ایک منفرد ومثالی شخصیت، حضرت حکیم مفتی ولی اللہ صاحب ندوی رحمہ اللہ

تحریر: ڈاکٹر سید عروج احمد

قاضیِ شہر کھاچرود و ناگدہ (ضلع اجین، ایم پی)

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی، سو وہ بھی خموش ہوئی

اللہ لایزال کا اٹل قانون ہے کہ ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، جس کا مشاہدہ ہمیں ہردن ہوتا رہتا ہے، ان مرنے والوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جن پر صرف ان کے اہل خانہ کو غم ہوتا ہے، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی وفات پرصرف ان کے اہل خانہ کو نہیں بلکہ شہر وصوبے اور دور دراز کے لوگوں کو بھی شدید صدمہ پہونچتا ہے ۔ان کی وفات پر ایک زمانہ روتا ہے، زمین وآسمان بھی اشک بہانے پر مجبور ہوتے ہیں،یہی نہیں بلکہ زمانۂ دراز تک ان کی عدم موجودگی کی ٹیس اور چبھن لوگوں کےدلوں میں محسوس ہوتی رہتی ہے۔
اسی دوسری نوع سے تعلق رکھنے والےخطۂ مالوہ کے ہر دلعزیز ونامور عالم دین ، حاذق طبیب، شیریں مقال مقرر و خطیب، پابند اوقات امام، مصلح قوم وملت، اتحاد واتفاق کے داعی ومناد اور مختلف مذاہبی طبقوں کی مرافقت ویگانت کے طاقتور ترجمان ونقیب حضرت مولانا حکیم مفتی ولی اللہ صاحب ندوی ہیں۔ع

دانش کدے بھی ان کے لئے اشک بار ہیں
جو کارنامے کرگئے، ان پر نثار ہیں

آپ کے خصائص وامتیازات

اللہ تعالی نے آپ کو ایسی بے شمار خصوصیات سے نوازا تھا جو صرف آپ ہی کا حصہ تھیں۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہےکہ اس طرح کی متعدد خصوصیات کسی ایک شخص میں جمع ہوجائیں.

آپ بحیثیت امام نماز

رانی پورہ اندور (ایم پی) کی کچی مسجد میں آپ نے بحیثیت امام نصف صدی سے بھی زائد مدت تک خدمت انجام دیں۔
اوقاتِ نماز کے اس قدر پابندتھے کہ جب آپ نماز کے لئے مسجد کی طرف نکلتے تو بہت سے لوگ انہیں دیکھ کر اپنی گھڑی میں وقت درست کرلیتے تھے۔
آپ ہمیشہ ساڑھے چار بجے صبح اٹھ کر مسجد کی طرف روانہ ہوتے، نماز فجر کی ادائیگی کے بعد طلوع شمس کے وقت رانی پورا سے گاندھی ہال کی طرف چہل قدمی وتفریح کے لئے نکلتے تھے۔
آپ نے 56سال مسلسل ایک ہی مسجد میں پنج وقتہ نمازوں کی امامت فرمائی ، یہ آپ کی انفرادیت کی بہت بڑی مثال ہے۔ایسا شاید ہی سننے میں آیا ہو کہ کہیں دوسرے ائمہ حضرات کو اتنی طویل مدت تک پابندئ وقت کے ساتھ کسی ایک ہی مسجد میں خدمت کا موقع ملا ہو۔

آپ بحیثیت خطیب

مسجد میں جمعہ کے دن آپ کا خطبہ سننے کے لئے لوگ دور دور سے کچی مسجد پہنچتے ۔آپ قرآن وحدیث سے استدلال اور اکابر واسلاف کے اقوال سے استیناس کرتے ہوئے اپنا طویل خطبہ پیش فرماتے تو سامعین کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا کہ آپ کا بیان یوں ہی جاری ر ہے۔جب خطبہ مکمل فرماتے تو تشنگی مزیدبڑھ جاتی ، سامعین کو ایسا محسوس ہوتا کہ چند منٹوں ہی میں آپ نے اپنا بیان مکمل کردیا۔ع

ساقی بزم سے اٹھ گیا ہے، سونا پڑا ہے میکدہ
پینے کو پی رہاہوں میں، پہلی سی بے خودی نہیں

آپ کے بیانات کو بطور سند وضرب المثل لوگ پیش کرتے۔ اور آپ کے بیانات کو اپنے دل ودماغ کے لئے بطور سامان جلا بخشی حرز جان بنالیتے تھے۔

آپ بحیثیت طبیب

ان سب کے ساتھ آپ ایک حاذق ونامور یونانی طبیب بھی تھے۔دوائیں خود ہی تیار کرتے ۔ آپ کے ہاتھوں تیار کی گئی دوائیں شارجہ، دبئی، مدینہ منورہ اور باہر ممالک میں بر آمد کی جاتی تھیں۔
اپنے مطب پر غریب مریضوں کے لئے بڑی فراخی کا معاملہ کرتے ، مثلا اس وقت بواسیر کی ایک ہفتہ کی دوا صرف 20روپیہ میں دیتے تھے، اگر مریض کی عسرت وغربت کا علم ہوجائے تو اس کو مفت میں دوائیں دیتے تھے، ایسے مریض جو متوسط معلوم ہوتے ان کو اکثر اوقات قیمت معلوم کرنے پر دواؤں کی قیمت بتانے کے بجائے کہہ دیتے کہ جتنی آپ کی مرضی، دے دو۔
آپ کو یونانی طب میں حذاقت کی بنیاد پر کئی امتیازی اسناد مل چکی ہیں،اسی کے ساتھ سابق وزیر صحت جناب مہیندرہارڈیاجی کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیو مینٹ ایوارڈ (lifetime achievement award) سے بھی آپ سر فراز ہوچکے ہیں۔

عوامی مقبولیت:

حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو ساتویں آسمان کے فرشتوں سے فرماتے ہیں: فرشتو! میں زمین پر فلاں بندے سے محبت کرتاہوں، تم بھی اس بندے سے محبت کرو۔ وہ فرشتے اُس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔اور پھر وہ فرشتے اپنے سے نیچے آسمان والے فرشتوں سے کہہ دیتے ہیں کہ فلان بندے سے اللہ محبت فرماتا یے، تم بھی اس سے محبت کرو۔
اس طرح تمام آسمانوں کے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین پر بھی اس کی محبت ومقبولیت عام کردی جاتی ہے۔
حضرت حکیم مفتی ولی اللہ صاحب ندوی علیہ الرحمہ کو اللہ نے ایسی ہی مقبولیت عامہ عطافرمائی تھی۔محلہ وبستی کے لوگ آپ کو احترام میں ابا کہتے اور اپنے گھر کاایک فرد مانتے تھے ۔اپنے خانگی معاملات میں ان کی رائے کو بسر وچشم قبول کرتے تھے۔
اہل علم القاب وآداب سے ان کا نام لیتے تھے۔علمی حلقوں میں آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ عالمِ اسلام کی معروف شخصیت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی دامت برکاتہم نے آپ کی وفات پرگہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے گھر کا ایک فرد قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کی مقبولیت صرف دینی و علمی حلقوں میں نہیں تھی ، بلکہ ہر میدان کے لوگ آپ کی زیارت کو باعث سعادت سمجھتے تھے۔ملک کے نامور کرکیٹر عرفان پٹھان بھی آپ کے دردولت پرحاضر ہوکر آپ کی زیارت سے باریاب ہوئے ہیں۔

آپ بحیثیث رفاہی عامل یعنی As a social activist

معاشرے وسماج کے سلسلے میں آپ کی تعمیری خدمات بھی یہی نہیں کہ یاد رکھی جائیں گی بلکہ عرصہ دراز تک بطور نمونۂ عمل(Ideal) آپ کی کاوشوں کو پیش کیا جائے گا۔ کورونا وبا( Covid-19 ) کے موقع لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاقہ مستی میں گرفتار لوگوں کی مدد کے لئے آپ کی کاوشیں لائق تحسین وقابل تقلید ہیں۔
آپ نے ملک ومعاشرےکو فرقہ وارائیت سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔جن میں آپ کی سعی کے نتیجے میں
” ہندو مسلم ایکتا وبھائی چارہ پنچایت”
اور "دولت گنج ایکتا پنچایت” کا قیام بھی ہے۔
حضرت مفتی صاحب کے انہیں جذبات کا ثمرہ ہے کہ آپ کے ایک فرزند ڈاکٹر عاصم صدیقی صاحب شہر کے معروف ادارے الفاروق یونانی میڈیکل کالج میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے ملک وملت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

خوش گلوئی و خوش خطی

خداتعالی نے آپ کو حسن صورت و پاکیزہ سیرت کے ساتھ ہی شیریں دہاں بھی بنایا تھا۔آپ کی قرأت وتلاوت سے طبیعت میں فرحت وانبساط کی لہر اٹھتی تھی۔بس طبیعت یہی چاہتی تھی کہ آپ کی زبان سے تلاوت وتقریر کبھی نہ ختم ہو۔یوں ہی ہم سنتے رہیں۔
خاندان میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں اکثر موصوف سے ملاقات ہوتی،اور بوڑھے درختوں کی شفقت بھری گھنی چھاؤں میں علمی تشنگی دور کرنے کا ناچیز کا شوق انہیں گھنٹوں گھیرے رکھتا.آپ کے قیمتی تجربات اور مشاہدات سے مزین ومملو ناصحانہ ملفوظات اور محبت بھری گفتگو کا انداز بھلایا نہیں جا سکتا.
اسی طرح صفت شیریں مقالی ونرم گفتاری کے ساتھ آپ خوش خط بھی تھے ۔کورونا وبا (Covid-19 ) کے عموم کے موقع پر اس سے حفاظت کے لئے آپ نے اپنے دست مبارک سے کچھ ادعیہ ماثورہ لکھ کر ایک پرزہ لوگوں کو دیا تھا۔وہ تحریر شاید اس دارفانی میں آپ کے ہاتھ کی آخری تحریر ہے۔اس میں موقع کی مناسبت سے مسنون دعاؤں سے استفادہ کی توفیق ملتی ہے وہیں آپ کی خوش خطی پر رشک بھی آتا ہے۔ع

مر بھی جاوں، تو کہاں لوگ بھلاہی دیں گے
میرے لفظ مرے ہونے کی گواہی دیں گے

ان مذکورہ بالا خصائص وامتیازات کے علاوہ بھی بے شماراوصاف حمیدہ سے اللہ نے آپ کو آراستہ فرمایا تھا۔جن کا ان مختصر سطور میں احاطہ دشوار ہے۔ع

قاصر مرا قلم ہے، تو عاجز مری زباں
ممکن کہاں کہ وصف ترا کر سکوں بیاں

14 اپریل 2020 کو یہ بلبل ہزار داستان آزاد نگر کے شہر خموشاں میں مرہون راحت ہوگیا۔
اناللہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ اور تاصبحِ قیامت آپ کی قبر کونور ونکہت کی آماجگاہ، سکون وسکینت کا مسکن بنادے۔اور پسماندگان کو صبرجمیل عطافرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہہ بانی کرے

2020/04/22

Comments are closed.