Baseerat Online News Portal

سید شاہنواز حسین کے نام کھلا خط!

آداب!
چیرمین دہلی مائناریٹی کمیشن جناب ظفرالاسلام خان کے حکومت کوویت کو لکھے گئے مکتوب پر آپ کا ردعمل پڑھا۔ کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ نہ ہی افسوس۔ خیر! پہلے اپنا تعارف کروادوں۔ آپ کو شاید یاد نہ ہوگا کہ جب آپ وزیر ٹیکسٹائلس تھے اور آپ سے متعلق اکثر مسلمانوں میں بدگمانیاں تھیں (اب اور زیادہ بڑھ چکی ہیں)۔ آپ حیدرآباد تشریف لائے تھے۔ لعل جان باشاہ مرحوم ایم پی‘ نے گرین لینڈ گیسٹ ہاؤز میں آپ کے اعزاز میں عصرانہ ترتیب دیا تھا۔ اس موقع پر باشاہ صاحب کی خواہش پر میں نے آپ کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا تاکہ اُن غلط فہمیوں کا اِزالہ کیا جاسکے۔ آپ نے جب اپنے خاندانی پس منظر سے متعلق بتایا تھا کہ آپ کا تعلق حضرت چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادہ سے ہے جس کے بعد کم از کم مسلم طبقہ میں اس بات کی طمانیت ضرور پیدا ہوئی کہ ایک اہل سلسلہ ان کے نمائندے کے طور پر موجود ہیں۔ کیا ہوا اگر حکومت بی جے پی کی ہے! حیدرآباد میں آپ پہلی مرتبہ مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کے گولڈ میڈل فنکشن میں تشریف لائے تھے جس میں آپ نے بہت اچھی ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے خود اپنے بارے میں بتایا تھا کہ آپ نے میٹرک کے امتحان میں اردو میڈیم کے طالب کی حیثیت سے آپ ریاست بہار کے ٹاپر رہے۔ آپ کے نام کے ساتھ ”سید“ کا اضافہ آل رسول ہونے کی گواہی دیتا ہے اور ”حسین“ کی شمولیت حق کے لئے جان و مال قربان کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ دوسروں کے مقابلہ میں آپ سے مسلمانوں کی ہمیشہ سے اچھی توقعات وابستہ رہیں‘ اگرچہ کہ آپ کے بہت سے اقدامات اور افعال سے مایوسی بھی ہوتی رہی مگر یہ آپ کی اپنی نجی مجبوریاں ہیں۔سب سے زیادہ صدمہ اُس وقت ہوتا ہے جب آپ حکومت میں مسلم چہرہ ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں ہی کی مخالفت میں بات کرتے ہیں۔ پارٹی سے آپ کی وفاداری اپنی جگہ۔ حالانکہ بی جے پی لہر کے باوجود آپ کی پارٹی نے آپ کو گذشتہ الیکشن میں جیتنے میں کوئی مدد نہیں کی۔ اب آپ پارٹی کے ایک اہم رکن ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے آپ کو تسلی دے سکتے ہیں۔ مگر آپ کا دل بھی اندر ہی اندر کڑھتا ہوگا، خون کے آنسو روتا ہوگا، کیوں کہ مسلمان آپ پر پوری طرح سے اعتماد کرتے ہی نہیں‘ پارٹی کس حد تک آپ پر اعتماد کرتی ہے‘ یہ آپ ہی جانتے ہیں۔ نیشنل ٹی وی چیانلس پر پارٹی کے موقف کا دفاع کرنا اور اخبارات میں بیان بازی اب زیادہ تر آپ کی مصروفیات میں شامل ہیں۔ آپ نے ظفرالاسلام صاحب کے مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہندوستان کی ساکھ متاثر ہوگی‘ تو جناب عالی! کیا آج آپ سمجھتے ہیں کہ ساکھ بہتر ہے۔ ہم انفارمیشن ٹکنالوجی‘ سوشیل میڈیا کے ساتھ ایک گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں جہاں پل بھر میں ہر خبر منظر عام پر آجاتی ہے۔ دہلی کے فسادات میں کجریوال کے 10لاکھ سی سی ٹی وی کیمرے‘ جو حقائق کو قید نہیں کرسکتے، عام شہریوں نے رات کی تاریکیوں میں اپنے موبائلس سے اسے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ سوشیل میڈیا پر ہر روز مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس سے انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبردار تنظیمیں دیکھ رہی ہیں‘ جائزہ لے رہی ہیں اور اسی کی بنیاد پر حکومت ہند سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ سلوک کو بہتر بنائے۔
امریکہ، یوروپ اور اب مسلم ممالک کا ردعمل ہمارے لئے اچھا نہیں ہے۔اس کے لئے ذمہ دار ہندو انتہا پسند تنظیمیں ہی نہیں ہیں‘ حکومت بھی ہے اور آپ جیسے لوگ بھی‘ جو حق بات سے گریز کرتے ہیں۔ جب ہم دوسرے ممالک میں بسنے والے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے بہانے انہیں ہندوستان میں شہریت دینے کے لئے قانون بناتے ہیں تو یہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں۔ اور کوئی دوسرا ملک ہمارے ملک کے اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو یہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہے۔ یہ دوہرا معیار کیسا؟ آپ کے ایک ساتھی نے بالکل صحیح کہا کہ ہندوستان مسلمانوں کے لئے جنت ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کو جنت بنایا بھی مسلمانوں نے ہی۔ ہندوستان کا وہ علاقہ جسے واقعی جنت کہاجاتا تھا‘ اس کا آپ لوگوں نے کیا حال کردیا۔ اُسے جہنم بنادیا۔ کیا ہم اپنی آنکھ بند کرلینے سے دنیا سے حقیقت چھپا سکتے ہیں کیا۔
جناب عالی! جوانی ہمیشہ نہیں رہتی۔ ضعیفی بھی آتی ہے۔ بیماری بھی………….. کرونا وائرس نے سب کو ان کی بے بسی کا احساس دلایا ہے۔ حکومتیں ہمیشہ ایک ہی نہیں رہتیں۔ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ہماری نظر میں جو ظلم کررہا ہے‘ وہ بھی ظالم ہے۔ اور اس کی حمایت کرنے والا، اس کی ہاں میں ہاں ملانے والا بھی ظالم ہی ہے۔ خدا کے لئے اپنے ضمیر کو آکسیجن دیں۔ جہاں ضرورت ہے‘ وہاں حق بات کہنے کی ہمت کریں۔ اپنے قائدین اور پارٹی کارکنوں اور انتہا پسند تنظیموں کو مسلمانوں پر ظلم سے روکیں۔ یہی آپ کی نجات کاذریعہ ہوگا۔ ورنہ آنے والے دنوں میں آپ اپنے گذرے ہوئے کل پر پچھتائیں گے روئیں گے تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ حق بات نہیں کہہ سکتے‘ مسلمانوں کے حق میں بات نہیں کرسکتے‘ کوئی بات نہیں یہ آپ کی مجبوری ہوگی‘ کم از کم اپنی زبان بند تو رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے مائناریٹی کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے جو رول ادا کیا وہ قابل ستائش ہے۔ آپ کم از کم اپنے قائدین کو توعام مسلمانوں کے جذبات سے واقف کرواسکتے ہیں۔ آپ پر پھر بھی کسی حد تک اعتماد کرنے کی گنجائش ہے۔ امید ہے کہ آپ سنجیدگی سے غور کریں گے، اپنا محاسبہ کریں گے اور…………………………
نیک تمناؤں کے ساتھ : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

Comments are closed.