پیارے طلباء عزیز، مدارس اسلامیہ، ہند

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
ملک ہندوستان اور خاص کر دیوبند و قرب کے مدارس میں زیر تعلیم طلباء عزیز اور وہ سب حضرات جنہیں ان کے متعلق مدارس کے طلباء اگر رابطہ کرتے ہیں یا مشورہ مانگتے ہیں تو یہ باتیں ذہن میں رکھیں:
1. تمام بڑے مدارس اپنے اپنے اعتبار سے ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں. اداروں کی طرف سے آفیشل اجازت اور ذمہ داروں کے مشورے کے بغیر طلباء عزیز اپنے سفر کے بارے میں کوئی بھی قدم بالکل نہ اٹھائیں.
2. پیدل تو دور کی بات یو پی سے باہر دور دراز کے طلباء بس کے ذریعہ سفر سے بھی گریز کریں الا یہ کہ ناگزیر ہو.
3. دونوں دارالعلوم یا بڑے مدارس جیسے مظاہر یا مراد آباد و غیرہ کے دارالاقامہ میں جو طلباء ہیں ان کو زیادہ پریشان ہونا بے جا ہے. ان اداروں میں ضرورت زندگی کے سامان موجود ہے، طلباء دوسررو کو دیکھ کر اپنے اوپر غیر ضروری پریشانی نہ لائیں.
4. کچھ طلباء نما لوگ دیوبند میں باہر رہتے ہیں یا کچھ چھوٹے ادارے کے طلباء جن کو ان کے ادارے والے ممکن ہے معقول توجہ نہیں دے رہے ہیں یا نہیں دے پارہے ہیں، وہ یقیناً پریشانی میں ہوں گے، ایسے طلبہ بھی پہلے اپنے اپنے صوبوں سے گروپ رجیشٹریشن کیذریعہ ای پاس حاصل کریں، پھر اس کو سہارن پور یا متعلقہ ایس پی یا جو بھی نوڈل آفیسر ہے اس کو درخواست کی شکل میں دیں اور با قاعدہ دونوں صوبوں سے اجازت ملنے کے بعد ہی سفر کریں. واضح رہے کہ بس کے ذریعہ یا سڑک کےراستے سفر کی صورت میں جس جگہ جانا ہے وہاں کے نوڈل آفیسر کی طرف سے جہاں سے جانا ہے وہاں کے نوڈل آفیسر کے نام با قاعدہ الگ سے ایک خط کی ضرورت ہو گی جو ای پاس کے علاوہ ہو گا.
5. یہ بات ذہن میں رہے کہ پیدل بغیر اجازت کے جو لوگ اپنی زندگیوں کے پرواہ کیے بغیر سیکڑوں میل سفر کے لیے نکل پڑے ہیں وہ مزدور، مجبور، غریب اور لاچار لوگ ہیں ان کے اوپر قیاس کر کے پڑھے لکھے لوگوں کا کوئی بھی غیر قانونی عمل نہ معقول ہوگا اور نہ مناسب ہوگا، جس سے خود پریشان ہوں گے ساتھ میں اپنے والدین اور اساتذہ کے لئے مزید مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں.
6. سفر کے لیے ہر علاقہ یکساں مامون نہیں ہے. آپ حضرات متعدد ویڈیو کلپس میں دیکھے ہوں گے کہ پولیس کے ساتھ اور پولیس کے علاوہ بھی کچھ نوجوان عام کپڑوں میں راہ چلتے لوگوں کے ساتھ مار پیٹ اور نہایت بری طرح سے پیش آرہے ہیں. مدارس کے طلباء یا ظاہری مسلمان دیکھنے والے لوگوں کے ساتھ یہ گینگ مزید بری طرح سے پیش آسکتا ہے. اس لئے جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینا وقت کا تقاضا اور دانشمندی ہو گی.
7. مہاراشٹر کے جس مدرسہ سے ٹرین کے ذریعہ طلباء کو بہار بھیجا گیا تھا، میری معلومات کے اعتبار سے، اس مدرسہ نے ایک ٹرین کے لئے چودہ لاکھ روپیہ کرایہ کے طور پر پیشگی جمع کیا ہے. جبکہ یہ پیسہ سرکار کو دینا تھا. ان سے ریلوے کی طرف سے کہا گیا کہ فی الحال آپ بھر دیں پھر جب سرکار سے ہمیں رقم مل جائیگی آپ کو واپس کر دیا جائے گا. اب یہ تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ رقم کب اور کیسے ملیں گے. بہار پہونچنے پر بھی سرکاری طور پر ان طلباء کے ساتھ بہت مناسب رویہ نہیں اپنا یا گیا. اسی طرح ممبئی سے مزدوروں کو لیکر جو ٹرین دربھنگہ گئی تھی اس کے ویڈیوز تو سب نے دیکھے ہی ہوں گے، لوگ کس طرح بھوکے پیاسے اور پریشان تھے. کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا. ممبئی سے جب ٹرین میں سوار ہوئےتو کسی کو کرونا بیماری نہیں تھی لیکن وہاں پہونچنے پر بعض لوگوں کو بیمار قرار دیا گیا.
8. یہ وقت اور حالات بالکل غیر معمولی ہے جس میں صبر، تحمل اور رجوع الی اللہ ہی سب سے اہم کام ہے. طلباء عزیز اپنے اساتذہ، والدین اور بڑوں کے مشورے کے مطابق عمل کریں. جہاں ممکن ہو دوسررو کو تعاون کریں اور بدلے حالات کے اعتبار سے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار بھی کریں.
اپنے دعاؤں میں اس گناہ گار کو بھی یاد فرمائے.
والسلام
محمد برہان الدین قاسمی
تاریخ: 18 مئی/ 2020
Comments are closed.