آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
بلیچنگ مخلوط پانی سے وضو و غسل
سوال:-پانی میں بلیچنگ پاؤ ڈر ملانے سے ایک قسم کی بو پیدا ہوجاتی ہے، اس پانی سے وضو یا غسل کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ ( ابو طاہر، میڈچل)
جواب:- بلوچینگ پاؤڈر میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ناپاک ہو، اس لئے جب تک اتنی مقدار میں نہ ملایاجائے کہ جس سے پانی کا سیلان اور بہاؤ متأثر ہوجائے، اس سے وضو و غسل کیا جاسکتا ہے ۔
کلمات اذان میں کمی بیشی
سوال:-اذان میں کمی بیشی ، مثلاً ایک لفظ کو ایک وقت اداکرنے کے بجائے مستقلاً تین چارمرتبہ ادا کرنا کیسا ہے ؟ (محمد تنظیم، بارکس)
جواب :- اذان کے جو کلمات جتنی بار رسول اللہ ا سے ثابت ہیں ، اتنی ہی بار کہنا درست ہے ، اس میں اپنی طرف سے ترمیم ، کمی یااضافہ مکروہ ہے ، علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں : وأمابیان کیفیۃ الأذان فھو علی الکیفیۃ المعھودۃ المتواترۃ من غیر زیاد ۃ ولا نقصان عند عامۃ العلماء(بدائع الصنائع: ۱؍۳۶۵)اذان کی کیفیت کابیان یہ ہے کہ وہ اسی طریقہ پر دی جائے جو تواتر کے ساتھ منقول ہے ، جمہور علماء کے نزدیک نہ اس میں زیادتی کی جاسکتی ہے اور نہ کمی ۔نیز علامہ ابن نجیم مصری ؒ ’’شرح مہذب ‘‘سے نقل کرتے ہیں کہ اذان میں ’’حی علی خیر العمل‘‘ کہنامکروہ ہے، کیونکہ رسول اللہ ا سے ثا بت نہیں اور اذان میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ مکروہ ہے ، ’’والزیادۃ فی الأذان مکروہۃ (البحرالرائق: ۱؍۴۵۰)
نوافل کے بجائے فرائض کی قضاء
سوال:- بعد نماز ظہر دو رکعت سنت ادا کرنے کے بعد کیا ہم نفل چھوڑ کر فجر یا کسی فرض کی قضاء کر سکتے ہیں ؟ (محمد انظر، کوکٹ پلی )
جواب:- سنت مؤکدہ کے ادا کرنے کا تو اہتمام کرنا چاہئے ، اس لئے کہ رسول اللہ ا نے ان کو بہ اہتمام ادا فرمایا ہے ، البتہ سنن مؤکدہ کے علاوہ جو غیر مؤکدہ سنن اور نوافل ہیں ، ان کے مقابلہ فوت شدہ فرائض کو ادا کر لینا زیادہ بہتر ہے ؛ کیونکہ فرائض نوافل پر مقدم ہیں : الاشتعال بالفوائت أولیٰ و أھم من النوافل إلا السنن المعروفۃ (ہندیہ: ۱؍۱۲۵)گو بعض فقہاء نے چاشت کی نماز ، صلاۃ التسبیح ، تحیۃ المسجد ، صلاۃ الاوابین اور عصر سے پہلے چار رکعت کو بھی سنن مؤکدہ ہی کے حکم میں رکھا ہے (ردالمحتار: ۲؍۵۳۶) لیکن ظاہر ہے کہ ان کی اہمیت بہ مقابلہ فرائض اوران سے متعلق سنن راتبہ کے کم ہے ۔
انفرادی طور پر جمعہ وعیدین
سوال:-کیا عورت نمازِ جمعہ و عیدین انفرادی طور پر گھر پر ادا کرسکتی ہے ؟ یعنی جمعہ کی دورکعت فرض اور عیدین کی چھ زائد تکبیرات کے ساتھ، حنفی مسلک کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ( کلیم اللہ، حمایت نگر)
جواب:- اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ یہ خصوصی سہولت رکھی ہے کہ ان پر نمازِ جمعہ اور عیدین واجب قرار نہیں دی گئی ہے،نبی ں نے فرمایا : الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم في جماعۃ إلا أربعۃ : عبد مملوک أو امرأۃ أو صبي أو مریض (سنن أبي داؤد ، حدیث نمبر : ۱۰۶۷ ،)کیونکہ خواتین کو اس کا مکلف اور پابند کرنے میں ان کے لئے زحمت بھی ہے اور فتنہ کا اندیشہ بھی: حتی لاتجب الجمعۃ علی العبید والنساء (ہندیہ: ۱؍۱۴۴) تجب صلاۃ العید علی من تجب صلاۃ الجمعۃ (ہندیہ: ۱؍۱۵۰)جہاں تک انفرادی طور پر جمعہ اور عیدین ادا کرنے کی بات ہے ، تو جمعہ اور عیدین جماعت کے ساتھ ہی ادا کرنا ثابت ہے، ان نمازوں کو انفرادی طور پر ادا نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے اگر کسی کی نمازِ جمعہ فوت ہوجائے تو جمعہ کے بجائے اسے ظہر کی نماز ادا کرنی ہے، اور عیدین فوت ہوجائے تو اس کی قضاء نہیں ۔
ایجاب و قبول کے فورًا بعد شوہر کی وفات ہوجائے
سوال:-اگر ایجاب و قبول کے فورا بعد مباشرت کے بغیر شوہر کا انتقال ہوجائے تو مہر کی کیا مقدار واجب ہوگی ؟ مہر کون ادا کرے گا ، عدت کے کیا احکام ہوں گے ؟ کیا اسی وقت محفل میں دوسرے نوشہ کا انتخاب کیا جاسکتا ہے ؟ (عنایت اللہ، کریم نگر )
جواب:- تین صورتوں میں بیوی کا پورا مہر واجب ہوتا ہے ، میاں بیوی کے درمیان ہمبستری ہوگئی ہو ، یا ایسی تنہائی یا یکجائی ہوئی ہو جس میں کوئی چیز صحبت سے مانع نہیں تھی ،یا صحبت یایکجائی سے پہلے ہی زوجین میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجا ئے ۔ (ردالمحتار:۴؍۲۳۳) لہذا دلہن کا پورا مہر مقررہ شوہر متوفی کے متروکہ میں سے واجب ہوگا ، جو حکم میت کے ذمہ باقی رہ جانے والے دوسرے دیون کی ادائیگی کے ہیں ، وہی مہر کے بھی ہیں ، یعنی مرحوم کے متروکہ میں سے پہلے مہر ادا کیاجائے گا ، پھر میراث جاری ہوگی ، اور میراث میں بھی بیوی حق دار ہوگی ۔ عدت وفات ہر اس عورت پر واجب ہے جس کا نکاح صحیح ہو چکا ہے(ردالمحتار: ۵؍۱۹۷) لہذا اس دلہن پر بھی عدت وفات واجب ہے ، کیونکہ عدت کا مقصد شوہر کی وفات پر حزن کا اظہار ہے ، اور وہ اس کے حق میں بھی پایا جاتا ہے ، اس لئے عدت گزار نے سے پہلے اسی مجلس میں یا مجلس کے بعد کسی اور مرد سے اس عورت کا نکاح حرام ہے ۔ (۱) بیوہ عورت کے لئے عدت گزار نے کے جو احکام ہیں، یعنی بناؤ، سنگار اور زیبائش و آرائش سے اجتناب اور شوہر کے گھر میں ایام عدت پورے ہونے تک قیام بشرطیکہ جان و مال او ر عزت و آبرو کو خطرہ نہ ہو ، یہی حکم اس کمسن بیوہ دلہن کے لئے بھی ہے ۔
مسجد کی رقم کو بطور قرض دینا
سوال:- کیا مسجد کی جائداد کی آمدنی سے ملازمین مسجد کو (امام و مؤذن خادم وغیرہ ) قرض حسنہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے ؟ کیا ان ملازمین کو علاحدگی کے وقت یا انتقال کے وقت ورثاء کو معاوضہ حسن خدمت مسجد کی آمدنی سے دیا جاسکتا ہے ، جب کہ وہ ضعیفی کی وجہ سے کام کے قابل نہ رہے ہوں ؟ امام و مؤذن کے انتقال کی صورت میں بیوہ کو مسجد کی آمدنی سے ماہانہ و ظیفہ دیا جا سکتا ہے ؟ ( محمد مصطفیٰ، شمس آباد)
جواب:- ان مسائل کے سلسلہ میں چند اصول پیش نظر رہیں، اولًا یہ کہ مسجد کی منتظمہ کمیٹی کی حیثیت عوام کی طرف اپنے موقوفہ زمین و رقوم و غیرہ پر وکیل کی ہے اور وہ جو کچھ تصرف کرے گی بحیثیت وکیل کر ے گی ، کمیٹی اس میں ایسے تمام اقدامات کی مجاز ہوگی ، جس کے بارے میں معلوم ہو کہ چندہ دینے والوں کو اس کی اطلاع ہو تو وہ ناراض نہ ہو ں، عوام کی مرضی معلوم کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ عرف میں ملازمین کے ساتھ وہ رعایتیں روا رکھی جاتی ہیں ، یہاں عرف عام ہی ان کی طرف سے اجازت کے مرادف ہو گا (اشباہ: ۹۵) دوسرے یہ کہ خود چندہ دہندگان اور واقف سے تحقیق کر لی جائے ، دوسرا اصول یہ ہے کہ مسجد کے اوقاف کا استعمال مصالح مسجد ہی میں کیا جاسکتا ہے ، امام و مؤذن و غیرہ کی اجرت اور اعانت سبھی مصالح مسجد ہی میں داخل ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں عوام کی مرضی پر موقوف ہے ، اگر اندازہ ہو کہ وہ اس پر راضی ہوں گے تو دینا درست ہوگا ؛ ورنہ نہیں ۔
اجرت لے کر مسجد میں تعلیم
سوال:- (الف) کیا مسجد میں بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے ؟ بعض حضرات کسی ضرورت کی وجہ سے نماز پڑھنے دیر میں آتے ہیں اور تعلیم کی وجہ سے ان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ۔(ب) بعض حضرات کا خیال ہے کہ مسجد میں فیس لے کر اور اساتذۂ کرام کو تنخواہ دے کر تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ ( شمس الحق، ہمایوں نگر)
جواب:- اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جہاں دو نا مناسب باتوں میں سے کوئی ایک بہر حال پیش آکر رہے ، وہاں کم تر بات کو مجبورا قبول کرلیا جائے گا (الاشباہ والنظائر:۲۸۶) آپ کا سوال کچھ اسی نوعیت کا ہے ، نما زمیں خلل یا مسجد میں کوئی بھی کام کر کے اس پر اجرت وصول کرنا نامناسب بات ہے ، مگر اس سے زیادہ نامناسب اور نقصان دہ بات یہ ہوگی کہ بچوں کو مبادیات دین کی تعلیم سے بالکل نابلد رکھا جائے ، اور وہ بھی اس عہد بد دینی میں ، اس اصول کی بناء پر فقہاء نے امامت اور دینی تعلیم پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے ، (فتاویٰ ہندیہ: ۴؍۴۴۸)لہذا :(الف) تعلیم دی جاسکتی ہے ، بعد میں آنے والے صاحب کو خود احتیاط کرنی چاہئے کہ کسی گوشہ میں پڑھ لیں ، یا بچوں کی تعلیم کے اوقات میں کہیں اور نماز ادا کرلیں کہ جب جماعت نہیں ملی تو کہیں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے اور اگر مسجد دو منزلہ ہو تو مناسب ہوگا کہ خود بچوں کی تعلیم کا نظم کسی ایک منزل میں کیا جائے کہ دوسری منزل پر بعد میں آنے والے کسی خلل کے بغیر نماز ادا کرسکیں ۔(ب) اگر مسجد کے بجائے اور نظم مشکل ہو ، جیسا کہ آج کل شہروں میں مکانات کی کمی و تنگی اور مدارس کی معاشی دشواریوں کی باعث ہے تو مسجد میں بھی اجرت لے کر تعلیم دی جاسکتی ہے :أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر و غیرہ لا یکرہ ‘‘( خلاصۃ الفتاوی: ۱/۲۲۹ ، الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۵۷)
’’عبد الآصف ‘‘نام رکھنا
سوال:- ہمارے محلہ میں ایک نوجوان کا نام محمد عبد الآصف ہے ، کیا یہ نام درست ہے ؟ کسی نے کہا ہے کہ یہ غلط ہے ، اس لیے کہ آصف تو اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں نہیں پایا جاتا ۔ ( فہیم اختر، آغا پورہ)
جواب:- یہ صحیح ہے کہ آصف اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے نہیں، آصف کی اصل واصف ہے ، جس کے معنی حالت و صفت بیان کرنے والے کے ہیں، اس لیے صرف آصف تو نام رکھا جاسکتا ہے ،عبد الآصف نام رکھنا درست نہیں ۔
Comments are closed.