Baseerat Online News Portal

لاک ڈاؤن بطورایّام خالیہ

مکرمی!
حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک دفعہ مدینہ منوّرہ سے باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ خدام ساتھ تھے۔ کھانے کا وقت ہوگیا۔ خدام نے دسترخوان بچھایا۔ سب کھانے کے لئے بیٹھے۔ ایک چرواہا بکریاں چَراتا ہوا گذرا۔ اس نے سلام کیا۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے اسکی کھانے کی تواضع کی۔ اُس نے کہا میرا روزہ ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اس قدرسخت گرمی کے زمانے میں کیسی لُوچل رہی ہے۔جنگل میں تُو روزہ رکھ رہا ہے۔ اُس نے عرض کیاکہ میں اپنے ’’ایّامِ خالیہ‘‘ کو وصول کررہا ہوں۔ یہ قرآنِ پاک کی ایک آیتِ شریفہ کی طرف اشارہ تھا جو سورۂ الحاقہ میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ جنّتی لوگوں کو فرماویں گے ۔ ترجمہ ’’ کھاؤ اور پیو مزہ کے ساتھ اپنے اُن اعمال کے بدلے میں جو تم نے گذرے ہوئے زمانہ میں (دُنیا میں) کئے ہیں۔‘‘(69/24)۔
اس کے بعد حضرت ابن عمرؓ نے امتحان کے طور پر اُس سے کہا کہ ہم ایک بکری خریدنا چاہتے ہیں۔ اسکی قیمت بتادو اور لے لوہم اس کو کاٹیں گے اور تمھیں بھی گوشت دیں گے کہ افطار میں کام دے گا۔ اُس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہیں، میں تو غلام ہوں یہ میرے سردار کی بکریاں ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ سردار کو کیا خبر ہوگی؟ اس سے کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اُس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا فَاَین اللہ اور اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟ یعنی وہ پاک پرور دگار تو دیکھ رہا ہے جب وہ مالک الملک دیکھ رہا ہے تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت ابن عمرؓ تعجب اور مزے سے باربار فرماتے تھے۔ ایک چرواہا کہتا ہے این اللہ این اللہ۔ اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کہا ںچلے جائیں گے۔ اس کے بعد حضرت ابن عمرؓ شہر میں واپس تشریف لائے۔تو اُس غلام کے آقاسے اُس غلام کو اور بکریوں کو خرید کرغلام کو آزاد کردیا اور وہ بکریاں اسی کو ہبہ کردیں۔ (دِرمنشور)
’’لاک ڈاؤن‘‘ ہمارے لئے ’’ایامِ خالیہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب یہ ہر شخص پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اِسے کسطرح وصول کرتا ہے؟ کوئی دوسرا شخص کسی کے متعلق کیا کہے۔
محمد ضمیر رشیدی
وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر)

Comments are closed.