دریچہ کھلا ہوا

رابعہ الرَبّاء
[email protected]
موت وہ سچ ہے جس کا یقین کر نا سب سے دشوار ہے ۔ اور آج کل ہم اس سچ کے وہ وہ رنگ دیکھ رہے ہیں کہ جو ہم نے سوچے بھی نہیں تھے ۔ چین ، اٹلی ، یوکے ، ایران ، امریکہ سے سفر کر تا کرونا پوری دنیا پہ بادل بن کر چھا چکا ہے ۔ کہ اس بار بہا ر کے رنگ بھی بے مہک ہیں ۔
کہ اس ہفتے دنیا بھر کے ہر دل عزیر شاعر انور مسعود کی مسز اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ۔ ابھی اس خبر سے آنکھیں خشک نہیں ہوئیں تھیں کہ انڈیا سے دنیا بھر کے پسندیدہ دو فن کار عرفان خان اور ان کی والدہ اور اسکے فوراََ بعد ہی رشی کپور کے چلے جانے کی خبر نے جیسے سارے عالم فن کو سکتے میں لے لیا ۔ زندگی بس اتنی سی ہے ۔ اور موت کے سامنے اس کا بس نہیں چلتا ۔ روتے ہوئے آنے والے خود تو مسکراتے پر سکون چلے جاتے ہیں ۔ مگر پیچھے رہ جانے والوں کو روتا چھوڑ جاتے ہیں۔
چند بر س قبل میں نے صدیقہ آنٹی کا انٹرویو لیا تھا ۔ وہ خود ایک قابل فخر ہستی تھیں ۔ ماہر تعلیم تھیں ۔ یو ں بھی جب میں نے یہ انٹرویو لیا تب مشاہدہ ایک خاص رنگ میں ڈھل چکا تھا ۔ بہت سے مصنفین کی بیگمات سے مل چکی تھی۔ اور محسوس ہواکہ اگر یہ خواتین ان کی بیگمات نہ ہو تیں تو آج وہ مصنفین بھی اس مقام عظیم پہ نہیں ہو تے ۔ صدیقہ آنٹی بھی ایک ایسی ہی خاتون تھیں ۔جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر وہ انور انکل کی مسز نہیں ہو تیں تو ان کا ادب میں یہ مقام نہیں ہو تا ۔ یہ جوڑے جو آسمانوںپہ بنتے اور زمین پہ ملتے ہیں ۔ ان کے بھی اسرار و رموز ہو تے ہیں ۔ کام صرف ستاروں کے ملنے سے نہیں چلتا ۔چاند کو نکلنا پڑتا ہے تو رات جوان ہو تی ہے ۔
آئیں صدیقہ آنٹی کی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔ اور سب جانے والوں کی مغفرت کی دعاکرتے ہیں ۔
انٹرویو کہانی کار نے کہانی کی صورت لکھا ہے ۔
دریچہ کھلا ہوا
مسز صد یقہ انور
یہ سا ون کا مہینہ تھا ۔ دو نو ں شہر و ں میں خو ب با رش ہو ر ہی تھی۔ ٹھنڈ ی ہو ا ئیںہر سورقصا ں تھیں ، با دل کر ج چمک رہے تھے۔ ۔وقت مسا فر و ں کی طر ح سب کچھ خا مشی سے د یکھ رہا تھا۔
میں نے مقر رہ وقت پہ فو ن کیا تو وہ سو رہی تھیں ، مگر ان کی محبت کہ وہ ا ٹھیں ، اور مجھے پا نچ منٹ کے بعد فو ن کر نے کو کہا ۔میں با ر ش سے با تیں کر تی رہی۔ پو رے پا نچ منٹ بعد وہ ہشا ش بشاش تھیں ۔اور کہنے لگیں’ ــ’میں انو ر صا حب سے کہہ کے آ ئی ہو ں ، بڑ ے شا عر کی بیو ی ہو نا بھی بڑ ی با ت ہے ، ، ان کے لہجے میں اس سا تھ کا اطمینا ن ، سکو ن ، اعتما د او ر رشک مو جو د تھا۔ جس کو پچا س بر س بیت چکے تھے۔
وہ محبت بھر ے لہجے سے بو لیں ’’ مجھے لگتا ہے آ پ مجھ سے پچا س سا ل کی با تیں ا ْگلوا نا چا ہتی ہیں۔
یہ سنتے ہی ہم دو نو ں کھلکھلا کے ہنسنے لگے
انو ر مسعو د شو ہر و شا عر ؟اس جملے سے ان کے لہجے میں سنجیدگی آ گ،’’ میر ے ہا ں دونو ں چیز یں ا للہ نے ا کھٹی ر کھی ہیں ،انو ر صا حب ا چھے شو ہر ہیں ، میں تو با ت اس سے بڑ ھ کر کر ونگی وہ ایک اچھے انسا ن ہیں اور اچھے شا عر ہیں ، الفا ظ کا چنا ئو وہ انگو ٹھی میں نگینے کی طر ح کر تے ہیں، صیح الفا ظ کی تلا ش کے بعد بھی نجا نے کتنی با ر لکھ کر اس کو کا ٹتے ہیں ، پھر مجھے سنا تے ہیں، میں اپنی طر ف سے بہتر ین را ئے انہیں دیتی ہو ں ،اس کے بعد وہ اپنے مطا بق اس میں تر میم و اضا فہ کر لیتے ہیں ۔وہ بہت محنتی ہیں،اپنا بہت سا وقت اس میں لگا تے ہیں ، پھر فا ئینل کر تے ہیں ۔ یہ جو خطو ط کا مجمو عہ بھی شا ئع ہو ا ، یہ خطو ط بھی وہ کئی کئی با ر لکھا کر تے تھے،میرا خیا ل تھا ان کو اسی طر ح شا ئع کر وا یا جا ئے ، مگر کچھ خطو ط بہت مد ھم ہو چکے تھے،،
صد یقہ صا حبہ روا نی میں اپنی با ت مکمل کر رہی تھیں ، اور مجھے محسو س ہو رہا تھا کو ئی نقا د مسعو د صا حب کے فن کا تجز یہ کر رہا ہے۔
پھر وہ ذ را ٹھہرگئیں ، پھر گو یا ہو ئیں ،’’ عمو ماََ شعر ا ء کی بیگما ت ان سے نا لاں و پر یشا ں رہتی ہیں کیو نکہ شا ید وہ اپنے کا م میں اس قدر گم ہو جا تے ہیں کہ انہیں وقت و تو جہ ہی نہیں دے پا تے۔ مگر یہا ں معا ملہ دوسرا رہا ِ ،انو ر صاحب نے مجھے بھی وقت دیا اور شا عر ی کو بھی، البتہ بچو ں کے معا ملے میں عد م تو جہی کا شکا ر ہو جا تے تھے۔
شر وع کی زند گی کی با ت کر وں تو ہم دو نو ں کا م کر تے تھے۔میں بھی کا لج میں پڑ ھا تی تھی، پھر گھر کا کام بھی میر ے ذ مہ تھا مگر انو ر صا حب گھر کے کا مو ں میں بھی میر ے سا تھ تعا و ن کیا کر تے تھے۔میر ی طبعت خر ا ب ہو جا تی تو وہ میر ے لیے کھا نا بھی بنا تے تھے بعض دفعہ تو میں سو چتی تھی کا ش میں بیما ر ہی رہو ں اور وہ مجھے پکا پکا کر کھلا تے ر ہیں ۔،،
وہ یہ بتا تے ہو ئے حسین ما ضی کی ، رنگین یا د کی، سنہر ی تصو یر سو چتے ہو ئے کھلکھلا کر ہنس پڑ یں،جیسے اس کھا نے کی خو شبو انہیں آج بھی اور ابھی تک محسو س ہو تی ہو۔محبت اور خوشی ما دیت کی محتا ج نہی ہو تی۔زند گی کتنی حسین ہو تی ہے اور شو ہر کی محبت اس کو کس قدر رنگین بنا دیتی ہے۔اس وقت یہی قو س ِ قز ا ح میر ے سا منے مسکر ا رہی تھی۔
’’جو ا نی سے اب تک وہ خو اتین فینز کے جھڑ مٹ میں رہے، بعض گھر تک بھی آ جا تی ہو نگی تو آ ُ پ کے دل پہ کیا بتتی تھی؟ ،،اس سوال پہ انہو ں نے ہنس کر کہا ’’ ارے سوال اگر یہ ہو کہ ان کے دل پہ کیا بتتی تھی تو میں کہو ں گی ،مجھے علم نہیں ،کیو نکہ انو ر صا حب کا ضمیر صا ف تھا ، وہ مجھے بلا لیتے تھے۔ان سے ملواتے تھے۔اور مجھے بھی ان سے مل کر خو شی ہو تی تھی۔،،
اس بیا نیہ با ت کے بعد ان کے لہجے میں جیسے رو حا نیت درآئی
’’ دیکھیے ناں ـ:یہ بھی تو نصیب وا لو ں کی با ت ہے کہ ان کے فین ہوں ، لوگ انہیں چا ہیں اور یہ چا ہتیں بھی تو دو طر ح کی ہو تی ہیں ۔ ایک چا ہت پستی کی طر ف لے جا تی ہے اور دو سر ی چا ہت بلند ی کی طر ف لے جا تی ہے۔اور جہا ں تک انو ر صا حب کی چا ہت کا تعلق ہے تو میں سمجھتی ہو ں کہ لو گ ان کو اندر سے چا ہتے ہیں ، اور ان کی چا ہت احترا م کی حد تک ہو تی ہے۔ایسی چا ہت کم لو گو ں کو نصیب ہو تی ہے۔جس میں د عا ئیں بھی شا مل ہو ں۔یہ محبت کا نا طہ اللہ کی طر ف سے ہو تا ہے۔ اللہ جب چا ہتا ہے لو گو ں کے دلو ں میں ہما رے لئے محبت ڈ ال دیتا ہے۔ہمیں دنیا کی تما م دولتیں و نعمتں مل جا ئیں لیکن ہم لو گو ں کے دلو ں کے اندر نہیں اتر سکتے۔
با ت چلی تھی فینز کی، آج تک تو کبھی کسی خا تو ن فین کی وجہ سے ہما رے در میان لڑا ئی نہیں ہو ئی، آ ئند ہ ہو جا ئے تو کہہ نہیں سکتی۔،،
ان کے شر یر لہجے نے ہم دو نو ں کو ہنسنے پہ مجبو ر کر دیا۔ہنستے ہنسا تے میں نے ایک اور سوا ل کر نے کی گستا خی کر لی۔’’آ پ کو نہیں لگتا کہ یہ خطو ط ادھو ی محبت ، یا یک طر فہ محبت کی کہا نی ہیں؟ان کو دوطر فہ ہو نا چا ہئے تھا؟،،
ان کے لہجے میں اک ا نجا ن سی اداسی اتر آئی، وہ سا ون جو با ہر بر س رہا تھا ،اس کی آ واز کہیں اند ر سے سنا ئی دی۔میں بھی یہی سمجھتی ہو ں کہ اس کو دو طر فہ ہو نا چا ہئے تھا، میں بھی اس یک طر فی پہ پچھتا ر ہی ہو ں۔ہو ا یہ کہ میں اپنے پر ا نے کا غذات نکا ل رہی تھی، خطو ط بھی ان کی نذر ہو گئے،مگر مجھے امید ہے کہ کچھ خط کہیں ادھر اد ھر سے مل جا ئیں گے تو ان کو ایک سا تھ شا ئع کر ائو ں گی۔ انشاء اللہ۔
مجھے کو ئی آڑیا حجا ب نہیں بلکہ جب میں نے اس خوا ہش کا اظہا ر انو ر صا حب سے کیا تو کہنے لگے’’صد یقہ کیا کر تی ہو ؟یہ کو ئی شا ئع کر نے کی چیز ہے؟،،میں نے انہیں کہا ’’آ پ سمجھ نہیں رہے ،میں جس زا ویے سے با ت کر رہی ہو ں ،، ۔ اصل میں یہ انو ر صا حب کے نثر ی اقتبا سا ت ہیں،نثر ی کلا م ہے ، جو پڑ ھنے کی چیز ہے۔بڑ ے بڑ ے ادیبو ں کے ہا ں مجھے یہ نمو نے نہیں ملتے۔ پھر تحقیقی حو ا لے سے د یکھا جا ئے تو اس میں ان کی ذا تی زند گی کے با رے میں بہت موا د ہے۔جو عا م محقق کی دسترس سے با ہر ہو تا ہے،،
با یک وقت ان کے لہجے میں محبت و دانش کی آمیز ش تھی،جس میں سے کچھ کشید کرنادشوا ر تھا۔سا نسو ں کے زیر و بم میں آج بھی اک ما ن تھا، جو محبت پا لینے کے بعد عو رت کے سر کا تا ج بن جا تا ہے۔سا تھ ہی ساتھ لفظو ں و لہجے میں شکر تھا۔ جو ایک محبو بہ کو ز وجیت میں آ جا نے پہ بے اختیا ر ہو تا ہے۔اور پھر بھلا عشق دستاویز بن جا ئے تو اس سا کو ئی نمو نہ کہاں مل سکتا ہے۔
میں نے اس طلسم ذدگی کو اپنے سوا ل سے تو ڑ ا ، جو ہمیں طلسم ہو شر با تک لے جا سکتا تھا۔’’ یہ بتا ئیے کہ ایک معر و ف شخص کی بیو ی میں قو ت ِ بر دا شت زیا دہ ہو تی ہے یا ایک عا م شخص کی بیو ی میں؟،،
’’ عا م بیگم کا تو مجھے اندازہ نہیں،،
ان کے لہجے کی شر ا رت نے ایک مر تبہ پھر بھیگی شا م میں قہقہے بکھیر دئیے اور ہنستے ہنستے کہنے لگیں
’’ آ پ میر ی با ت سمجھ گئیں ناں ،،
اس جملے نے فل سٹا پ کا کا م کیا اور ہم دیر تک اِ س سے محظوظ ہو تے رہے
محبت ، محبو ب اور شو ہر ، آ پ وہ خو ش نصیب ہیں جس کے مقدر میں یہ سب کچھ اکھٹاآیا ، کیا کہیں گی؟
اس جملے کے سا تھ ہی ہو ا ئو ں میں بکھر ی مسکر ا ہٹو ں کی خو شبو مجھے محسو س ہو ئی،وہ کہنے لگی’’ اس سوا ل کو اگر میں اس طر ح بدل دوں کہ میں ان کی محبو بہ تھی۔کیو نکہ انو ر صا حب بھی کہتے ہیں کی اگر مجھے صد یقہ نا ملتی تو آ ج میں اس مقا م پہ نا ہو تا ، کہیں بکھر جا تا اور وا قعی یہ بکھر جا تے کیو نکہ ان کے جو حا لا ت تھے ، اور جو میں نے محسو س کیا کہ یا تو یہ شخص نیم پا گل ہوجا ئے گا ،یا سب کچھ چھو ڑ چھا ڑ کے جنگل میں نکل جا ئے گا۔یو ں بھی ان کے بزر گو ں میں ہے کہ وہ دنیا چھو ڑ کے جنگو ں میں نکل جا تے تھے۔،،
ان کے لہجے میں اک شْکر بھر ا رشک تھا اور اْس وقت جو دل دھڑکا ہو گا ، آ ج بھی اس کی کھنک سنا ئی دے رہی تھی۔وہ ذرا رکتے ہو ئے، بلکل یو ں جیسے دل کے صا ف بندے کو سا ری دنیا شفا ف دکھا ئی دیتی ہے، کہنے لگیں
’’میں ہی آ پ کو قصہ سْنا دیتی ہو ں ۔ جب ہم ایم اے کے دوسر ے سا ل میں تھے، ایک دو سر ے کے نو ٹس لیتے تھے، ایک مر تبہ میں نے ان سے فا رسی ادب کی کا پی ما نگی، وہ کسی کے پا س تھی، انہو ں نے اس سے لے کر مجھے دے دی۔کتنے ہو شیا ر ہیں نا ں انو ر صا حب ، اتنے معصو م نہیں جتنا آ پ سمجھ رہی ہیں ، جب میں نے کا پی کھو لی تو اس میں ایک شعر ہلکا سا رَب کیا ہو ا تھا
ان کی نظر کی سمت ہما ری نظر اْ ٹھی
اتنا سا اقتبا س تھا دْنیا بدل گی
وہ شعر پڑ ھتے ہی میں کھٹک گئی ، یو نیور سٹی میں وہ یو نین کے صدر تھے میں سو سا ئٹی کی وا ئس پر یذ ڈنٹ تھی۔ ان کے پا س ایک لڑ کے کی شکا یت لے کر گئی کہ اس نے میر ی کلا س فیلو کا پیچھا کیا ہے ، آ ئند ہ ایسا نہیں ہو نا چا ہئے ، میں سا دگی میں کہتی رہی ، وہ نجا نے کن نظر و ں سے دیکھتے ر ہے اور مجھے بعد میں پتا چلا کہ ’’ دنیا بد ل گئی،،
تب میں نے گر یز اختیا ر کر لیا ، بے نیا زی اختیا ر کے لی ان سے، میں انہیں اکھڑ پن میں جو ا ب دینے لگی،جو ں جو ں میں ایسا کر تی رہی ، شا ید ان کے دل میں اور زیا دہ محبت پر وان چڑھتی رہی۔ اور انہیں لگا کہیں مو قع ہا تھ سے نا نکل جا ئے ۔ انہو ں نے مجھے یو نیو ر سٹی لا ئبریر ی میں روکا اور بہت ہی شا ئستہ الفا ظ میں حا ل ِ دل کہہ دیا ۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کے جو اب میں اقبا ل کا یہ شعر پڑ ھا اور آ گئی
در طلب کو ش و مد ہ دامن ا مید زدست
دولت ہست کہ یا بی سر را ہے گا ہے
(اگر لگن ہے تو جستجو کر تے رہو ، امید کا دا من ہا تھ سے نا چھو ڑ و ، کبھی نا کبھی یہ دولت تمہیں مل ہی جا ئے گی)
یو ں اس شعر میں میں نے انہیں حو صلہ دیا ، پھر معا ملات آ گے بڑ ھے۔انہی دنو ں کر ا چی کے ایک تا جر کا رشتہ بھی آیا ہو ا تھا اور مجھے تا جر و ں سے ، جو ہر وقت پیسے گنتے رہتے ہیں ، اللہ وا سطے کا بیر تھا، حا لا نکہ ہو نا نہیں چا ہیے، میں سو چنے لگی اگر وہا ں رشتہ ہو گیا تو زند گی تبا ہ ہو جا ئے گی۔ پھر میں نے حو صلہ کر کے اپنے بھا ئی شا ہد سے با ت کی ، وہ انو ر صا حب سے ملے ، دونو ں کی دوستی ہو گئی ۔یو ں معا ملہ طے ہو گیا ۔کہ ا باّ جی بھی ان پر فخر کر نے لگے۔،،
یو ں قدرت صدیقہ ، صدیقہ انو ر ہو گئیں۔زندگی کا سفر اپنے سا تھ کے سا تھ اپنا ہو گیا۔جہا ں محبت کی طا قت ، مشکلو ں کو جھیلنے کی قو ت خو د بخو د عطا کر تی ہے۔ان کی با تیں جا ری تھیں اور وقت میر ے سا منے تصو یر یں بْن رہا تھا۔
’’شا دی کے بعد کے خطو ط میں وہ با ت نہیں آ ئی ، جو پہلے تھی، اس وقت جذ بہ جو بن پہ تھانا ں ، جو انسا ن کو شعر کہنے پر مجبو ر کر دیتا ہے۔بلکہ تب انہو ں نے ایک قطعہ لکھا تھا ۔جس میں میر ے نا م کو یو ں درج کیا کہ آ ج تک کسی کو پتا نہیں چلا۔ پہلے میر ا نا م قد رت صدیقہ تھا ۔
قسم خدا کی محبت نہیں عقید ت ہے
یا ر ِ دل میں بہت ا حتر ا م ہے تیر ا
بیا د ِ شعر میں قا ئم ہے آ بر و تیر ی
تو قعات کے گھر میں مقا م ہے تیرا
اس قطعہ کا ہر پہلا حر ف دیکھئے (ق)(د)(ر)(ت)تو قدرت بن جا تا ہے۔،،
جب وہ خطو ط کی با ت کر تیں تو مجھے محسو س ہو تا، یہ خطوط نہیں ، محبت کے پھو لو ں کا وہ گلستا ن ہے، جو صد یقہ انو ر کا سب سے بڑ ا ما ن ہے، اور کو ئی لا شعو ری خو ا ہش چا ہتی ہے کہ یہ خو شبو کا ئنا تو ں میں محبت کا پیغا م لے کر پھیل جا ئے، اور با ٓ واز ِ بلند کہے ، دیکھو محبت اس کو کہتے ہیں ، میر ا نا م محبت ہے۔۔۔۔۔۔
میں نے اس رو حا نی یا دوں کے طلسمی تا لا ب میں ایک کنکر کا اضا فہ کیا ’’ شا دی کے بعد انو ر صا حب نے کچھ ایسا کیا ہو کہ اچا نک ان پہ پیا ر آ گیا ہو؟آپ اند ر سے کِھل اْٹھی ہو ں ۔چا روں اور رنگ پھیل گئے ہوں؟،،
’’انو ر صا حب فطر تاََ سا دہ سے انسا ن ہیں ، انہو ں نے کبھی یہ نہیں محسو س کر وایا کہ وہ کوئی بہت بڑ ے شا عر ہیں یا کو ئی بہت بڑ ی چیز ہیں۔ ایک دفعہ میں نے انو ر صا حب کے لیے بہت محنت و پیا ر سے قو ر مہ بنا یا ، جیسے وہ گھا ڑ ا گھا ڑ ا ہو تا ہے، مگر انو ر صا حب کو شو ر با پسند ہے ۔ کہنے لگے ’’یہ کیا تم نے گھا ڑا گھاڑا شو ربا بنا دیا ہے،، پا س ہی پا نی کا گلا س پڑ ا تھا ۔وہ میں نے ان کے پیا لے میں اْنڈیل دیا اور خود دوسرے کمر ے میں آ گئی ، کہ کہیں ان کو مجھ پہ غصہ آگیا تومجھ پر ہی نا پھینک دیں ، در وازے کی اوٹ سے دیکھتی رہی، وہ نو ا لے اس میں ڈبو کر کھا تے رہے ، بعد میں با قی کا شو ر با پی گئے۔ اس روز میں اپنی اس حر کت پر بہت نا دم ہو ئی کہ میں نے ان کو کیا سمجھی، اور وہ کیا ہیں،،
میر ا ذہین پھر محبت کے فلسفے پر جا الجھا ، مر د اگر عو رت کی کو تا ہی یا کسی نا پسند ید ہ با ت کو پسند کر لے تو عو رت پھلو ں والا درخت بن جا تی ہے۔
میں نے انہیں ایک مر تبہ پھر لمحے کی گر فت سے نکا ل دیا’’ کبھی انو ر صا حب نے آ پ سے چا ر حلال شا دیو ں والی کہا نی اور حو روں کے قصے چھڑے؟،،
’’با قا عد ہ تو خیر کبھی نہیں ہو ا، البتہ ایک مر تبہ اِ ن کو فلو ہو گیا، تو پا نی میں کچھ ڈال کر بھا پ لیتے تھے، شو گر کی وجہ سے ری ایکشن ہو گیا کہ ان کو دو دو نظر آ نے لگے، جس دوست کا بھی فو ن آتا تو مذاق میں کہتے ـ’ہمیں دو دو زو جہ نظر آ رہی ہیں، کچھ دیر تو میں نے ضبط کیا پھر انو ر صا حب سے کہا ’ انو ر صا حب مجھے چا ر چار نظر آ رہے ہیں ، اس کے بعد انہو ں کبھی مذاق میں بھی یہ با ت نہیں کی۔جہاں تک حو روں کا تعلق ہے تو وہ اپنے دوستو ں سے کہتے ہیں ’’ مجھے حو ریں نہیں چا ہیں صدیقہ چا ہیے،،
’’ انو ر صا حب کے سو ا میں کسی اور کا سو چ بھی نہیں سکتی اور وہ بھی میر ے سو ا کسی کا نہیں سوچ سکتے،،
اگر یہ ما ن عو رت کو نصیب ہو جا ئے تو اسے جنت کی ضر ورت ہی کب رہتی ہے۔با ر با ر جذبا تی لمحے اس سلسلے کو تر کر دیتے تھے۔مجھے محسو س ہو ا سوال و جوا ب اس قدرتی روانی کا تسلسل تو ڑ رہے ہیں ، میں نے سب کچھ ان کے حوا لے کر دیا، جیسے کچھ لوگ زندگی کو تقدیر کے سپر د کر دیتے ہیں۔اور کر شمے جلوا گر ہو نے لگتے ہیں، یو ں بھی آزادی خو د ایک منز ل ہے، اس کی اپنی ایک پہچا ن ہے۔
’’ما لی لحا ظ سے ابتدا ئی حالات بہت کٹھن تھے مگر ہم نے حو صلہ نہیں ہا را۔ اس وجہ سے گھر میں تنا ئو پیدا نہیں کیا۔ہنستے رہے ، یہ جہا لت ہے کی چھو ٹے چھو ٹے معا ملا ت پر شو ہر سے جھگڑا جا ئے ۔اس سے حا لا ت زیا دہ بگڑ جا تے ہیں ۔
میر ی سسرال بہت اچھی تھی اور میر ی سا س تو کما ل کی خا تو ن تھیں ، فا رغ ہو تے کی کتا ب لے کر بیٹھ جا تی تھیں ، ان کو بڑ ے بڑے ادیب ازبر تھے،وہ پنجا بی تھیں اور پنجا بی زبا ن کے حر و ف و تلفظ کے با رے میں بہت محتا ط تھیں ،یہ سب جو آ ج ہے ، ان کی د عا ئیں ہیں ،زندگی اصل میں جو بھی ہو تی ہے، ما ں با پ کی دعا ئوں سے ہو تی ہے۔
انو ر بہت ذمہ دار شو ہر تھے،جب میں اپنے آس پا س دیکھتی تھی تو حیرا ن ہو تی تھی کہ مر د ایسے بھی خطر نا ک ہو تے ہیں،جو عو رت پر ہا تھ اْ ٹھا تے ہیں ،الزا م تر اشی پہ اْتر آتے ہیں ، اْ نہو ں نے میر ے لئے کبھی کو ئی ہلکا لفظ بھی استعما ل نہیں کیا۔
کبھی انہو ں نے مجھے اپنے جو تے کو بھی ہا تھ نہیں لگا نے دیا،نا کسی ملا زم کو ، نا کسی بہو بیٹی کو۔وہ کہتے تھے عو رت کا یہ مقا م نہیں ہے۔وہ ایک درویش صفت انسا ن ہیں۔ایک دفعہ ہم کہیں گئے تو ٹر ے لگا کر ملا زم کے لیے کھا نا لے گئے ، پھر پا نی لے گئے اور وہا ں کھڑ ے رہے کہ وہ پی لے تو گلا س لے کر ا ندر جا ئیں ۔وہ دوسر وں کا خیا ل رکھنے وا لے انسا ن ہیں۔
حا لا ت چو نکہ ابتدا ئی دور میں اتنے اچھے تو تھے نہیں کہ ہم روز نیا جو تا خر یدتے،منگل با زار کے قر یب مو چی بیٹھتا تھا، انو ر صا حب اس سے جو تا ٹھیک کر وانے چلے گئے، اس کے پا س بیٹھ کر جو تا ٹھیک کر وا رہے تھے، میر ے چھو ٹے بیٹے جوا د نے دیکھ لیا اور آ کر مجھے کہنے لگا ’’ امّی ابو کو منع کر یں،مو چی کے پا س بیٹھے ہو ئے ہیں ، پتا ہی نہیں لگتا مو چی کو ن ہے؟ ۔ میں نے اس سے کہا ابھی تم بہت چھو ٹے ہو ، تھو ڑ ے بڑ ے ہو جا ئو تو تمہیں بتا ئوں گی احتر ا م آ د میت کیا چیز ہے۔
اندا زہ کیجئے کا لج میر ے گھر سے ڈیر ھ میل دور تھا ، جہا ں میں روز پیدل آ تی جا تی تھی کہ میر ے پا س آ ٹھ آنے ہو تے تھے اور سو چتی تھی کہ ا گر تا نگے وا لے کو دے دیے تو بچو ں کے لیے کیا لے جا ئو گی۔بہت کچھ جھیلا مگر خو شی سے گرا نی سے نہیں۔اگر مصیبت کو خو شی سے قبو ل کر لیں تو بھلائی کے رستے نکل ہی آتے ہیں اور مجھے اللہ کی ذات پر یقین کا مل تھا کہ ہم دونو ں خلو ص کے سا تھ منز لیں طے کر تے رہے تو ایک روز ضرور حا لا ت بد ل جا ئیں گے۔ یہ سلسلہ تب ہی چل سکتا ہے،جب دونو ں طر ف سے خلو ص ہو ورنہ بگڑ جا تا ہے۔یو ں بھی انسا ن کو پر کھا ہی پر یشا نی کے عا لم میں جا تا ہے۔
اور وہ جو ہے’’ بے شک تنگی کے بعد آ سا نی ہے،، اور ’’ جب فا رغ ہو جا ئیں کا م میں لگ جا ئیں،،
میں نے سو چا یہ حکم ہما رے لیے بھی تو ہے۔قر آ ن سے محبت و عشق کا لج کے زما نے سے ہی تھا کہ میں درود پاکﷺ پڑ ھتی رہتی تھی۔اور کا لج میں جہا ں بڑ ی بڑ ی امیر زادیاں ہر ہفتے نئی گا ڑیو ں میںآتی تھیں ، ہم کئی ما ہ دو جو ڑ وں میں ہی گزار دیتے تھے۔مگر ہما ری عز ت ان سے زیا دہ تھی،کیو نکہ ہما را رحجا ن کچھ اور تھا ما دیت نہیں تھا
وہ چا ہتا تھا راہ رسم و زند گی بد لے
بگڑ گیا تھا جو اندا ز بند گی بدلے
بھٹک رہا تھا جو اسلو ب زندگی بدلے
اسے یہ دْ ھن تھی کی اندر سے آدمی بد لے
اب میر ا زیا دہ وقت قر آن کے ساتھ گزرتا ہے۔میں اس کو آ سا ن لفظو ں میں لو گو ں کے دلو ں میں اْ تا رنا چا ہیی ہوں ۔ جس واقعہ نے مجھے مزید قر آن کی طر ف را غب کیا ، وہ میر ی بیما ری تھی، اور میر ے ڈاکٹر کر نل صدیقی کے مطا بق ’’ صدیقہ آ پ اللہ کا معجزہ ہیں،،
مجھے کینسر ہو گیا تھا۔مجھے تکلیف تو تھی مگر میں ضبط کر تی رہی کہ ،علاج کہا ں سے ہو گا ، کو ن کروائے گا ۔یہ معلو م نہیں تھا کہ کینسر بھی ہو سکتا ہے، جب ڈ اکٹر کے پا س گئے تو اس نے کہا واپس لے جا ئیے اب کو سا را پھیل چکا ہے۔مگر پھر کیمو شر وع کی گئی۔کیمو سا ت مر تبہ لگنی تھی مگر میں نے ڈ اکٹر سے کہا اگر آپ میر ی زندگی چا ہتے ہیں تو مجھے چھو ڑ دیجیے۔پہلے تو ڈاکٹر نہیں ما نے ، پھر میر ے اصرار پر یہ کہا کہ اب آپ کی ذمہ داری ہے ۔
گھر میں میر ے جنا زے کی تیا ریا ں کر لی گئی تھیںکہ صد یقہ کی میت ہسپتا ل سے آنے والی ہے۔
میں خو د تیا ر ہو گئی تھی کہ ٹھیک ہے اگر وقت آ گیا ہے تو۔ مگر ظا ہر نہیں کر تی تھی کہ انو ر صا حب اور بچے پر یشا ن نا ہوں۔
ڈاکٹر نے دوائیو ں اور انجکشنز کا ایک پلندہ سا تھ دیا، وہ دن آ ج کا دن میں نے اس مر ض کی ایک گو لی بھی نہیں کھا ئی۔اور آج دیکھئے اللہ کا احسا ن ہے ٹھیک ہوں۔
ٹھیک ہو نے کے بعد مجھے احسا س ہو نے لگا مجھے صحت عطا کر نے میں اللہ کی کیا مصلیحت ہو سکتی ہے۔تب میر ا رحجا ن اس طر ف ہو گیا اس کے بعد ہما رے گھر میں جو انقلا ب آیا، آپ اندازہ نہیں کر سکتیں۔انو ر صاحب کی شہر ت کو بھی چا ر چا ند لگ گئے ۔حا لا ت بلکل بد ل گئے۔
انو ر صا حب کے حو ا لے سے آپ کو بتائو ں کہ ان کے والد ین بتا تے ہیں کہ شاید ان کے چچا نے خو ا ب دیکھا تھا ، ’’انو ر صا حب پیدا ہو تے ہیں تو حضور اکرم ﷺتشریف لا تے ہیں اور اپنا لعا ب دہن ان کے منہ میں لگا تے ہیں ،،ان کی زبان میں جو تا ثیر ہے اس ہی کا کر م ہے
انو ر صا حب نے قرآن پا ک مجھ سے ہی پڑ ھا ۔اور میر ی بھی شد ید خو اہش تھی کہ وہ مجھ سے پڑ ھیں ۔ہو ا یو ں کہ انو ر صا حب کی طبعت بہت خر اب ہو گئی ، وہ عجیب کیفیت میں چلے گئے،اس کو نر وس بر یک ڈائون سے بھی تشبہہ دی جا سکتی ہے۔نا بو لتے تھے ، نا کسی سے ملتے تھے، کچھ بر داشت نہیں کر تے تھے۔بچوں کو پیٹنے تک نو بت آ جا تی۔لو گ کہنے لگے ان پہ جنا ت کا اثرہو گیا ہے۔
میر ا خیا ل ہے میں جس کمر ے میں درس دیتی تھی، وہ سا تھ والے کمر ے میں شا ید سنتے تھے،جس نے ان کو بہت متا ثر بلکہ اسیر کیا۔ایک دن میں بیٹھی ہو ئی تھی وہ میر ے پا س صو فے کی سا ئیڈ پہ آ کر بیٹھ گئے اور بلکل معصو م بچے کی طر ح کہنے لگے ’’ صد یقہ مجھے بھی پڑ ھا دو،،
بس یو ں زندگی اک نئی ڈ گر پر آ گئی ،،
کسی بھی رشتے میں محبت اکیلی اہم نہیں ہو تی ،ناطے کہیں اور سے ضر و ر جڑ ے ہو تے ہیں مگر خلو ص اور عزت و اعتما د اس کو حسین تر و آ سا ن بنا دیتے ہیں ۔ یہ مجھے صد یقہ صا حبہ کی گفتگو سے جا بجا اندا زہ ہو رہا تھا۔
وہ جیسے اس د ْ کھ کو یا د کر کے تھک گئی تھیں۔ تھکن ادا سی اور تلخ حقیقی ما ضی میر ی آ نکھو ں سے جڑ سا گیا۔ شا ید وہ بھی سمجھ گئی تھیں ، خو د ہی مو ضو ع بد ل دیا ۔
’’آپ کو ایک مزے کی با ت بتا ئو ں، انو ر صا حب کہتے ہیں ’ میر ی بیو ی نے زندگی میں ایک ہی جملہ پنجا بی کا بو لا ہے، ’’ وہ فیصل آبا د ایک مشا عرے میں گئے ،دیر سے پہنچے تو شو ر مچ گیالڑ کو ں نے ہا ر پہنا یا جس پر سنہر ی حر و ف سے لکھا تھا’ شا دی مبا رک، ۔واپس اسلا م آبا دآئے تو مجھے بتا یاکہ آج یہ معا ملہ ہو ا ۔تو میں نے کہا ’’ فیر تْسی کلے ای آ گئے او،،
ہم اردو سپیکنگ تھے ، انو ر صا حب کی فیملی پنجا بی تھی، مگر ان کے ہا ں کسی طر ح کا تعصب نہیں تھا۔مجھے یا د کر کے اچھا لگتا ہے کہ میر ے سْسر میر ے سا تھ اردو بو لتے تھے۔میر ی نند و ں نے مجھ سے اردو سیکھی۔جب ہم کسی کو عز ت دیتے ہیں تو ہی کسی کی زبا ن سیکھتے ہیں ناں۔
پنجا بی اور اردو محا ورے میں سمجھنے کے اعتبا ر سے بعض اوقا ت ایک خا ص حسن پیدا ہو جا تا ہے۔
ایک دفعہ میں گھر کے کا مو ں میں مصرو ف تھی۔جھا ڑ و با لا ئی منز ل پہ رکھا تھا ۔ میں نے انو ر صا حب سے کہا ’ انو ر صا حب او پر سے ذرا جھا ڑ و دے دیں،وہ اوپر گئے ، کا فی دیر ہو گئی ، نیچے نہیں آئے۔میں نے پھر کہا ’ انو ر صا حب اوپر سے جھا ڑ و دے دیں، تو کہنے لگے ’ دے تو رہا ہوں، (دیکھا تو با لا ئی منز ل کی صفا ئی کر رہے تھے)
وہ بو لتے بو لتے ٹھہر سی گئیں۔
مجھے گہر ی شام کی خو شبو محسو س ہوئی، شیشے سے با ہر دیکھا۔دو وقت آپس میں مل رہے تھے۔آسما ن سر خی ما ئل ہو رہا تھا۔میرے کمر ے کی کھڑ کی سے با ہر رکھے رات کی رانی کے پو دو ں کی خو شبو ہو ا کے سا تھ چاروں اور پھیل رہی تھی۔اور بیڈ کے قر یب رکھے ٹیو ب روزیز بھی مسکر انے و گد گدانے لگے تھے
انہو ں نے یہ سکو ت خو د ہی تو ڑا ،ان کے لہجے میں اک انجا ن سی اداسی تھی
’’ جو ڑ ے تو بے شک آ سما نو ں پہ ہی بنتے ہیں ، اب تو یہ سب کچھ اللہ کی طر ف سے ہو گیا ۔ میں سو چتی ہو ں خدا نخو ا ستہ اگر یہ نا ہو تا تو
گز ر تو جا ئے کی تیر ے بغیر بھی لیکن
بڑ ی اداس بڑ ی سو گ وار گز رے گی
’’ ساتھ ہی اْ ن کے لہجے میں ایک توانا ئی آ گئی،،
ان کے حو ا لے سے مجھے ان کا یہ شعر بہت پسند ہے
میری خطا ہے را ت کی را نی سے کیا کہو ں
اس کو تو چا ہئے تھا در یچہ کھلا ہوا

Comments are closed.