طبقہ علماء استقامت و عزیمت کی راہ اپنائیں

مولانامحمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
علماء میں ایک طبقہ ہمیشہ علماء سوء کا بھی رہا ہے ،جن کو بادشاہوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور یہ علماء سوء دینار و درہم اور عہدہ و منصب کے لالچ میں ہمیشہ ان کے ہاتھ کھلونا بنتے رہے اور ضمیر کا سودا کرتے رہے ۔ آج بھی ملک میں ایسے افراد (علماء سوء) موجود ہیں ۔ عالم اسلام میں خاص طور پر وہاں کے حکمراں ایسے علماء کی ایک جماعت تیار کئے ہوئے ہیں ۔ حکومت جو کچھ چاہتی ہے وہ اس کے لئے بنیاد تلاش کردیتے ہیں، خواہ اس کے لئے قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویل کی نوبت آجائے،اور فقہاء کے ایسے اقوال تلاش کئے جائیں جو نامقبول شاذ اور ناقابل اعتناد ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ بات صرف مسلم ممالک ہی میں نہیں پائی جاتی بلکہ اقلیتی ممالک میں پائ جاتی ہے ۔
ماضی میں (خیر القرون کے بعد) عیسائیوں ہی کی طرح مسلمانوں کا کوئ عہد اور کوئ زمانہ اس طبقہ سے خالی نہیں رہا ۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا کہ بادشاہ وقت کو خوش کرنے کے لیے حدیثیں گھڑی گئیں ۔ غیاث بن ابراہیم عباسی خلیفہ مہدی کے دربار میں آیا اور اس کو کبوتر بازی میں مشغول دیکھا تو بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی طرف سے کبوتر بازی کے لیے ایک روایت اپنی طرف سے نقل کردی لا سبق الا فی نصل او خلف او حافر او جناح تاکہ بادشاہ کی کبوتر بازی کا جواز پیدا ہوجائے۔ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مناقب اور فضائل میں بھی اس زمانے میں حدیثیں وضع کی گئیں۔
دور اموی اور عباسی میں اس وقت کے بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ جس طرح ظلم و ستم کو روا رکھا اور جس سفاکیت اور درندگی کا ثبوت دیا اور من چاہے احکام جاری کئے اس کی مثال کم ملتی ہے ۔ درباری علماء ان کی حرکتوں کو موافق شریعت ثابت کرتے اور ان پر مہر تصدیق ثبت کرتے تھے ۔ یزید بن عبد الملک کو چالیس شیوخ نے آکر فتوی دیا کہ خلیفہ کی جو مرضی ہو ،کرے خلفاء سے اللہ کے یہاں کوئ حساب کتاب نہیں ہوگا ۔ ( تاریخ الاسلام للذھبی: ۳/ ۱۸۰)
ہندوستان میں دور اکبری میں تو اس طبقہ نے ساری حدوں کو توڑ دیا، ان کی حرص و ہوس اور طمع و لالچ نے کیا گل کھلائے اور بادشاہ اکبر کو کہاں تک پہنچا دیا اس کے لئے حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رح کا یہ اقتباس پڑھئیے ۔:
خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتھد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان الاسلام کہف الانام امیر المؤمنین ظل اللہ علی العالمیں ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی ،خدا اس کی حکومت ہمیشہ قائم رکھے سب سے زیادہ عدل والے ،عقل والے ،علم والے ہیں،اس بنیاد پر ایسے مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ذھن ثاقب اور صائب رائے کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے مد نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو مسلک قرار دیں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا یہ فیصلہ اتفاقی سمجھا جائے گا ۔( منتخب التواریخ ۶/ ۲۷۱ ترجمہ مولانا گیلانی رح)
شیخ مبارک کے بارے میں خواجہ باقی باللہ کے صاحبزادے خواجہ کلاں کا بیان ہے کہ وہ سلطان ابراہیم لودھی کے عہد حکومت میں کٹر سنی،سوری کے دور حکومت میں مہدوی،ہمایوں کے زمانہ میں نقشبندی اور اکبر کے دور اور عہد سلطنت میں صلح کل کا علمبردار بن کر مشرب اباحت پر گامزن ہوا،ہر دور میں اس کا وہی مسلک اور مذھب ہوتا تھا،جس پر اس عہد کے حکمراں گامزن ہوتے تھے ۔ (دین الہی اور اس کا پس منظر بحوالہ ماہنامہ رضوان اپریل ۲۰۱۹ء)
شیخ مبارک کے بیٹے ابو الفضل و فیضی بڑی علمی لیاقت کے مالک اور کئی زبانوں سے واقف تھے ،جس کا اندازہ قرآن مجید کے غیر منقوط ترجمہ سے لگایا جاسکتا ہے، ابو الفضل نے مہا بھارت کا فارسی ترجمہ کیا اور مقدمہ میں اکبر کی تعریف و توصیف میں مبالغہ کی انتہا کردی،اسی دور میں مخدوم الملک مولانا عبد اللہ سلطان پوری نے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور جب ان کے آبائی قبرستان کو کھولا گیا تو تین کروڑ مالیت کا سونا بر آمد ہوا۔ صدر الصدور عبد النبی زکوۃ میں خود بھی حیلہ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا فتوی دیتے تھے ۔ (حوالہ سابق)
بعض صوفیاء نے تو وحدت الوجود کے عنوان سے بادشاہ اکبر کو مظہر الہی قرار دے کر بادشاہ کو سجدہ کرنا جائز ٹھہرایا ۔ علامہ بدایونی مفتیوں اور قاضیوں کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں ہیں :نو روز کے جشن کی محفلوں میں علماء و صلحاء بلکہ قاضی اور مفتی بھی شراب نوشی کرتے،اور بدین بادشاہ علماء سوء کی اس کیفیت کو دیکھ کر بڑے ناز سے یہ شعر پڑھتا تھا:
در عہد بادشاہ خطا بخش و جرم پوش
حافظ قرابہ کش شد و مفتی پیالہ نوش
(منتخب التواریخ :۴۰۹ بحوالہ ماہنامہ رضوان اپریل ۲۰۱۹ء)
اس طرح کے درباری مفتی و قاضی اور علماء سوء آج بھی موجود ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو مال و دولت اور عہدہ و منصب کے حقیر دنیاوی مفاد کے لئے سخت نقصان پہنچا رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں وہ سماج اور معاشرہ میں بالکل بے حیثیت اور بے وقعت ہیں ان کو کوئ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ خود گھٹن کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
الحمد للہ اس امت میں ہمیشہ علماء ربانیین کی بڑی تعداد رہی جنہوں نے کلمة حق عند سلطان جائر پر عمل کیا یعنی انہوں نے جابر بادشاہ کے سامنے انصاف اور حق کی بات کی۔
امت میں ایسے بھی علماء ربانیین رہے جنہوں نے حکومت کے قرب کو حکمرانوں کی اصلاح اور شریعت کی حفاظت و تنفیذ کے لئے استعمال کیا اور انہوں نے اس سے دین و مذہب کو بڑا فائدہ پہنچایا ۔ حضرت امام یوسف رح شہاب الدین زہری اور بھی بہت سے علماء کرام کی مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن اس امت میں زیادہ تر علماء کرام وہ رہے جنہوں نے بادشاہ کے قرب کو کسی طرح مناسب نہیں سمجھا وہ ان سے دوری اور فاصلہ بنا کر رہے اور حق کا اظہار و اعلان کرتے رہے ۔ یہی وجہ رہی کہ وہ حکومت وقت کے مطعون رہے اور انہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔ امام ابو حنیفہ رح پر کوڑے برسائے گئے ۔قید کی سزا برداشت کرنی پڑی اور قید خانے ہی میں ان کی وفات ہوئ۔ امام مالک رح کو جعفر بن سلیمان نے اسی کوڑے لگوائے ۔صرف اس لئے کہ وہ حالت اکراہ کی بیعت کو نامعتبر قرار دیتے تھے اور ایک موقع پر ان کے ہاتھ اس طرح کھنچوائے کہ بازو مونڈوں سے الگ ہوگیا۔
امام شافعی رح کے بارے میں آتا ہے کہ مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید کسی بات پر ان سے ناراض ہوا قریب تھا کہ ان کو قتل کرا دیتا لیکن امام محمد رح کی سفارش نےان کی جان بچائ۔
امام احمد بن حنبل کو ابتلا و آزمائش کے کن حالات سے گزرنا پڑا وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے اسلام کی تاریخ میں شاید کسی عالم دین کو شریعت پر استقامت کی ایسی سزا ملی ہو ۔
ایک موقع پر امام محمد رح نے ایک مظلوم کی حمایت میں فتوی دیا اور حسن بن زیاد نے ان کے فتوے کی تائید کی ۔ لیکن قاضی وہب بن وہب نے خوشامد میں اس مظلوم کے خلاف فتوی دیا ،جس کو بادشاہ قتل کرنا چاہتا تھا۔چنانچہ ہارون نے اپنے سامنے پڑی ہوئ دوات اٹھا کر اس زور سے امام محمد رح کے سر پر ماری کہ آپکا چہرہ زخمی ہوگیا ۔ امام محمد رح باہر نکل آئے اور دیر تک روتے رہے ،جب پوچھا گیا کہ ایک زخم پر جو اللہ کے راستے میں لگا ہے آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں، تو امام محمد رح نے فرمایا :
فتوی دینے والے سے پوچھنا چاہیے تھا کہ تم نے کس بنیاد پر یہ فتوی دیا؟ اور حق گوئی سے کام لیتے ہوئے اس کے خلاف حجت قائم کرنی چاہیے تھی۔ چاہے میں قتل کردیا جاتا ۔
تاریخ کی ورق گردانی کرتے جائیے اور عزیمت و استقامت کے پیکر علماء کرام کی بے مثال زندگی پر رشک کیجئے ۔ یہ امام ابن تیمیہ رح ہیں کتنی آزمائشوں سے ان کو گزرنا پڑا قید و بند کی اذیتوں کو بارہا برداشت کرنی پڑی لیکن کبھی بھی پائے استتقامت میں لغزش نہیں آئ اور قید و بند کی حالت میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا اور امت کو مستفید کرتے رہے ۔ علامہ سرخسی رح نے اوزجند کے قید خانے میں ایک مدت گزاری اور وہیں پندرہ جلدوں میں المبسوط جیسی فقہی انسائیکلو پیڈیا مرتب فرمائی ۔
تابعین کے سردار اور زہد و قناعت کے تاجدار حسن بصری رح کو دیکھئے خلیفہ وقت کی بے راہ روی پر برملا تنقید کی، حجاج کی شمشیر براں اور سفاکی ضرب المثل ہے لیکن حسن کی زبان بے باک اظہار حق سے کبھی باز نہ آئ ۔
رئیس الفقہاء و المحدثین امام مالک رح کا خلیفہ عباس منصور سے طلاق مکرہ کے بارے میں اختلاف ہوا ۔ امام مالک رح طلاق مکرہ کے قائل نہ تھے ۔ جس کی وجہ سے خلیفہ نے بغرض رسوائ گدھے پر سوار کرکے پورے شہر کا چکر لگوایا، لیکن اس حال میں بھی وہ حق کا نعرئہ مستانہ لگاتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک بن انس و طلاق المکرہ لیس بشئی انہوں نے روباہ مزاجی سے کام نہ لیا اور نہ زہر ہلاہل کو کبھی قند کہا ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
والی مصر ابن سہیل امام یزید بن حبیب تابعی کی عیادت کو آیا اور دریافت کیا کہ جس کپڑے میں مچھر کا خون لگا ہو۔ اس میں نماز جائز ہے یا نہیں؟ امام نے غصہ میں آکر کہا تو روزانہ اللہ کے بندوں کا خون بہاتا ہے اور مچھر کے خون کے بارے میں مسئلہ پوچھتا ہے ۔
سفیان سوری امام اعمش عبد اللہ بن طاؤس وغیرہ کتنے ہی علماء و فقہاء ہیں کہ حق گوئ اور بے باکی نے ان کی جان جوکھم میں ڈال دی اور وہ بادشاہوں کے ہاتھ سے قتل ہوتے ہوتے بچے ۔
جب ہندوستانی حکومت نے یہاں کے نصاب تعلیم میں مشرکانہ تہذیب اور ہندوانہ ایڈولوجی کو شامل کرنا چاہا اور وندے ماترم کو سب کے لئے لازم کرنا چاہا تو مولانا علی میاں ندوی رح کی غیرت جوش میں آئ اور رگ حمیت پھڑک گئ اور میڈیا کے سامنے صاف اعلان کردیا کہ ہم تمام مسلمان بچوں کو اسکول سے واپس بلا لیں گے اگر حکومت اس فیصلہ کو نہیں بدلتی ۔
باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا تو امتحاں ہمارا
کہاں تک شمار کراوں ہر دور میں مصلحین و مجددین اور علماء حق نے کفر کو للکارا اور باطل کی کلائ مڑوڑی ہے ۔ کبھی مجدد سرہندی نے تو کبھی شاہ ولی اللہ دہلوی نے تو کبھی مولانا مدنی نے تو کبھی محمد علی جوہر نے تو کبھی مولانا تھانیسیری اور حسرت موہانی نے ۔ آپ اب زیادہ دور نہ جائیے ابھی ماضی قریب میں ۱۹۶۲ سے ۱۹۶۹ تک کی زمانے کو یاد کیجئے کہ عالم عربی خصوصا ناصری حکومت میں قومیت و عصبیت اور لادینیت کی ایسی یلغار ہوئ کہ عالم عربی کے قوی مضمحل ہوگئے کوئ ایسا مرد قلندر موجود نہ تھا جو اس فتنے اور بڑھتے سیلاب کو روک دینا ۔ لیکن اس وقت ایک مرد مجاہد محمد الحسنی رح ہندوستان میں بیتھ کر اپنے آتشیں قلم سے جہاد کرتا رہا اور مصریوں کے تن مردہ میں روح حیات پھونکنا شروع کیا ۔ البعث الاسلامی کے وہ مقالات کیا تھے؟ان میں آبشاروں کی طاقت تھی،وہ بجلی کا کڑکا تھا اور ایک ہادی کی صوت برملا جس نے مصر کی ساری زمین کو ہلا کر رکھ دیا ۔ باطل کا ایوان لرزہ بر اندام ہوگیا اور باطل کے تمام پرخچے اڑ گئے ۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ ۔۔۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
یہ عزیمت و استقامت اور استقلال و پامردی کی وہ درخشاں و تابندہ مثالیں ہیں جس نے ہمیشہ بیاباں کی تاریکیوں میں قندیل رہبانی کا نمونہ پیش کرتی رہیں اور تا قیامت کرتی رہیں گی ۔
آئین جواں مرداں حق گوئ و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
غرض سلف صالحین اور علماء ربانیین کی پوی تاریخ ایسے واقعات سے پر ہیں جو ہمیں استقامت اور ثابت قدمی کی راہ دکھاتی ہے ۔ لیکن افسوس کے یہ اوصاف آج کے علماء سے ختم یا کم ہوتے جارہے ہیں ۔ بلکہ بعض نام نہاد علماء سے تو وہ باتیں کہلوائ جارہی ہیں جو باطل طاقتیں چاہتی ہیں اور میڈیا کے لوگ ان نام نہاد علماء کو اس طرح ہائ لائٹ کر رہے ہیں کہ گویا یہی امت مسلمہ کے اصل قائد اور ترجان ہیں ۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے ۔
خدا کا شکر ادا کیجئے کہ اسلاف کی طرح آج سر کٹانے کی آزمائش نہیں آئ ہے لیکن کم سے کم ہم اتنا تو کریں کہ کفر کے سامنے سر جھکانے سے اپنے آپ کو بچالیں ۔
اس وقت امت کو امام احمد کے ٹبات امام مالک کی جرات امام احمد سرہندی کی حق گوئ محمد علی جوہر کی بے باکی علی میاں ندوی کی حمیت مولانا منت اللہ رحمانی کی شجاعت حفظ الرحمن کی جرآت مولانا آزاد کی فراست و ذہانت اور محمد الحسنی کے قلم کی ضرورت ہے ۔
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
رفعت میں مقاصد کے ہمدوش ٹریا ہو
خودرائ ساحل دے آزادی دریا دے
وماعلینا الا البلاغ

Comments are closed.