کرونا وائرس کی وبا اور مسلمانوں کی قربانیاں

امدادالحق بختیار
دارالعلوم حیدرآباد
چين کے صنعتی شہر ووہان سے اٹھنے والا کرونا وائرس اس وقت دینا کے بیشتر ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے ، اس سے متاثرین کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہوچکی ہے ، وہیں ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں لوگ اس کے شکار ہوکر موت کی آغوش میں جا چکے ہیں ۔
اب تک دنیا میں مختلف قسم کے وائرس پیدا ہوکر ، بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کھڑی کر چکے ہیں؛ لیکن کرونا نامی یہ وائرس اپنی ہیبت ، دہشت ، خوفناکی اور تباہی میں پچھلے تمام وائرس سے زیادہ مہلک اور تباہ کن ثابت ہو رہا ہے، اس وائرس کے سامنے دینا کے تمام اسباب ، تمام تدبیریں ، تمام وسائل وذرائع غیر مفید اور بے کار ثابت ہو چکے ہیں ، پوری دنیا بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
اس عالمی وبا اور انسانی بیماری کے درمیان بھی بہت سے انسان دشمن عناصر اپنی فطری خباثت اورمنفی ذہنیت پر قابو رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور نفرت کا گیم کھیل رہے ہیں ، ان کی طرف سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی کوشش کی جارہی ہے ، یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ میں مسلمانوں کا بڑا ہاتھ ہے ، اس بیماری میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ہورہا ہے، مسلمانوں کی غلط روش اور خراب حکمت عملی سے یہ وائرس معاشرہ میں پھیل رہا ہے ، جو سراسر بہتان ہے ، مسلمانوں نے تمام اقوام سے زیادہ احتیاط کو لازم پکڑا ہے اور سب سے آگے بڑھ کر اس وبا میں انسانیت کی خدمت کی ہے ، چنانچہ :
- Ventilator بنانے والی امریکہ کی عالمی کمپنی Medtronic کے چیف ایگزیکٹیو جو ایک مسلمان ہیں ، جن کا نام عمر اشراق ہے ، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی کمپنی کے Ventilator کے حقوق دنیا کے تمام ممالک کے لیے مفت کیے جاتے ہیں اور اس کا کوڈ بھی عام کیا جاتا ہے ، تاکہ کرونا سے متاثرزیادہ سے زیادہ افراد کو طبی سہولت مہیا کی جا سکے اور ان کی جان بچائی جا سکے۔
- Johns kopsin کی وہ ٹیم ، جس نے کرونا وائرس چیک اورتشخیص کرنے والی سب سے تیز رفتار کٹ تیار کی ، اس ٹیم کو بھی ایک مسلم ڈاکٹر لیڈ کر رہی تھی ، جن کا نام ہبہ مصطفی ہے ، وہ مصر کی رہنے والی ہیں۔
- بہت سے مسلم ڈاکٹر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کا مختلف ممالک میں علاج کر رہے ہیں اور کتنے ہی مسلم ڈاکٹر علاج کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے ہیں ؛ چنانچہ برطانیہ میں غیر مسلم مریضوں کا علاج کرتے ہوئے ، سب سے پہلے جوتین ڈاکٹر شہید ہوئے ، وہ سب کے سب مسلمان تھے: ایک کا امجد الحورانی ، دوسرے عادل الطیار اور تیسرے حبیب الزیدی تھے۔(رپورٹ بی بی سی)
- ہمارے ملک ہندوستان اور پوری دنیا میں احتیاط کو اختیار کر تے ہوئے ، مسلمانوں نے مساجد کی جماعت کی قربانی دی ، مساجد کو بند جیسا کر دیا گیا ، جو مساجد دن رات میں پانچ مرتبہ سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں سے بھری رہتی تھی، اب وہاں بالکل خاموشی طاری ہے ، جمعہ کی نماز کی قربانی مسلمانوں نے پیش کی ، جو ان کے عقیدے اور مذہب کے اعتبار سے سب سے بڑی قربانی ہو سکتی ہے ، جن مساجد میں جمعہ کے دن ہزاروں کی تعداد میں فرزندان توحید کا مجمع رہتا تھا ، اب وہاں چار افراد سے زیادہ نہیں رہتے۔
- پورے ملک میں مسلمان بلا تفریق دین ومذہب غذائی اشیاء تقسیم کر کے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، اس مشکل گھڑی میں لوگوں کا تعاون کر رہے ہیں ، مسلمان جتنی بڑی مقدار میں کھانا اور اشیاء خوردو نوش تقسیم کر رہے ہیں، انڈیا کی دوسری قومیں مسلمانوں کی برابری بھی نہیں کر سکتی۔ یہ بات کہنے کی نہیں ہے ، لیکن جب انصاف کی آنکھیں پھوٹ جائیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی جائے تو بیان حقیقت کے لیے یہ باتیں واضح کرنی پڑتی ہیں۔
- کرونا وائرس کے مقابلہ کے لیے وزیر اعظم فنڈ میں اب تک جوسب سے بڑا چندہ دیا گیا ہے ، وہ بھی ایک مسلمان کی طرف سے تھا ، جی ہاں ! وپرو کمپنی کے مالک عظیم پریم جی نے وزیر اعظم کو 1,125 کرور کا Donation دیا ہے ،جو کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے دی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے۔
- وبائی امراض میں احتیاطی تدابیر جتنی اسلام نے دنیا کو دی ہیں، کسی میڈیکل سائنس نے بھی اتنی مضبوط اور مفید اصول نہیں دیے؛ چنانچہ وبائی بیماری کے دوران ایک شہر سے دوسرے شہر نہ جانے کا نظریہ نبی پاک ﷺ نے انسانیت کو دیا ، آپﷺ کا ارشاد ہے: جب تم کسی ملک کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے تو وہاں سے نہ نکلو اور نہ وہاں جاؤ۔
- امریکی پروفیسر Craig Considine نے مشہور امریکی مجلہ News Week میں صراحت کی ہے کہ وبائی بیماریوں میں اسلام نے جو اصول بتائے ہیں ، آج کی جدید میڈیکل سائنس بھی ان اصولوں کا اعتراف کرتی ہے ۔
- مسلمان نہ صرف وباء کے دوران احتیاط کرتا ہے ، بلکہ مسلم قوم کی پوری زندگی احتیاط اور زندگی بخش اصولوں کے ساتھ گزرتی ہے ؛ چنانچہ مسلمانوں کے یہاں پانی سے صفائی کا اہتمام اور کھانے پینے میں بہت احتیاط پایا جاتا ہے، مسلمان ہر چیز نہیں کھا سکتا ، اسلام نے بہت سی چیزوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے ، دنیا کی بہت سی قومیں بہت سے غیر صحت بخش جانوروں کو کھا جاتی ہیں ، حتی کہ خنزیر ، کتے ، چمگاڈر ، کوک روچ اور سانپ وغیرہ کو بھی ہضم کر جاتی ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنے بھی وائرس پیدا ہوئے ، ان میں سے کوئی ایک وائرس بھی کسی مسلم ملک سے نہیں اٹھا ۔
ان تمام حقائق اور مسلمات کے باوجود شیطان کے چیلے ، قدرت کے باغی اور انسانیت کے دشمن اپنی ہٹ دھرمی ، بغض ، حسد اور نفرت والی طبیعت کی وجہ سے ، مشکل حالات میں انسانیت کی خدمت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے نفرت کا وائرس پھیلانے میں اپنی طاقت صرف کر تے ہیں اور مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے کی ناپاک اور گندی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، خصوصاً انڈین میڈیا کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی لوگوں کے آلہ کار اور ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہا ہے ۔
Comments are closed.