مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

تحریر: ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج، بارہ بنکی
اردو زبان برصغیر کی تہذیبی شناخت، ادبی روایت اور تاریخی ورثے کی امین ہے۔ یہ زبان صدیوں سے ہندستان کے دل کی دھڑکن رہی ہے، جس نے مختلف مذہبی، لسانی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ اردو نے صرف شاعری اور ادب ہی نہیں، بلکہ عوامی رابطے، مذہبی اصلاح، اور قومی یکجہتی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
مگر آج اردو زبان اپنی بقا کے چیلنجز سے دوچار ہے۔ ایک طرف دنیا گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل انقلاب کی جانب بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف اردو اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنائی جا رہی ہے۔ اور سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کے تحفظ اور فروغ کے لیے جو جذبہ ہونا چاہیے، وہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زبان کے چاہنے والے تو بہت ہیں، مگر حقیقی مخلص کم ہی نظر آتے ہیں۔
یہ ایک گہرے کرب اور حقیقت کا اظہار ہے، جو ہر اردو دوست کے دل کو چھو جاتا ہے۔ اردو کی زبوں حالی محض وقت کا تقاضا نہیں بلکہ ہماری اجتماعی غفلت، تعلیمی پالیسیوں، سماجی بے حسی، اور فکری بے راہ روی کا نتیجہ ہے۔
آج کا تعلیمی نظام انگریزی کو ترقی کی کنجی سمجھتا ہے، اور اردو کو ایک “جذباتی لگاؤ” تک محدود کر دیا گیا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اردو سکھانے کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اسکولوں میں اردو کو صرف ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، اور اس کا نصاب بھی فرسودہ اور غیر مؤثر ہے۔ نتیجتاً نئی نسل نہ اردو لکھ سکتی ہے، نہ روانی سے پڑھ سکتی ہے۔
حکومتی سطح پر بھی اردو کو صرف رسمی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے، سرکاری نوٹسز، دفتری کام اور تعلیمی رپورٹس سب انگریزی میں ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا، وہاں بھی عملدرآمد محض فائلوں تک محدود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اردو صرف "یومِ اردو” کی تقریبات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
اردو صحافت، جو کبھی عوام کی آواز تھی، آج شدید مالی بحران سے دوچار ہے۔ وہ اخبارات جو کبھی بارہ صفحات پر نکلا کرتے تھے، آج چار صفحات بھی بمشکل شائع ہو پاتے ہیں۔ اشتہارات کا رخ ہندی اور انگریزی میڈیا کی طرف ہے۔ اردو رسائل، ماہنامے، ہفت روزہ جرائد ۔ سب بند ہوتے جا رہے ہیں، یا محض رسمی طور پر شائع ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اردو کو ایک نئی زندگی ضرور دی ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، اور ویب سائٹس پر نوجوان طبقہ اردو میں مواد تیار کر رہا ہے۔ بلاگز، وڈیوز، اور پوسٹس کے ذریعے اردو کو نئی نسل کے قریب لایا جا رہا ہے، مگر اس سرگرمی میں ایک واضح عدم تنظیم اور غیر رسمی پن دکھائی دیتا ہے۔ اگر اسے ادارہ جاتی سطح پر منظم نہ کیا گیا تو یہ کوششیں وقتی ثابت ہوں گی۔
ہم نے اپنی زبان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ "اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے”، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سب سے زیادہ فکرمند اسی قوم کے لوگ کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ جب اردو پر حملہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کی جانب سے آواز بلند کیوں ہوتی ہے؟ اگر واقعی یہ زبان کسی ایک قوم کی نہیں، تو اس کی حفاظت بھی سب کی اجتماعی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
یہ رویہ اسی طرح ہے جیسے گھر میں والدین، بہن بھائی، چچا، چاچی ہوں ۔ ہم ان کی پرورش اور تعلیم کے اخراجات ہر حال میں برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے قرابت دار ہوتے ہیں، لیکن دور کے رشتہ داروں کی مدد نہیں کر پاتے۔ اسی طرح اردو بھی ہمارے روزمرہ، ہماری شناخت کا حصہ ہے، لیکن ہم نے اسے اپنے گھر، اسکول، اور اداروں سے دور کر دیا ہے۔ کیا یہ رویہ انصاف پر مبنی ہے؟
دوسری جانب اردو کے کئی سچے خادم آج بھی موجود ہیں، مگر انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان کی خدمات کو سراہنے کے بجائے ان کے اخلاص پر شک کیا جاتا ہے، یا گروہی سیاست میں ان کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں آج بھی ایسے بزرگ اور نوجوان موجود ہیں جو بلا معاوضہ اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن انہیں پلیٹ فارم نہیں دیا جاتا۔ اگر واقعی ہمیں اردو زبان کی خدمت اور اس کی بقا کی جدوجہد کرنی ہے تو سب سے پہلے ہمیں تعصب، حسد، اور گروہ بندی جیسے زہر کو ترک کرنا ہوگا۔
ادبی محافل جو اردو کی روح ہوا کرتی تھیں، وہ اب یا تو ختم ہو چکی ہیں یا رسمی تقریب میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پہلے جو مشاعرے اردو کے وقار کا نشان ہوتے تھے، اب وہ تجارتی یا سماجی تقریب کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اردو کتابوں کے شائع ہونے کی شرح گرتی جا رہی ہے، اور مطالعہ کا ذوق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے میں اردو کے تحفظ کے لیے چند مؤثر اور عملی اقدامات فوری طور پر ضروری ہیں۔
اردو کو بنیادی نصاب میں شامل کیا جائے، اور اعلیٰ تعلیم میں بھی اسے تحقیقی زبان کے طور پر اپنایا جائے۔
اردو زبان کو مکمل طور پر سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے اور دفتری امور اردو میں انجام دیے جائیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں اردو کے لیے موبائل ایپس، ویب سائٹس، اور آن لائن لائبریریز قائم کی جائیں تاکہ نئی نسل اردو سے جوڑی رہے۔
مشاعروں، سیمینارز، اور اردو کانفرنسز کے ذریعے نئی نسل کو اردو کے قریب لایا جائے۔
اردو اخبارات اور رسائل کی سرکاری سطح پر مدد کی جائے، اور ہر اردو بولنے والے گھر میں ایک اردو اخبار کی خریداری کو فروغ دیا جائے۔
یاد رکھیں، زبانیں نفرت سے نہیں، محبت، تعاون اور عملی اقدام سے زندہ رہتی ہیں۔
ہمیں اب طے کرنا ہوگا کہ ہم اردو سے صرف جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں یا واقعی اس کی بقا کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم صرف تقریروں، نعروں اور قراردادوں تک محدود رہیں گے یا عملی میدان میں قدم رکھیں گے؟ اردو ہمارے در و دیوار، ہماری تاریخ، ہمارے جذبات، ہمارے خواب، اور ہماری شناخت کی زبان ہے۔ یہ صرف ایک زبان نہیں، ہماری تہذیبی بقا کی آخری لکیر ہے۔
اگر ہم واقعی مخلص ہیں تو ہمیں اپنے گھروں، اسکولوں، کالجوں، بازاروں، اور دفاتر میں اردو کو اس کا واجب مقام دینا ہوگا۔ ہمیں ہر روز یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا کہ ہم نے آج اردو کے لیے کیا کیا؟ اردو کو بچانے کے لیے کسی تحریک یا مارچ کی نہیں، بلکہ ہر فرد کے ضمیر کی بیداری کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ صرف قلم کی نہیں، سوچ کی ہے، رویوں کی ہے، ترجیحات کی ہے۔
یاد رکھیے، زبانیں نفرت سے نہیں، محبت سے زندہ رہتی ہیں۔ اگر ہم نے آج اردو کو نہیں بچایا، تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف ایک زبان کے قاتل کے طور پر یاد رکھیں گی۔ اردو کی حفاظت اب کسی ادارے، کسی حکومت، یا کسی لیڈر کی نہیں، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم اپنی زبان کے لیے صرف تالی نہ بجائیں، بلکہ آگے بڑھ کر کمان اپنے ہاتھوں میں لے لیں… ورنہ کل نہ اردو باقی رہے گی، نہ ہم پہچانے جائیں گے۔
Comments are closed.