاہے.کاروبارِحیات بندہوچکا۔تجارت،تعلیم،مذہبی اجتماعات،سیاحت غرض تمام شعبہ ہائے زندگی انجماد کی حالت میں چلے گئے ہیں۔پوری دنیاکی سات ارب آبادی شدیدذہنی دبا،خوف وہراس میں مبتلاہے۔بیماری کی نہ توعلامات واضح ہیں نہ ہی وجوہات،بیماری کایقینی ٹیسٹ بھی تاحال ممکن نہیں،کم ترقی یافتہ ممالک تودور،ترقی یافتہ ممالک بھی اس وائرس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اس ساری صورتحال کے تناظرمیں یقینایہ سوال بہت اہم ہے کہ کیایہ کروناوائرس واقعی ایک وبا ہے یابائیوٹیررازم کاحصہ ہے؟یہ طاعون جیسی بیماری قدرتی طورپرپیداہوئی ہے یایہ حیاتیاتی جنگ کاایک حصہ ہے؟یہ ایک سانحہ ہے یاباقاعدہ منظم سازش،جس نے صنعتی ترقی سے مستقبل میں بدلتی دنیاکانقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے؟میڈیاپرمختلف سازشی تھیوریزکیانکشافات نے دنیامیں تہلکہ مچارکھاہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق وائٹ ہاوس کی ویب سائٹ پر10مارچ2020کوفورٹ ڈیٹرک کی معلومات کے حوالے سے ایک پٹیشن جاری کی گئی جس میں کئی ایک مشکوک واقعات کاذکرکیاگیاہے جواس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ کووڈ۔19 امریکامیں سی آئی اے کی حیاتیاتی ہتھیار بنانے والی فورٹ ڈیٹرک لیبارٹری میں تیارکیاگیاتھا۔معلومات وحقائق سے واقفیت رکھنے والے سائنسدان اورماہرین کادعوی ہے کہ یہ قدرتی طورپرپھیلنے والاوائرس نہیں بلکہ لیبارٹری سے تیارشدہ ہے اور اس کامقصد لوگوں میں خوف وہراس کاماحول پیداکرنے کے ساتھ ساتھ چند بڑی یورپین طاقتوں کے عالمی،سیاسی و اقتصادی ایجنڈاکوپوراکرناہے۔یہ ایک انتہائی شاطرانہ شیطانی منصوبہ ہے جس کے بہت سے حصے اوربہت سے اقدامات ہیں اوریہ کثیرجہتی منصوبہ ہے اوراس پورے منصوبے کالب لباب”کرس” یہ ہے:
دنیا میں’’ون ورلڈـ‘کا قیام
دنیا میں ایک ہی مذہب کا نفاذ
سنگل کرنسی کادنیابحرمیں نفاذ
اورآخرمیں”ون ورلڈ لیڈر”یعنی کرائسٹ دجال کوحاکم اعلیِ تسلیم کرانیپرساری دنیا کااتفاق:
ان مقاصد کوحاصل کرنے کیلئے پلان کومزید چھوٹے پلانزمیں تقسیم کیاگیاہے جن میں سب سے خطرناک پلان دنیا کی آبادی کوسات ارب سے کم کرکے ایک ارب یاپچاس کروڑ تک لاناہے اوریہی وہ منصوبہ ہے جس کاجہاں براہِ راست تعلق کروناوائرس وبا سے ہے وہاں چین اوراس کے ساتھ منسلک تما منصوبوں کوسبوتاژکرنابھی مقصودہے گویاقیامت سے پہلے قیامت بپاکرنے کامنصوبہ بنایاگیاہے۔

Comments are closed.