رمضان برکتوں،رحمتوں، بخششوں اور تربیت کا مہینہ ہے

سمیع اللہ قاسمی (میرا روڈ،ممبئی)
رمضان کی آمد آمد ہے ،ایمان والےشدت سے اس کی خوش آمد کے منتظر ہیں،اس میں عاصیوں وخطاکاروں کی بخشش ہوتی ہے،ماہ ِرمضان مسکینوں ، محتاجوں ،یتیموں اور بیواؤں وغیرہ کے لئے ثمر دار اشجار کے مانند ہے جس سے یہ حضرات مکمل مستفید ہوتےہیں۔صاحب ثروت و مخیر حضرات خداداد نعمتوں کو دریا دلی سے کار خیر میں(افطار وسحر کرانے یا صدقہ وخیرات کرنے کی شکل میں ہو) صرف کرتے ہیں کیوں کہ رمضان میں بہ مقابلہ غیر رمضان کے ثواب کی شرح ستر گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرائض کے برابر اور فرائض کا ثواب ستّر فرائض کے برابر کر دیا جاتا ہے ،اس لیے کثرت سے نوافل، تلاوت ِقرآن اور اورادو وظائف کا اہتمام کرنا چاہیے،اس ماہ میں ہر روز کم از کم ایک پارہ کی تلاوت ہونی چاہیے،اللہ تعالیٰ نے با بر کت کتاب قرآن کریم کو اسی ماہ میں نازل کیا ہے (اناّ انزلناہ فی لیلۃ القدر) لہذا یکسوئی کے ساتھ آداب کی رعایت کرتے ہوئے،با وضو رو بہ قبلہ ہوکر احتساب کے ساتھ (کہ ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں ) تلاوت کرے،اور یہ بھی مستحضر ہو کہ قرآن اہتمام کے ساتھ خواندگان کے حق میں سفارشی ہوگا ،قرآن سے ادنی تعلق رکھنے والا بھی محروم نہیں ہوگا ، چہ جائے کہ حافظِ قرآن،قاریِٔ قرآن،خادمِ قرآن، اور داعیٔ قرآن ہو ۔۔
یہ رحمتوں ،برکتوں اور نوازشات کا مہینہ ہے ،یہ نورانی، عرفانی اور حسنات کے سیزن کا مہینہ ہے، اس مین زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا ادخار کرنے کا سنہرا موقع ہے اور یہ ماہِ تربیت بھی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو طویل مدت تک اعمال (نماز،تراویح ،تہجد، تلاوت، غمخواری ،ہمدردی،فیاضی ،اِنفاق فی سبیل اللہ) سے لگائے رکھا اور گناہوں اور منہیات جیسے بدنظری،غیبت خوری،شراب نوشی ،ستم گیری،وغیرہ سے حتی المقدور گریز کیا ، اب اس کے مطابق پو رے سال چلنا ہمارے لیے سہل تر ہو گیا ۔۔
یہ صبر و خلاصیٔ نار اور غم خواری کا مہینہ ہے یعنی اگر اپنی افطار کے لیئے کئی اقسام کے پکوان تیار کیے ہیں تو اس میں سے کچھ نہ کچھ غرباء و مساکین کیلئے بھی مختص ہونی چاہیے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے اوپر حضراتِ مساکین و غرباء اور فی الحال خصوصا اس مہاماری(کورونا وائرس جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ) میں پھنسے ہوئے لاکھوں مزدوروں،بچوں ، ضعفاء اور عورتوں کو ترجیح دیتے جیسا کہ صحابہ کرام کی مطہر ومقدس جماعت نے ایثار و ہمدردی کے اعلی نمونہ پیش کر کے دکھا یا ۔
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
اس میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو حقیقۃً ذی ثروت ہیں، مُنْفِقْ ہیں لیکن اس وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کی زد میں محتاج ہو گئے ہیں ان حضرات کا خیال کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے ،ا ن سب کیلیے اشیاء خوردونوش کا انتظام کرنا عینِ فطرت و انسانیت اور عینِ شریعت ہے۔۔
سیاسی پارٹیوں اور حکام کے الفاظِ امداد اور عملی اقدامات یکثر جدا ہیں ،لہذا ان سے امیدِ امداد وہیلپ لگانا غیرمناسب ہے ،اور وہ تحریکیں جو امداد کر رہی تھیں اب ان کے پاس بھی راشن کا ذخیرہ و اسٹاک نہیں ہے ،لہذا ایسے حالات میں غرباء و مساکین اور مدارس دینیہ میں محبوس ہوئے طلبہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
یہ صبر وتحمل اور تقوی و پرہیزگاری کا مہینہ ہے،اور صبر حال میں کرنا ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ کو صابر و شاکر بہت پسندہے،شکر کا ایک فائدہ بقاء ِنعمت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نعمت میں رکھے گا چھینے گا نہیں اور دوسرا فائدہ زیادتیٔ ِنعمت ہے یعنی نعمت میں اضافہ کرے گا، اور صبر کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ صابرین کو بے حساب اجر دیگا (انّما یُوَ فّٰی الصَّا بِرون اَجرَہُم بِغَیرِ حِساب) اللہ تعالیٰ صابرین کے ساتھ ہے (اِنَّ اللہ مع الصَّا برین) اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے ساتھ آسانی پیدا کرتا ہے ( اِنَّ مع العُسرِ یُسرا) اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کنندگان کو بلا حساب وکتاب کے جنت میں داخل کر دیگا ، اس وقت بنی آدم دوہری آزمائشوں سے دو چار ہیں ،وہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا انعام بھی ہے کہ بھوک مری میں مرنے والے رمضان المبارک میں بہ حالت روزہ مریں گے ۔۔
امسال رمضان المبارک جداگانہ ہے ،حکومت نے گائیڈ لائنز ، ہدایات اور پابندیاں جاری کی ہیں مثلاً بھیڑ بھڑکا سے اجتناب کرنا،سو شل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھنا اور مساجد ومعابد میں فقط چار افراد ہی مجتمع ہو کر عبادات(نماز تراویح باجماعت،وجمعہ وغیرہ)سرانجام دے سکتے ہیں وغیرہم ،لہذا گورنمنٹ کی معاونت کرنا ہماری ملکی اور مذہبی فریضہ ہے اور جن مقامات پر اجتماعی افطاری کا نظم و نسق تھا اسے بھی ترک کر دینا چاہیے۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کے ایام کو اعمال کے ساتھ گزارنے کی توفیق دے اور امت مسلمہ کی حفاظت فرما ئے ۔ آمین

Comments are closed.