لاک ڈاؤن میں باجماعت نماز اور تکبیر اولی کی سہولت اور فضیلت

راشد اسعد ندوی
(امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی)
اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نظام حیات اور کاروبار زندگی میں مختلف دشواریاں اور مشکلات پیدا ہو گئیں ہیں؛ ہر شخص چاہے وہ کسی بھی طبقہ و مذہب سے تعلق رکھتا ہو چھوٹی یا بڑی آزمائش اور دقت سے دوچار ہے منجملہ ان کے ایک بہت بڑی آزمائش ہم مسلمانوں کے لیے” مسجدوں میں باجماعت نماز پڑھنے پر،، پابندی ہے، آزمائش کی اس گھڑی میں اسلامیان ہند نے دین اسلام میں دی گئی رخصتوں اور آسانیوں پر عمل کرتے ہوئے، انتظامیہ کی ہدایات اور محکمہ صحت کے ضوابط کا مکمل پاس و لحاظ کرتے ہوئے مساجد میں آنے سے اپنے آپ کو روک لیا ہے اور صبر و ضبط کا مثالی مظاہرہ کیا ہے مگر صد افسوس کہ وبائی مرض کے بے قابو ہو جانے کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی مدت میں مزید توسیع کردی گئی ہے جس کی وجہ سے لامحالہ مساجد کے دروازے بھی حسب سابق بند ہی رہیں گے اور رمضان المبارک کا آغاز بھی ہو جائے گا؛ اس صورت حال کے پیش نظر برادران اسلام اپنے دلوں میں بجا طور پر کرب و بے چینی محسوس کر رہے ہیں اور انہیں یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ رمضان المبارک کی عبادات بالخصوص نماز تراویح کس طرح ادا ہوگی!!!
اگر ہم غور کریں اور اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں تو غم و اندوہ کی اس نازک گھڑی میں اور احساس محرومی کے اس دشوار گذار مرحلہ میں بھی ہمیں امید کی کرن، کامیابی کی نوید اور شر میں بھی خیر کا پہلو نمایاں مل جائے گا ۔
بلا شبہ مسجد میں باجماعت نماز سے محرومی کا احساس ایمان کی علامت ہے اور اجر و ثواب کی زیادتی کی حرص و طلب پر دلالت کرتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں باجماعت نماز کا ثواب تنہا نماز پڑھنے کی بنسبت پچیس گنا یا ستائیس گنا جو بتایا گیا ہے وہ مسجد کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جہاں بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائے گی تنہا نماز پڑھنے کی بنسبت پچیس گنا یا ستائیس گنا اجر و ثواب ملے گا البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے جانے پر قدم قدم پر اجر و ثواب ، جماعت میں نمازیوں کی کثرت، پرکیف ماحول، روحانی فضا اور اس سے حاصل ہونے والے بے شمار دینی و دنیوی فوائد ومنافع حاصل نہیں ہوں گے۔
لہذا اس دور تالا بندی میں بھی ہمیں اپنے گھروں پر رہتے ہوئے بیوی بچوں کو لے کر پنجوقتہ باجماعت نماز کا اہتمام کرنا چاہیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق پوری روئے زمین ہمارے لیے سجدہ گاہ اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے،بہت سے لوگ اپنے گھروں میں نمازوں کی پابندی تو کر رہے ہیں مگر جماعت کو چھوڑ کر تنہا نماز ادا کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ’’سنن ه ھدی‘‘ میں سے ہے یعنی فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعت سنت مؤکدہ کی طرح سنت مؤکدہ ہے؛ بعض فقہاء نے تو باجماعت نماز کو واجب بلکہ فرض تک قرار دیا ہے اسی اہمیت کی وجہ سے نماز کی جماعت چھوڑنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔
دور نبوی میں تو تنہا نماز پڑھنے کا تصور ہی نہیں تھا؛ اس دور میں جماعت کی نماز سے وہی شخص پیچھے رہ جاتا تھا جو منافق ہو یا بہت بیمار ہو۔
علاوہ ازیں گھروں میں رہ کر باجماعت نماز پڑھنے میں اہل و عيال کی تربیت کا بھی پہلو ہے نیز نماز کے مسائل سے واقفیت حاصل کرنے اور کرانے کا سنہرا موقع ہے۔اسی طرح ایک انتہائی اہم فضیلت حاصل کرنے کا بھی ہمیں موقع ملا ہے ، ممکن ہے کہ ہم میں کتنوں کو ساری زندگی اس آسان فضیلت کے حصول کا موقع نہ ملا ہو؛ لگے ہاتھوں اس سے بھی ضرور دامن بھر لینا چاہیے۔
ملاحظہ فرمائیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جو شخص چالیس دن برابر اس طرح با جماعت نماز ادا کرے کہ کسی بھی نماز کی تکبیر اولی امام کے ساتھ فوت نہ ہو تو اس کے لیے دو پروانے لکھ دیے جاتے ہیں ١) جہنم سے براءت کا پروانہ ٢) نفاق سے بری ہونے کا پروانہ ۔
موجودہ حالات میں جب کہ ہم اپنے گھروں میں محصور ہیں اور کاروبار زندگی مکمل مسدود ہے ہمارے لیے اس مذکورہ فضیلت کو حاصل کرنا بہت آسان ہے کیوں کہ نماز کے اوقات کا نظام ہمارے اختیار اور دسترس میں ہے جب کہ عام دنوں میں ہم مساجد کے اوقات کے پابند رہتے ہیں اور خانگی اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے بسا اوقات جماعت فوت ہو جاتی ہے اور عام شرعی مساجد میں دوبارہ جماعت سے نماز پڑھنے کو احناف مکروہ بتاتے ہیں لہذا ابھی ہمیں فرصت کے لمحات میسر ہیں اسے غنیمت جاننا چاہیے اور آج ہی سے( ١٨ شعبان جبکہ یہ سطریں لکھی جارہی ہیں) اپنے گھروں میں رہتے ہوئے باجماعت نماز کا اہتمام شروع کر دینا چاہیے اس طرح ان شاء اللہ عید کے آنے سے پہلے پہلے مذکورہ دو عظیم پروانے نامہ اعمال میں شامل ہو جائیں گے ممکن ہے کہ یہی ہماری نجات کا سامان ہو جائے۔
Comments are closed.