آن لائن نماز: ایک جائزہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ہدی چلڈرنس اکیڈمی، دھنباد(جھارکھنڈ)

دین اسلام اللہ کاآخری دین ہے، اس کے بعدقیامت ہی قائم ہوگی اورحضرت محمدﷺسلسلۂ نبوت کے آخری کڑی ہیں، ان کے بعدنہ کوئی رسول آئے گا اورنہ کوئی نبی، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انھیں خاتم النبیین قراردیاہے، ارشادہے: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْماً}(الأحزاب: ۴۰)’’ محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ‘‘۔
اس آیت میںلفظ’’خاتَم‘‘کاآیاہے، اس کوبعض نے زیرکے ساتھ(خاتِم) بھی پڑھاہے، پڑھنے کے اعتبارسے اس لفظ کوچاہے جوبھی پڑھاجائے؛ لیکن معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ہی ہے؛ چنانچہ ابن الجوزی کہتے ہیں: جس نے تاء کے زیرکے ساتھ خاتِم پڑھا، تواس کے معنی ہیں’’بنیوںکومہرلگایا‘‘ اورجس نے تاء کے زبر کے ساتھ خاتَم پڑھا، تواس کے معنی ہیں’’نبیوںکے آخر‘‘(زادالمسیر:۶؍۲۰۴)، مہرلگانے کاکام آخرمیںہی ہوتاہے؛ اس لئے معناً یہ بھی آخر کے ہی ہوئے، اس کی تائیدایک حدیث سے ہوتی ہے، جس میںاللہ کے رسول ﷺ نے اس بات کوایک مثال سے سمجھایا، آپﷺ نے فرمایا: إن مثلی ومثل الأنبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتاً، فأحسنہ وأجملہ؛ إلاموضع لبنۃمن زاویۃ، فجعل الناس یطوفون بہ، ویعجبون لہ، ویقولون: ہلا وضعت ہذہ اللبنۃ، قال: فأنااللبنۃ، وأناخاتم النبیین۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۳۳۴۲)’’میری اورمجھ سے پہلے کے نبیوںکی مثال اس شخص کی سی ہے، جس نے بہت ہی حسین وجمیل گھربنایا؛ لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدیا،لوگ اس کے گھردیکھنے لگے اورپسندکرنے لگے اورکہنے لگے:اس اینٹ کوکیوںنہیںرکھا، تومیںہوںوہ اینٹ، اورخاتم النبیین ہوں ‘‘۔
آخری نبی کی بعثت کے ساتھ اِس دین کی تکمیل ہوگئی اورزندگی گزارنے کے لئے جتنے احکام کی ضرورت ہوسکتی تھی، انھیںاصولی یافروعی طورپربتادیاگیا،تمام اوامر ونواہی کاذکرکردیاگیا، تمام حلال وحرام کوبیان کردیاگیااورسارے معفوعنہ امورکی بھی نشاندہی کردی گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس دین کی تکمیل کااعلان حجۃ الوداع کے موقع سے عرفہ کے دن فرمایا: {ِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً}(المائدۃ:۳)’’آج میںنے تمہارے لئے تمہارے دین کومکمل کردیا اورتم پر اپنی نعمت تمام کردی اورتمہارے لئے بطوردین کے اسلام کوچنا‘‘، اب جتنے بھی مسائل پیش آئیںگے ، نبی کریم ﷺ کے ذریعہ بتائے ہوئے امورکی روشنی میںہی ان کاحل تلاش کیاجائے گا، ان مسائل کے حل کے لئے علماء وفقہاء نے خصوصیت کے ساتھ ’’اجتہا‘‘اور’’قیاس‘‘کا طریقہ اختیارکیا ؛ لیکن ظاہرہے کہ اجتہاداورقیاس پتہ ماری اوردماغ سوزی کاکام ہے، ہر’’ایرے غیرے نتھوخیرے ‘‘کاکام نہیں؛ اس لئے ان کے لئے کچھ اصول اورشرائط بنائے گئے ہیں؛ چنانچہ اجتہاد کے لئے مسلمان، مکلف اورعادل ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن، سنت، عربی زبان، اصول فقہ، مقاصد شریعت، مواقع اجماع، ناسخ ومنسوخ سے واقف کار اورزمانہ شناس ہونے کوبھی شرط قراردیاگیاہے، جب کہ بعض حضرات نے اصول دین ، فقہی فروعات اورعقلی دلائل سے واقفیت کوبھی شرط قراردیاہے، اجتہاد کی طرح قیاس کے صحیح ہونے کے لئے گیارہ بارہ شرطیںاصولیین نے ذکرکی ہیں، جن کوطوالت کی وجہ سے یہاںذکرنہیںکیاجاسکتا(تفصیلات اصول فقہ مطولات میںدیکھی جاسکتی ہیں)۔
موجودہ زمانہ تعلیمی ترقی کے زمانہ کے ساتھ ساتھ تخصصات (اسپسیلائزیشن)کابھی دورہے اوربرصغیرکوچھوڑکرتقریباً ہرجگہ اس کوتسلیم کیاجاتاہے، کسی بھی موضوع سے متعلق بات اسی کی درست اورمعتبرسمجھی جاتی ہے، جس نے اس موضوع پرتخصص کررکھاہواورجولوگ متخصص نہیںہوتے، وہ خوداس موضوع پربحث نہیںکرتے؛ لیکن ہمارے برصغیر کامسئلہ اس سے مستثنیٰ ہے، یہاںغیرمتخصص بھی کسی بھی موضوع پرکلام کرسکتے ہیںاوربالخصوص دین اورشریعت کے معاملات میںتولازماً کرسکتے ہیں، اس میںبالخصوص وہ لوگ پیش پیش رہتے ہیں، جومستشرقین کے بنائے ہوئے نصاب کے مطابق اسلامک اسٹڈیزکی ڈگریاںاپنے پاس رکھتے ہیںاوران کاساتھ وہ حضرات بھی دیتے ہیں، جواردوسے شدبد رکھتے ہیںاورچندکتابوںکامطالعہ کرکے مجتہدمطلق سمجھ بیٹھتے ہیں، اسے آپ برصغیرکاکمال کہئے یانقص، آپ کے اختیارمیںہے؛ تاہم اتنی بات ضرورہے کہ ایسے’’خودساختہ مجتہدین‘‘ کی وجہ سے امت میںانتشارضرورپیدا ہوجاتاہے۔
اس وقت پوری دنیاکورونا کی وباسے جھونجھ رہی ہے اورجہاںاس کی وجہ سے اقتصادی، سماجی ، طبی وغیرہ کے بہت سارے مسائل پیداہوئے ہیں، وہیں کئی شرعی مسائل نے بھی جنم لیاہے، جن کاحل بھی مفتیان کرام کی جانب سے پیش کیاجاچکاہے اورپیش کیاجارہاہے، ایسے وقت میںایک ’’مجتہد‘‘ کی جانب سے ’’آن لائن نماز‘‘کامسئلہ بھی پیش کیاگیاہے، اس سے قبل’’ آن لائن جھاڑبھونک‘‘ اور’’آن لائن بیعت ‘‘کاتذکرہ سن چکاتھا، اب آن لائن نماز کے مسئلہ نے غوروفکراورجائزہ کی دعوت دی ہے، وہی آپ کی نذرہے۔
نمازاسلام کادوسرارکن ہے، جس کی ادائے گی کے دوطریقے بتائے گئے ہیں: ایک اجتماعی اوردوسراانفرادی، دونوںصورتوںمیںنمازہوجائے گی اورنمازی مؤاخذہ سے بچ جائے گا؛ البتہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب انفرادی طورپرنمازپڑھنے کے مقابلہ میں زیادہ ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادہے: صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۱۹، مسلم، حدیث نمبر:۶۵۰) ’’جماعت کی نمازتنہانمازکے مقابلہ میںستائیس گناافضل ہے‘‘، نیزبعض احادیث جماعت کی اہمیت پربھی دلالت کرتی ہیں؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:والذی نفسی بیدہ لقدہممت أن آمربحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثم آمررجلاً فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، والذی نفسی بیدہ لویعلم أحدہم أنہ یجدعرقاً سمیناً أو مرماتین حسنتین لشہد العشاء۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۴۴)’’اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میںمیری جان ہے، میںارادہ کیاکہ لکڑیاںجمع کرنے کاحکم دوںپھرنماز کاحکم دوںتواذان دی جائے پھرکسی کوحکم دوںتولوگوںکی امامت کرے، پھر میں(جماعت میںحاضرنہ ہونے والے)لوگوںکے پاس جاؤںاوران کے گھر وںکوآگ لگادوں، اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میںمیری جان ہے اگران کومعلوم ہوتاکہ انھیںپرگوشت ہڈی اورپسلیاںملیںگی اورتوعشاء میں(بھی) حاضرہوتے ‘‘، یہ حدیث جماعت کی اہمیت اوراس کی تاکیدپردلالت کرتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس کاشرعی حکم کیاہے؟ جمہورفقہاء اس کے سنت ہونے کے قائل ہیں، تاہم بعض سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں؛ چنانچہ ابن بطال لکھتے ہیں: وأجمع الفقہاء أن الجماعۃ فی الصلوات سنۃ إلاأہل الظاہر، فإنہاعندہم فریضۃ (شرح البخاری لابن البطال: ۲؍۲۶۹)،’’فقہاء کااتفاق ہے کہ جماعت سنت ہے، سوائے اہل ظاہرکے کہ ان کے نزدیک فرض ہے‘‘، جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھناسنت ہے تویہ بات بھی معلوم ہونی چاہئے کہ جماعت میںامام اورمقتدی کاہوناضروری ہے، لہٰذا آیئے اقتداکی شرطیں جانتے چلیں؛ تاکہ آن لائن نماز کامسئلہ مکمل طورپرواضح ہوجائے۔
اقتداکے لئے درج ذیل امورشرط ہیں، جن کے وجودکے بغیراقتداء درست نہیںہوگی اورجب اقتداء درست نہیںہوگی توجماعت بھی درست نہیںہوگی:
۱- نیت: فقہاء کااس بات پراتفاق ہے کہ اقتداء کے درست ہونے کے لئے امام کے اقتداء کی نیت کرناشرط ہے، اورنیت دل کے ارادہ کانام ہے؛ البتہ زبان سے اس کی ادائے گی احناف وشوافع کے نزدیک مستحب ہے۔
۲- امام کے آگے نہ رہنا: جمہورفقہاء (حنفیہ شافعیہ، حنابلہ)کے نزدیک اقتداء کے درست ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ مقتدی کھڑے ہونے میںامام سے آگے نہ رہے؛ کیوںکہ حدیث ہے: إنماجعل الإمام لیؤتم بہ۔(بخاری، حدیث نمبر:۷۰۱)’’امام اس لئے بنایاجاتاہے؛ تاکہ اس کی اقتداء کی جاے‘‘،اورمقتدی کے آگے ہونے کی صورت میںایسانہیںہوگا۔
۳- مقتدی امام کے مقابلہ میںقوی الحال نہ ہو: جمہورفقہاء (حنفیہ، مالکیہ، حنابلہ)کے نزدیک اقتداء کے درست ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ مقتدی امام کے مقابلہ میںقوی الحال نہ ہو؛ چنانچہ ان پڑھ کے پیچھے پڑھے لکھے کی اقتداء درست نہیںہوگی۔
۴- امام ومقتدی کی نماز کاایک ہونا: جمہورفقہاء(حنفیہ، مالکیہ، حنابلہ)کے نزدیک اقتداء کے درست ہونے کے لئے امام ومقتدی کی نمازکاایک ہونابھی شرط ہے؛ چنانچہ عصرپڑھنے والے کے پیچھے ظہرپڑھنادرست نہیں۔
۵- امام ومقتدی کے مابین فاصلہ نہ ہونا: تمام فقہاء کے نزدیک اقتداء کے درست ہونے کے لئے امام ومقتدی کے مابین زیادہ فاصلہ کانہ ہونابھی شرط ہے؛ البتہ فاصلہ کی تعیین میںاختلاف ہے، مثلاً: دوصف یاایک ایسی نہر، جس میںکشتی آتی جاتی ہو۔
۶- اتحاد مکان: اقتداء کے درست ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ امام ومقتدی ایک ہی جگہ پرہوںکہ اقتداء کامقصد ایک جگہ لوگوںکاجمع ہوناہے۔
۷- امام ومقتدی کے درمیان عورتوںکانہ ہونا: اقتداء کے درست ہونے کے لئے جمہورکے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ امام اورمردوںکی صف کے بیچ میںعورتیںنہ ہوں، ورنہ نماز مکروہ ہوگی، نیزاگرعورتوںکی مکمل صف کے پیچھے مرد وںکی صف لگ جائے توبھی نماز درست ہوجائے گی۔
۸- امام کی حرکات وسکنات سے واقف ہونا: اقتداء کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ سن کریادیکھ کرامام کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتارہے، اگرایسانہ ہوتوپھراقتداء درست نہیں ہوگی۔
۹- امام کی نماز کاصحیح ہونا: اقتداء کے درست ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ امام کی نمازصحیح ہو، اگراس کی نماز درست نہ ہوگی تومقتدی کی نماز بھی درست نہیںہوگی(دیکھئے: الموسوعۃ الفقیۃ الکویتیۃ، لفظ اقتداء،جلد۶)۔
آن لائن نماز کی صورت میںمندرجہ بالامیںسے کئی شرطیںنہیںپائی جائیںگی، مثلاً: مقتدی کاامام کے آگے نہ رہنے، امام ومقتدی کے مابین فاصلہ نہ ہونے، امام ومقتدی کے مابین عورتوںکے نہ ہونے اوراتحادمکان وغیرہ کی شرطیںبالکل بھی نہیںپائی جائیںگی، ان کے علاوہ قبلہ کامسئلہ بھی رہے گا، لائٹ کٹ جانے یا نیٹ پیک ختم ہوجانے کی وجہ سے سلسلہ کامنقطع ہوجانابھی ہے، پھرایسی صورت میںآن لائن نماز پڑھنے والے کیاکریں گے؟ اپنی نمازیںوہ کیسے پوری کریں گے؟
ان مسائل کے تعلق سے جب ’’خودساختہ مجتہد‘‘ صاحب سے دریافت کیاگیاتوہ آئیںبائیںشائیںکرکے الٹی سیدھی مثالیںپیش کرنے لگے، اس سلسلہ میںمجتہد صاحب نے ایک جملہ پرزوریا کہ’’جب کسی عبادت کواس کی مثالی صورت میںانجام دیناممکن نہ رہے توآپ عبادت کوختم نہ کریں؛ بل کہ کسی دوسری صورت میںچلے جائیں‘‘؛ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دوسری صورت کون بنائے گا؟ کیاہرشخص اپنے اپنے لحاظ سے یہ دوسری صورت کو بناسکتاہے؟ پھرتوعبادت مذاق بن کروہ جائے گی، یا اس دوسری صورت کو شارع بنائے گا؟ تواب اس کاسوال نہیںکہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے، نیزوحی کاسلسلہ بھی منقطع ہوچکاہے۔
پھرمجتہد صاحب نے تیمم کی مثال پیش کی اوربتایاکہ اس پرقیاس کرتے ہوئے نبی ﷺ نے جرابوںپرمسح کی اجازت دی، نمازقصر کی مثال پیش کی کہ آپاتھاپی، افراتفری اورخطرہ کی صورت پیداہوجائے تونماز میںقصرکرلیں، مجتہدصاحب کی مثال بے سرپیرکی مثال ہے ؛ کیوںکہ قصرکاتعلق سفرسے ہے، خطرہ اورافراتفری سے بالکل بھی نہیں، مجتہد صاحب نے صلاۃ الخوف کی مثال بھی پیش کی ہے کہ غیرمعمولی حالت میںاس کی شکل کیسی بنادی؟ پھراسی پربس نہیںکیا’’فرجالاورکبانا‘‘کہایعنی سواری پربھی نمازپڑھ سکتے ہیں،مجتہد صاحب سے سوال ہے کہ یہ شکل شارع نے بنائی ہے توکیاآپ درپردہ اپنے آپ کوشارع کے روپ میںپیش کررہے ہیں؟
قبلہ کے سلسلہ میںسوال کاجواب دیتے ہوئے سواری پرنماز کی مثال پیش کی کہ رسالت مآب ﷺ ایک مرتبہ قبلہ کی طرف ہوکرنماز شروع کرلیتے تھے، پھرسواری جدھرجائے ، قبلہ کے رخ پررہے یا نہ رہے، فرق نہیں پڑتاتھا، رمضان کی مثال بھی پیش کی یہ اگررمضان میںروزہ نہیںرکھ سکتے تودوسرے ایام میںپورے کریں، مجتہدصاحب سوال کرتے ہیںکہ رمضان کی برکتیں کہاںگئیں؟ لیکن پھربھی اس کی اجازت دی گئی ہے، اوراگراس کے بعدبھی روزہ رکھنے کی پوزیشن میںنہیںہیں توفدیہ کی اجازت دی گئی ہے؛ لیکن سوال یہاںپریہی ہے کہ یہ تمام اجازتیںشارع کی طرف سے ہیں، کسی بندہ کی طرف سے نہیںہیں۔
نیزیہ سب مثالیںایک بھی ایسی نہیں، جن کوآن لائن نمازپرفٹ کیاجاسکے، لہٰذاان کونظیربناکرآن لائن نماز کوثابت کرنادرست نہیںاوراسے اصول کی اصطلاح میں’’قیاس مع الفارق‘‘کہاجاتاہے، یہ بات یادرکھنے کی ہے دین میںرائے یعنی انسان جس کواچھاسمجھے، اس کاعمل دخل نہیںہوتا؛ بل کہ اس کے لئے شرعی دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، اس سلسلہ میںحضرت علی ؓ کاقول یادرکھنے کی ہے، انھوںنے فرمایا: لوکان الدین بالرأی لکان أسفل الخف أولیٰ بالمسح من أعلاہ، وقدرأیت رسول اللہ ﷺ یمسح علی ظاہرخفیہ۔ (ابوداو، حدیث نمبر:۱۶۲) ’’اگردین کاتعلق رائے سے ہوتاتوخف کے نچلے حصہ کامسح اس کے اوپری حصہ کے مسح سے اولیٰ ہوتا، اورمیںنے رسول اللہ ﷺ کوخف کے اوپری حصہ پرمسح کرتے ہوئے دیکھاہے‘‘، یعنی انسان اول وہلہ میںیہ سمجھتاہے کہ خف کے نچلے حصہ میںمسح ہوناچاہئے؛ اس لئے نچلاحصہ زمین کے قریب ہوتاہے اورمٹی وغیرہ چیزیںاس میںلگ جاتی ہیں تو نچلے حصہ کامسح کرنابہترہوناچاہئے؛ لیکن جب غوروفکرکی نگاہ ڈالتاہے تومعلوم ہوجاتاہے اور سمجھ جاتاہے کہ اوپری حصہ کامسح ہی ٹھیک ہے؛ کیوںکہ نچلے حصہ کے مسح کرنے سے تطہیرکے بجائے تلویث لازم آئے گی(شرح بلوغ المرام للعثیمین: ۱؍۸۶)، اسی طرح جنگ صفین کے موقع سے سہل بن حنیف نے فرمایا: یاأیہاالناس! اتہموا رأیکم علی دینکم۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۷۸)’’دین کے تعلق سے اپنی رائے کو متہم کرو‘‘، اس کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: دین کے معاملہ میںصرف رائے پرعمل مت کرو، جس کی دین میںکوئی اصل اوربنیادنہ ہو‘‘(فتح الباری: ۱۳؍۳۰۲)۔
آن لائن نمازکی جوبات کی جارہی ہے اوراس کے لئے جن مثالوںکونظیربنایاجارہاہے، وہ مثالیںبالکل ان فٹ ہیں، اورایسی رائے پیش کرناہے، جس کی کوئی اصل اوربنیادہی نہیںہے، پھراقتداء کی شرطیںمفقودہورہی ہیں، نیز اس رائے کی ضرورت بھی نہیںہے؛ کیوںکہ ایسے وقت میںشریعت نے ترک جماعت کی اجازت دے رکھی ہے؛ چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ حضورﷺکاارشادنقل فرماتے ہیںکہ آپ نے فرمایا: من سمع النداء فلم یأتہ، فلاصلاۃ لہ إلامن عذر۔(صحیح ابن ماجۃ للألبانی، حدیث نمبر: ۶۴۵) ’’جس نے اذان سنی اورنہیںآیا(جماعت کے لئے) تواس کی (گویا)نماز ہی نہیں، الایہ کہ عذرہو‘‘، توجب جماعت کی رخصت شریعت کی طرف سے دی ہوئی ہے یا چارپانچ آدمی مل کرنماز پڑھ لے رہے ہیںتوپھرایک بے اصل بات کوپیش کرکے انتشارپیداکرناکسی طوردرست نہیں۔

Comments are closed.