آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اسلام میں بیوی کے لئے احکام
سوال:-(الف) میں جدید اور اعلی تعلیم یافتہ آدمی ہوں ، میرے خاندان میں بھی برقعہ یا پردہ کا رواج نہیں رہا ، یہ جاننے کے باوجود سسرال والوں نے مجھ سے رشتہ کیا، اب وہ آہستہ آہستہ برقعہ پہننے کی ترغیب دینے لگے ہیں، اور وہ بھی نقاب والا۔
(ب) ہمارے یہاں عورتوں کے گھر سے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن انہوں نے گھر سے باہر جانے پر پابندی لگادی ، یہاں تک کہ ماں باپ کے یہاں جانے پر بھی ، صرف اتنی اجازت ہے کہ اگر کوئی بہت اہم کام ہو تو چٹھی پر لکھ کر جایا کریں کہ کہاں جا رہے ہیں ؟
(ج) ان باتوں کی خلاف ورزی پر پہلے ڈانٹتے تھے ، اب مارتے ہیں، تو کیا شوہر بیوی کو مار سکتے ہیں ؟
(د) وہ اپنی آمدنی کا کافی حصہ اپنے غریب رشتہ داروں اور دوسرے دینی کاموں پر خرچ کردیتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے ۔
(ہ) میرے ماں باپ مجھے خلع لینے کا مشورہ دے رہے ہیں ، تو کیا میں مظالم کی بنیاد پر خلع کا مطالبہ کر سکتی ہوں ؟
(و) نکاح نامہ میں جو مہر طے تھا ، اس سے زیادہ شوہر نے ادا کردیا ہے ، انہوں نے اور ان کے ماں باپ نے مجھے زیورات دئے تھے ، اس کا انہوں نے اپنی خوشی سے مجھے مالک بنادیا ہے ، اور وہ میرے قبضہ میں ہیں ، تو کیا مجھے مہر اور زیورات واپس کرنے پڑیں گے ؟
(ز) کیا اس ضمن میں میرا مہیلا منڈل سے رجوع ہونا درست ہوگا ؟ ہمارے محلہ میں یہ منڈل ہے ، لیکن اس کے انچارج غیر مسلم ہیں (اکرم ، لوناواڑہ )
جواب:- (الف) اسلام میں عورتوں کے لئے اجنبی مردوں کے سامنے نقاب پہننا ضروری ہے ،اس کا مقصد ان کی تذلیل نہیں ، بلکہ ان کی حفاظت ہے ، اگر آپ کے یہاں برقعہ کا رواج نہیں تھا اور آپ ایسے ماحول میں آگئی ہیں جہاں برقعہ کا رواج ہے ، تو اللہ کا شکر اداکریں کہ آپ کو بہتر ماحول ملا ہے ، اور آہستہ آہستہ اپنے آپ کوبدلنے کی کوشش کریں ، اس میں آخرت کی بھی بھلائی ہے اور دنیا میں بھی حفاظت ہے ۔
( ب) اسلام نے عورتوں کے لئے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہیں :و قرن في بیوتکن ( الأحزاب :۳۳) ان پر کمانے کی ذمہ داری بھی نہیں رکھی : و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن ( البقرۃ : ۲۳۳ )مردوں کو حکم دیا کہ وہ محنت و مزدوری کرکے عورتوں کی ضروریات پوری کریں ، (حوالۂ سابق) اس سے بہتر سلوک اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اگر آپ شوہریا کسی محرم کے بغیر باہر نکلیں تو اس سے آپ کی جان اور عزت و آبرو کو خطرہ ہوسکتا ہے ، اور اگر حادثہ ہوجائے تو گھر تک اس کی اطلاع کیوں کر ہوگی ؟ اس لئے آپ کے شوہر کا بلا اجازت نکلنے پر روکنا شرعا بھی درست ہے ، اور آپ کے لئے بھی بہتر ہے ،اور آپ پر اس کی پابندی واجب ہے، ہاں یہ بات درست نہیں کہ آپ کو والدین اور محرم رشتہ داروں سے ملاقات سے روک دیا جائے ، کم سے کم ہفتہ میں ایک دن والدین اور مہینہ میںایک دن دوسرے رشتہ داروں سے ملاقات کا حق حاصل ہے ، اور فقہاء کے یہاں اس کی صراحت موجود ہے (رد المحتار :۵/۳۲۳ )
(ج) چونکہ بے پردہ اجنبی مردوں کے سامنے جانا اور بلا اجازت عورتوں کا گھر سے نکلنا شرعا جائز نہیں ، اور اگر بیوی خلاف شرع بات پر اصرار کرے تو شوہر کو مناسب حد میں رہتے ہوئے تادیب و سرزنش کا حق حاصل ہے ،اور اس کا مقصد اصلاح و تربیت ہے نہ کہ تعذیب وایذاء رسانی ؛ البتہ شوہر پر واجب ہے کہ ایسی سرزنش نہ کرے جس سے جسم پھول جائے ، پھٹ جائے ، خون نکل آئے ، ہڈی ٹوٹ جائے ، اسی طرح جسم کے نازک حصوں اور چہرہ پر نہ مارے (سنن أبي داؤد :۱/۲۱۴۲ )
(د) اگر آپ کا حق ادا کرنے کے بعد غریبوں پر اور دینی کاموں پر خرچ کرتے ہوں تو اس پر آپ کا ناراض ہونا درست نہیں ، اور شوہر کو اس کا حق حاصل ہے ، جیساکہ آپ اپنا ذاتی پیسہ اپنے غریب رشتہ داروں اور خیراتی کاموں پر خرچ کرسکتی ہیں ۔
(ہ) جوباتیں آپ نے لکھی ہیں ان کی وجہ سے خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ۔’’ رسول اللہ ا نے اس عورت پر لعنت بھیجی ہے جو کسی عذر شرعی کے بغیر خلع کی طلب گار ہو :أن رسول اللّٰہ ا قال : أیما امرأۃ سألت زوجھا طلاقا من غیر بأس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ ( الجامع للترمذي، حدیث نمبر : ۱۱۸۷) اس لئے آپ کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ جن باتوں کو آپ نے مظالم کا نام دیا ہے ، وہ مظالم نہیں ہیں ۔
(و) خلع کچھ دے کر طلاق حاصل کرنے کا نام ہے ،اس لئے خلع میں جس چیز کے لین دین پر معاملہ طے ہو ،اس کے مطابق عمل ہوگا ، جو صورت آپ نے لکھی ہے ، بہ ظاہر اس میں زیادتی آپ کی طرف سے محسوس ہوتی ہے، اس لئے ایسی صورت میں مہر اور شوہر کے دئے ہوئے زیورات خلع میں آپ کو واپس کردینے چاہئیں۔
(ز) آپ کا مہیلا منڈل سے رجوع ہونا قطعادرست نہیں ہے؛ کیونکہ خود آپ کی لکھی ہوئی تفصیلات کے مطابق آپ کی طرف سے زیادتی ہے ، خود زیادتی کرنا اور شوہر کو ہراساں کرنا ظاہر ہے کہ ظلم بالائے ظلم ہے ،اس لئے اس سے بچنا چاہئے ۔
اخیرمیں آپ کے دینی بھائی کی حیثیت سے عرض ہے کہ مغربی تہذیب کھوٹا سکہ ہے ، آپ اس کے ظاہری چمک سے متاثر نہ ہوں ، اسلامی تعلیمات میں عورت کے حقوق و مفادات اور اس کے ناموس کا جس قدر تحفظ ہے اور اس میں جو توازن و اعتدال اور خاندانی نظام کا بقاء و استحکام ہے وہ کسی اور قانون میں نہیں ۔
ناپاک کپڑے دھونے سے غسل
سوال:-ناپاک کپڑے کو دھونے پر کیا غسل کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے ؟(محمد صابر حسین، چنچل گوڑہ )
جواب:- غسل کچھ خاص اسباب کی وجہ سے واجب ہوتا ہے ، ناپاک کپڑے کا دھونا ان اسباب میں سے نہیں ہے؛اس لئے غسل واجب نہیں ہوگا ، تین بار دھونے کے ساتھ کپڑے بھی پاک ہوجائیں گے اور ہاتھ بھی ، ہاں ! احتیاطا الگ سے ہاتھ دھولئے جائیں تو بہتر ہے، بس یہ کافی ہے ۔
اذان کے الفاظ نامکمل سنائی دیں
سوال:-{379} بعض مرتبہ اذان کے الفاظ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مکانوں کے اندر نامکمل سنائی دیتے ہیں، یعنی مؤذن صاحب کامل اذان دیتے ہیں، مگر لاؤڈاسپیکر کے کچھ فنی نقص کے باعث اذان کے کچھ حروف نشر نہیں ہوتے، سننے والوں کو اذان ادھوری اور بے ربط سنائی دیتی ہے ، جب آواز ہی نہ آئے یا ادھورے الفاظ سنائی دیں ، تو ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ نئے آلہ کی خریداری عدمِ گنجائش کی مرہونِ منت ہے۔ ( محمد سلیمان، سدی پیٹ)
جواب:- اگر اذان کے الفاظ نامکمل سنائی دیں جب بھی چوں کہ سننے والوں کو اس بات کی اطلاع ہوجاتی ہے کہ اذان دی جارہی ہے، اس لئے جو کلمات سنے اس کا جواب دینا چاہئے، اذان کا جواب دینے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اذان کے کلمات صحیح صحیح اور مکمل طور پر سننے میں آئیں، البتہ چونکہ اذان کا مقصد نماز کے بارے میںاطلاع و خبر دینا ہے ،اور لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ یہ مقصد بہتر طور پر پورا ہوتا ہے، اس لئے مسجد کے منتظمین کو چاپئے کہ وہ ترجیحی بنیاد پر لاؤڈ اسپیکر ٹھیک کرائیں اورمسجد میں نماز پڑھنے والوں اور دوسرے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس کارِ خیر میں انتظامیہ کی مدد کریں، انشاء اللہ اس میں بڑے اجر وثواب کی توقع ہے۔
تہجد —- وقت اور رکعتیں
سوال:- تہجد کی ابتدا اور انتہاء کب ہوتی ہے ؟ اور تہجد کتنی رکعت پڑھنی چاہئے ؟ ( ام کلثوم، سعیدآباد)
جواب:- نمازِ تہجد کا وقت نمازِ عشاء کے بعد سے نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سونے سے پہلے بھی چند رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لے تو تہجد ادا ہوجائے گی ، تاہم سو کر اٹھے پھر نماز پڑھے ، یہ زیادہ افضل ہے کہ یہی رسول اللہ ا کا معمول مبارک تھا ، اورتہجد کے معنی سوکر اٹھنے کے بعد نفل پڑھنے کے ہیں؛ بلکہ طبرانی کی ایک روایت میںحضرت حجاج ابن عمرو کا قول نقل کیا گیا ہے کہ تہجد وہ نماز ہے جس کو آدمی نیند کے بعد ادا کرتا ہے : أما التہجد المرء یصلی الصلاۃ بعد رقدۃ (کنز العمال، حدیث نمبر: ۱۸۱۱) فقہاء نے لکھا ہے کہ جس شخص کا معمول آدھی رات سونے اور آدھی رات عبادت کرنے کا ہو اس کے لئے افضل طریقہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد ادا کرے، اور جس کا معمول ایک تہائی عبادت کرنے اور دوتہائی سونے کا ہو، اس کے لئے بہتر ہے کہ ایک تہائی حصہ سونے کے بعد درمیانی حصہ میں نماز تہجد ادا کرے اور پھر آخری تہائی حصہ تہجد میں گزارے: لو جعلہ اثلاثا فالأوسط افضل ولو انصافا فالأخیر أفضل (درمختار: ۲؍۴۶۸)نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعتیں ہیں ، چنانچہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : جو شخص رات میں خواب سے بیدار ہو، اور اپنی بیوی کو بیدار کرے ، پھر دو رکعت نماز پڑھے تو ان دونوں کو بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں ، اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھا جائے گا (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۰۹) نمازِ تہجد یوں تو زیادہ رکعتوں کے ساتھ بھی ثابت ہے ، لیکن آپ ا کا عام معمول مبارک آٹھ رکعتوں کا تھا:عن أبي سلمۃ بن عبد الرحمن أنہ أخبرہ : أنہ سأل عائشہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنھا کیف کانت صلاۃ رسول اللّٰہ ا في رمضان ؟فقالت : ،ما کان رسول اللّٰہ ا یزیدفي رمضان و لا في غیرہ علیٰ إحدیٰ عشرۃ رکعۃ ، یصلی أربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن ، ثم یصلی أربعا، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن ، ثم یصلی ثلاثا (صحیح البخاري ، حدیث نمبر : ۱۱۴۷ ) اسی لئے فقہاء نے آٹھ رکعتوں کو مسنون قرار دیا ہے، آٹھ رکعت اس طرح ادا کی جائے کہ ہر دو دو رکعت پہ سلام پھیراجائے: والسنۃ فیھا ثمان رکعات بأربع تسلیمات(ردالمحتار:۲؍۳۶۸) لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معمول نبوی ا چار چار رکعتیں ادا کرنے کا تھا (بخاری، حدیث نمبر: ۱۱۴۷)اس لیے اس کا اہتمام بہتر معلوم ہوتا ہے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.