سماج کے ڈیڑھ سیانے( قسط اول)

*سماج کے ڈیڑھ سیانے*(قسط اول)
ازقلم:مولانا راشد اسعد ندوی
(امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی)
سوشل میڈیا پر ایک پراسرار شخصیت پائی جاتی ہے؛ جن کے مزاحیہ چٹکلے، ادبی شگوفے، حکمت بھری باتیں، اور بسا اوقات تکلف بر طرف ہفوات بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں، لوگ انھیں "بابا جی،، کہتے ہیں، لاک ڈاؤن میں جتنی شدت بڑھتی ہے اتنی ہی کثرت سے یہ بابا جی جہاں تہاں نمودار ہوجاتے ہیں اور سماج اور معاشرہ کے سلسلہ میں اپنا تجزیہ پیش کرنے لگتے ہیں. آج صبح ہی کی بات ہے ان بابا جی سے ہماری بھی مڈ بھیڑ ہو گئی، علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ بھیا جانتے ہو!! ان دنوں کرونا وائرس کی مہاماری کے چلتے لاک ڈاؤن چل رہا ہے ہم نے کہا ہے ہاں وہ تو ہے، بولنے لگے ہم ایک پتہ کی بات بتاتے ہیں ہم بھی سماجی فاصلہ کے حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے تھوڑا قریب ہو کر گوش برآواز ہو گئے؛ بابا جی گویا ہوئے: *بھیا جی ان دنوں کرونا وائرس سے حفاظتی تدبیر اختیار کرتے ہوئے سیانے لوگ گھروں میں رضاکارانہ محصور و مقید ہیں اور ڈیڑھ سیانے لوگ باہر سڑکوں پر پیدل و سوار داد شجاعت دے رہے ہیں* بابا جی کی اس بات پر تو ہم سر دھنے بغیر نہیں رہ سکے گویا غالب کے ہاتھ شراب دو آتشہ کا جام لگ گیا اور غیب سے دھڑا دھڑ مضامین خیال آتے چلے گئے، بابا جی تو یہ فرما کر آگے چل دیے اور ہم مضامین خیال میں محو و گم دیر تک وہیں کھڑے رہ گئے
وہ تو بھلا ہو ہمارے ساتھی کا جنہوں نے یاد دلایا کہ لاک ڈاؤن میں ڈھیل بہت محدود ہے جلدی جلدی سودا سلف لو اور اپنے گھروں کو لوٹ چلو، ہم نے تعمیل ارشاد میں ہی بھلائی سمجھی اور جلدی سے بھی پیشتر مختصر خریداری کرکے گھر لوٹ آئے مگر بابا جی نے ہمیں گہری سوچ میں ڈال دیا، ذہن و دماغ میں یہی بات گردش کرتی رہی کہ *سیانے گھروں میں ہیں اور ڈیڑھ سیانے باہر ہیں* ہم نے لاک ڈاؤن کی ابتدا سے تا دم تحریر جب اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا تو بابا جی کی بات ہمیں سو فیصد درست نظر آئی، ہاں اگر آپ بھی سماج اور ماحول پر سرسری ہی سہی نگاہ ڈالیں گے تو بابا جی کے سلسلہ میں مرید ہونے کی آرزو کریں گے اور ان کی بات کی تائید کریں گے.
یہ دیکھیے نا اپنی گلی کے نوجوان کس بہادری سے چوک چوراہوں پر اکٹھا گپیں ہانک رہے ہیں اور کرکٹ اور ہاکی کے میچوں کے اسکور کی طرح کورونا وائرس سے متاثرین اور اس سے واقع ہونے والی اموات کے صحیح غلط اعداد و شمار پر چرچا کر رہے ہیں
آئیے یہاں بھی ایک نظر دوڑائیں یہ دیکھو اللہ والے زمین سے نیچے اور آسمان سے اوپر کی باتیں کرنے والے سماجی فاصلہ کے حدود کی پرواہ کیے بغیر یہاں وہاں جمعہ و جماعت قائم کر رہے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ بلا خوف و خطر گشت بھی کر رہے ہیں ہاں ہاں گشت کر رہے ہیں، *حضرت جی نے کبھی فرمایا تھا:دعوت کا کام کبھی رکنا نہیں چاہیے صحیح فرمایا تھا حضرت جی نے وہ تو امت کے فرائض منصبی میں داخل ہے مگر افسوس کہ لوگ سمجھ نہیں سکے کہ دعوت کے کام کے سیرت نبوی سے مختلف طریقے اور متنوع انداز ثابت ہیں* خیر اس موضوع پر پھر کبھی مستقل بات کریں گے
یادش بخیر! آئیے دیکھیے یہ بازار ہے، اس قدر بھیڑ اور اتنا ازدحام!! یہ سب کہاں کی مخلوق ہے؟؟ دیکھئے دیکھئے یہ اپنے چچا اور وہ رہے اپنی گلی کے بڑے میاں روزانہ تھیلی لے کر یوں ہی ٹہلنے چلے آتے ہیں.
یہ سب وہی لوگ ہیں جو کافی پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں بہت سے تو ہائی پروفائل شخصیت کے مالک ہیں اور اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر ہیں ساتھ ہی ساتھ دیڑھ شیانے بھی ہیں.
نوجوان تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا immune system یعنی قوت مدافعت بہت مضبوط ہے ہم کہاں کسی وائرس کی گرفت میں آسکتے ہیں، ابھی تو آتش جوان ہے،
اللہ والے کہتے ہیں کہ گھر میں بیٹھنا توکل کے خلاف ہے جبکہ ایسا نہیں اور ڈگری یافتہ لوگوں کے تو کیا کہنے! وہ تو اصول صحت کے نشیب و فراز سے اس قدر واقف ہیں کہ سچ مچ حکیم و ڈاکٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیں، ان کو کورونا وائرس کی تاریخ، اس کے پس منظر اور طب و حکمت کی کتابوں میں سیکڑوں سال پہلے اس کا ذکر اور علاج کی معلومات حاصل ہے بلکہ بہت سے نام نہاد محققین نے تو قرآن و حدیث میں بھی اس کا تذکرہ تلاش کر لیا اور اس کے بارے پیشین گوئی ڈھونڈ نکالی ہے.
خیر یہ سب اپنا اپنا خیال اور الگ الگ زاویہ نگاہ رکھنے والے بلا ضرورت باہر سڑکوں پر نکلنے والے شہریان ہمارے بابا جی کی نگاہ میں *ڈیڑھ سیانے* ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے اور زبردستی ہشیاری دکھانے والے لوگ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ زیادہ ہشیاری نہ مارتے ہوئے اپنے گھروں میں ہی رہیں، محفوظ رہیں’ اپنی اور اپنے لوگوں کی صحت و تندرستی کی حفاظت کریں
ان لوگوں کی بے موقع بہادری ملک و ملت کے لیے جگ ہنسائی کا باعث ہو رہی بلکہ بعض مقامات پر تشویشناک صورتحال بھی پیدا ہونے کا سب بن رہی ہے.
شرعی نقطہ نگاہ سے اجر و ثواب بھی گھر بیٹھے بیٹھے ہی کمائیں، یہ سنہری موقع نہ گنوائیں چنانچہ حدیث شریف میں طاعون پھیلنے کے زمانہ میں اپنے علاقہ میں ٹھہرے رہنے پر اجر و ثواب بتایا گیا ہے 🙁 طاعون دراصل ایک وبا ہے اور یہ فضیلت علماء کی تصریح کے مطابق ہر وبا کو شامل ہے) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لئے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلاء کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور اللہ سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہو کہ اسے کوئی چیز (یعنی کوئی اذیت و مصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا (بخاری)
(جاری)
Comments are closed.