ہرجرم کی سزا معافی نہیں!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
غلطی انسان سے ہوتی ہے اورغلطی ہونابری بات بھی نہیںہے کہ ہم خطاء اورنسیان کے مرکب ہیں؛ لیکن جب کوئی کام منصوبہ بندی کے ساتھ اورپری پلاننگ ہوتواسے غلطی نہیںکہاجاسکتاہے اورجب وہ غلطی ہی نہیںہے توپھراس پراگرکوئی معافی مانگے تومعافی کیسے درست ہوسکتی ہے؟اگرکوئی شخص پوری پلاننگ کے ساتھ کسی کوقتل کردے، پھرعدالت میں جاکرکہے کہ : جج صاحب! معاف کیجئے گا، میںنے غلطی سے اسے قتل کردیاتوکیامہذب دنیاکاکوئی فرداسے غلطی ماننے کے لئے تیارہوگا؟ ظاہرہے کہ نہیں۔
اس وقت ہماراملک دوسرے ملکوںکی طرح کورونا(Covid-19)سے جھونجھ رہاہے اورتازہ خبروںکے مطابق چھ ہزارپانچ سوستتر (6577) ایکٹیوہیں، سات سو چوہتر(774)شفایاب ہوچکے ہیں اورمرنے والوںکی تعداددوسوانچاس(249)بتائی جارہی ہے، ملک بندی کے نتیجہ میںجس طرح سوچاگیاتھاکہ معاملات میںکمی آجائے گی؛ لیکن سوچ کے مطابق ویسی کمی نہیںآئی ہے۔
ہندوستان میںکوروناکا پہلاکیس اس وقت سامنے آیا، جب ووہان سے لوٹی میڈیکل اسٹوڈینٹ کی رپورٹ ۳۰؍جنوری کوآئی، یہ طالبہ کیرالاکی تھی اورووہان میںزیر تعلیم ، یہ ۲۴؍جنوری کوبراہِ کولکاتہ کوچی پہنچی تھی، دہلی میںکوروناکاپہلاکیس روہیت دتتہ(Rohit Dutta)کاسامنے آیا، جو فروری کے لاسٹ میںویانا سے لوٹے تھے، یہ دراصل ایک چمڑے کے تاجرہیںاوروسط فروری میںاس تعلق سے اٹلی گئے تھے،ان کی خودکی ویڈیومیںاس کااعتراف ہے اوریہ بھی کہ وہ مکمل طورپر شفایاب ہوچکے ہیں، بے بی ڈول سنگرکنیکاکپور۹؍مارچ کولندن سے لوٹی تھی، ۲۰؍مارچ کومعلوم ہواکہ وہ کوروناپوزیٹیوہے، اس سے قبل ۱۳؍مارچ کووہ لکھنؤکے تاج ہوٹل میں ایک پارٹی اٹینڈ کرچکی تھی، خبروںکے مطابق یہ بھی شفایاب ہوچکی ہے، ۲۳؍مارچ کوچنڈی گڑھ کی رہنے والی ایک ۲۳؍ سالہ لڑکی لندن سے لوٹی، چانچ میںوہ ، اس کی ماںاوربھائی وغیرہ بھی کوروناپازیٹیوپائے گئے۔
مارچ کے دوسرے عشرہ میںمرکزنظام الدین میںاجتماع ہوا، جس میںملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ایک معتدبہ تعدادنے شرکت کی تھی، معلوم نہیںبیرون سے آنے والے ان لوگوںکی چانچ ہوئی یانہیںاوراگرجانچ ہوئی توانھیںاس اجتماع میںشرکت کی اجازت کیسے ملی؟جب کہ اس وقت تک کوروناکادائرہ ہندوستان میںبھی پھیل چکاتھا، یہ سب تحقیق طلب امورہیں، ۲۲؍مارچ کوپورے ملک میںجنتاکرفیو لگایاگیا، پھراچانک ۲۱؍دن کے لئے ملک بندی کردی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ مختلف جگہوں میںبھی پھنس گئے ، مندر، مسجد، گردوارہ میںپھنسنے کی طرح لوگ مرکزنظام الدین میںبھی پھنس گئے، پھرمارچ کے اخیرمیںیکایک تبلیغی مرکزپردھاوابولاگیااورنیوزچینلوںمیں یہ بتایاگیاکہ مرکزنے لوگوںکوچھپاکررکھاتھا، پھراس کثرت سے نیوزپھیلائی گئی کورونااس ملک میںتبلیغیوںکی وجہ سے آیاہے کہ دیہات کے لوگ تک اس سے متأثرہوگئے،اس طرح کی نیوز تسلسل کے ساتھ چلائی گئی؛ حتی کہ بعض منسٹروںکی طرف سے یہ بات آگئی کہ جتنے بھی کوروناکے کیس ہیں، ان میں۳۰؍ فیصدتبلیغیوںکی ہے؛ لیکن انھوںنے جہاں تیس فیصد کاذکرکیا، وہیںسترفیصدکے ذکرکوگول کردیا، گویاایک پلاننگ ہوگئی مسلمانوںکوبدنام کرنے کی، میڈیاکوتوشوشہ کی ضرورت تھی، وہ منسٹرصاحب کے اس جملہ سے حاصل ہوگیا اورپھر وہ اودھم مچایاگیاکہ بس اللہ کی پناہ! پھرسوشل میڈیاکے ذریعہ نفرت کے پجاریوںنے غیرمسلم بھائیوںسے یہ مطالبہ بھی شروع کردیاکہ درگاہ پہ مت جاؤ، مورپنکھ باباکوچندہ مت دو، مومن سے پھل سبزی مت خریدو، مومن درزی سے کپڑے مت سلاؤ، مومن نائی سے بال مت کٹواؤ، مومن کی ٹیکسی یارکشہ میںمت بیٹھو، مومن کے ہوٹل میںمت کھاؤ، اورمومن پلمبر، ایلیکٹیشن اورویلڈرکوریپلیس کرو، اس کانتیجہ یہ ہے لوک ڈاؤن کی اس مہاماری میں، جب کہ پورے ملک کوایک ساتھ کھڑاہوناچاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے، ایک دوسرے کی ضرورت کوپوری کرنی چاہئے؛ لیکن ایسے موقع سے جب کوئی مسلم کسی غیرمسلم کے دوکان میںخریداری کے لئے جاتاہے تووہ دورہی سے منع کردیتاہے، آپ تصورکیجئے کہ آپ کے گھرمیںکھانے پینے کاسامان نہ ہو، گاؤںدیہات میں ایک ہی راشن کی دوکان ہو، آپ وہاںخریداری کے لئے جائیںاورلاک ڈاؤن کے اس دورمیںآپ کوسامان دینے سے منع کردیاجائے، آپ کے پاؤںتلے سے زمین نکلے گی یانہیں؟آپ نہانے کے لئے جائیںاورآپ کے غیرمسلم دوست کہیںکہ تم اس گھاٹ میںمت نہاؤ، آپ کوتکلیف ہوگی یانہیں؟ آپ کودواکی سخت ضرورت ہواورآپ میڈیکل جائیںاورآپ کودوادینے سے منع کردیاجائے، آپ کواچھالگے گاکیا؟ ڈیلوری پیشن ہوسپٹل جارہی ہے اوراسے منع کردیاجارہاہے؛ حتی کہ راستہ ہی میںاس کی ڈیلوری ہورہی ہے، کیااس سے زیادہ بھی اذیت ہوسکتی ہے؟
ہماراجرم کیاہے؟ بس یہی کہ بعض مسلمانوںمیںکوروناپا,یٹیوپایاگیاتوکیاآپ نہیںجانتے کہ کوروناکی بیماری میںغیرمسلم بھی شریک ہیں اوپرکے ڈیٹاسے آپ کواندازہ ہواہوگاکہ انھیںکے کیس پہلے دریافت ہوئے، یہ سب میڈیاکی کارستانی ہے، شایدانھیںپتہ نہیںکہ ان لوگوںنے ہمارا ذہنی ٹارچرہی نہیںکیا؛ بل کہ ایک طرح سے ہمارافیزیکلی مرڈرکیاہے، چھتیس گڑھ کی یہ نیوز آئی تھی کہ تبلیغی جماعت کے ایک سوانسٹھ (159)لوگوںکواس شبہ میںگرفتاکیاگیاکہ وہ کوروناکے مریض ہیں؛ لیکن بی بی سی ہندی نیوز کے مطابق ان میںسے ایک سوآٹھ(108)غیرمسلم تھے، پھریہ حکومتی طورپربتائی جارہی تھی، کل ہی کی بات ہے کہ زی نیوز نے اس پرمعافی مانگی کہ اس نے غلط نیوزدکھائی تھی کہ ارونانچل پردیش کے ۱۲؍ تبلیغی کوروناکے مریض ہیں، جب کہ یہ غلط ہے۔
سوال یہ ہے کہ زی نیوزکا یہ معافی مانگناکافی ہے؟ جن چینلوںنے ہمیںذہنی اذیت پہنچائی ہے اورہمارافزیکلی مرڈرکیاہے، جس کے نتیجہ میںہمیںکھانے پینے کے سامان تک نہیں مل پارہے ہیں، اٹھنابیٹھنادشوارہوگیاہے، راستہ چلنامشکل کردیاگیاہے، جہاںبھی جاؤ، بس ایک ہی چرچاہے کہ کورونامسلمانوںسے پھیلاہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میںمعافی کافی نہیں، ذہنی اذیت کوتوملکی کیا، بین الاقوامی قانون بھی جرم مانتی ہے اورجرم بھی ایساکہ جس میںایک مذہب کوبھی نشانہ بنایاگیاہے،یہ بھی تو جرم ہے، اورمیڈیاکایہ جرم نیانہیںہے، کئی سالوںسے اسی طرح کی الٹی سیدھی حرکتیںکررہی ہے، اگرکسی مسلم کانام کسی کیس میںآجائے تواسے ایسے پیش کیاجاتاہے کہ بس یہ ملک دودھ کی طرح دھلاہے، یہاںپربسنے والے دودھ کے دھلے ہیں،بس یہ مسلمان ہیںنا، یہی جرم کے رسیاہیں، اوریہ ہمیشہ سے مجرم ہی رہے ہیں، ابھی کاتازہ دہلی کے فسادکاواقعہ سب کے سامنے ہے، میڈیامیںبعض مسلمانوںکوہی ماسٹرمائنڈ بنایاگیا؛ حالاںکہ فسادسے پہلے جس طرح کی بیان بازی کی گئی اورایک قوم کے لوگوںکے خلاف بھڑکیاگیا، وہ کسی سے چھپی نہیںہے، اوراسی کانتیجہ دہلی فسادہے، لیکن وہ سب پاک پوترہیں، ان بیان بازوںکے خلاف ایف آئی آرنہیںدرج کی گئی، صرف اسی لئے نا کہ وہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ اورمیڈیانے بھی اس پرکوئی سوال نہیںاٹھایا، کیوں؟ لیکن اسی واقعہ میںجب طاہرمسلمان کانام آیاتومیڈیاحرکت میںآگئی اورپورے فسادکی جڑاسی کوقرار دیدیا، میڈیایہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
غلط خبرپھیلاناتوجرم ہے ہی، اس کے ذریعہ سے نفرت کی دیوارکھڑی کرنااوربڑاجرم ہے، اورمیڈیاکے بعض احباب نے یہ جرم کیاہے، اورچوںکہ یہ جرم چھوٹا نہیں، بہت بڑاہے؛ اس لئے معافی سے کام چلنے والانہیں، جرم کے اعتبارسے سزاہونی چاہئے، جس طرح باربارجھوٹی خبرکے ذریعہ سے لوگوںکے ذہنوںکومسموم کیاہے، اسی طرح باربار معافی مانگ کرلوگوںکے ذہنوںسے اسے ختم بھی کرناہوگااورپھرآئندہ نہ کرنے کے لئے ان پرجرمانہ بھی ہوناچاہئے؛ بل کہ ان کے اجازت ناموںکومنسوخ بھی ہوناچاہئے اور جونیوزاینکرس اس میںملوث ہیں، ان کوتوہمیشہ ہمیشہ کے لئے چینلوںسے دورکردیناچاہئے۔
[email protected] / Mob:8292017888
Comments are closed.