کوروناوائرس کے ذمہ دار۔۔۔۔۔۔پناہ گزین یاسیاح؟

سمیع اللہ ملک
فضائی سفر،سمندرمیں تفریحی سفر،مخلوط رہائش،مل بیٹھنے کے مقامات،سنیماہال،اوپن ایئرتھیٹر،مارکیٹس،کھیل کے میدان، تماشائیوں کے بیٹھنے کااہتمام ،کیایہ سب کچھ خواب وخیال ہوجائے گا؟جب سے کوروناوائرس نے دہشت پھیلائی ہے،کروڑوں بلکہ اربوں ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات سراٹھارہے ہیں۔خدشات ہیں کہ محض پیدانہیں ہورہے بلکہ خطرناک رفتارسے پنپ بھی رہے ہیں.کوروناوائرس کے اثرات غیرمعمولی حدتک دوررس ہیں۔یہ اثرات نادیدہ ہیں جوتیزی سے زورپکڑرہے ہیں۔یہ وائرس انتہائی مضبوط ہے،تیزی سے متحرک ہوتاہے،علامات کے بغیرمتاثر کرتاہے اورپھرجب تک تدارک کاسوچیے اورکچھ کیجیے تب تک یہ جڑپکڑچکاہوتاہے۔
یہ وائرس کسی کوبھی لاحق ہوسکتاہے،اس لیے مشکوک یامشتبہ مریضوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔اب تک اس وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اچھی خاصی ہیں۔یہ پوری دنیاکو مستقل نوعیت کے دردِ سرسے دوچارکرسکتاہے۔اس کے نتیجے میں پیداہونے والی بدحواسی بہت زیادہ ہے۔ایک دنیاہے کہ پریشانی کے دائرے سے نکل نہیں پارہی۔ایسالگتاہے کہ بدترین فلو کے مقابلے میں کوروناوائرس سے ہونے والی ہلاکتیں بیس سے تیس گناہوں گی۔ایک زمانے سے ہم مصنوعی ذہانت کاشورسنتے آئے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ اس معاملے میں شورزیادہ تھااورکام کی بات بہت کم۔ کوروناوائرس کہاں سے ابھرے گا،کہاں پروان چڑھے گااورکس طورپھیلے گا،اس حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنے میں مصنوعی ذہانت مکمل طورپرناکام رہی ہے۔
دنیابھرمیں لوگ اب بایوٹیک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اس شعبے نے اب تک توایساکچھ خاص نہیں کیا،جس پرغیرمعمولی حدتک فخرکیاجاسکے۔اب بڑاموقع موجودہے۔بایوٹیک کے ماہرین کوکوروناوائرس اورایسی ہی دیگربیماریوں اوروباوں کی روک تھام کے حوالے سے کچھ کرکے دکھاناہے۔ان کے کاندھوں پربھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔اس چیلنج سے بطریقِ احسن نمٹ پانے کی صورت میں معاملات اس کے حق میں ہوسکیں گے۔بایوٹیک کے شعبے کوسب سے پہلے توکوروناوائرس کی موثر،قابل اعتماد ویکسین تیارکرنی ہے۔اس مرحلے سے گزرنے کی صورت ہی میں اس کے مزیدپنپنے کی راہ ہموارہوگی۔
ابھی کچھ کہانہیں جاسکتاکہ کوروناوائرس کانقطہ عروج کیاہوگا۔بہت سے معاملات اب تک سمجھ میں نہیں آسکے ہیں۔ایسالگتاہے کہ عمومیت تبدیل ہونے والی ہے یعنی نیانارمل سامنے آنے والاہے۔دنیاکواب کوروناوائرس سے پہلے اوربعدکی کہاجائے گا۔ مستقبل میں ایسابہت کچھ ہوگا،جوپہلے کبھی نہیں تھااورجوکچھ اس وقت موجودہے اس کابڑاحصہ جاتا رہے گا۔زیادہ پرامیدہونے کی ضرورت نہیں۔ہمیں کچھ مدت کے بعدپھرنئے سوالوں کاسامناہوسکتاہے۔پوری دنیامیں یہ سوال اربوں ذہنوں میں کلبلارہاہے کہ نیا نارمل کیاہوگا اورہمیں اس کی کیاقیمت اداکرناپڑے گی اورسب سے بڑھ کریہ کہ جوکچھ ہمارے لیے نیانارمل ہوگا،اس کی شکل کیا ہوگی۔
سیاحت دنیابھرمیں بڑے معاشی شعبوں میں سے ہے۔کوروناوائرس کی وبانے سیاحت کے شعبے کوخطرناک حدتک متاثرکیاہے۔ ایسالگتاہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعدسمندری جہازپر دنیاکی سیراب ماضی کی یادبن کررہ جائے گی۔ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایئر لائنزکاکیاہوگا۔اکیسویں صدی میں عالمگیریت کی سب سے بڑی لائف لائن ایئرلائنزہیں۔فضائی سفر ہی نے کرہ ارض کوگاؤں کی سی شکل دے دی ہے،فاصلے یوں مٹادیے ہیں کہ بہت سی ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔فضائی سفرمیں لوگ کئی گھنٹوں تک ایک دوسرے سے جڑکربلکہ ایک دوسرے میں ٹھنس کرسفرکرتے ہیں۔کروزشپ میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ بڑی تعدادمیں لوگ ایک دوسرے سے دوررہتے ہوئے سفرکریں۔مشکل یہ ہے کہ کوروناوائرس کی علامات ہرمریض میں پہلے مرحلے میں ظاہرنہیں ہوتیں۔کوئی ایک مسافربھی بہت سوں کواس وائرس کے دام میں لانے کاباعث بن سکتاہے۔فروری کے آخر میں آسٹریااوراٹلی کے تفریحی مقامات پرایساہی ہواتھا۔اسکیئنگ سیزن شروع ہونے پربڑی تعدادمیں سیاح آئے اورکوروناوائرس کے تباہ کن پھیلاؤکاسبب بن گئے۔ 2003 میں چین سے سارس وائرس ابھراتھا۔ تب ایک ارب65کروڑ افرادنے فضائی سفرکیاتھا۔2018میں فضائی سفرکرنے والوں کی تعداد4ارب20کروڑتک تھی۔اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کورونایا کوئی دوسراوائرس فضائی سفرکرنے والوں کے ذریعے کتنی تیزی سے اورکتنے بڑے پیمانے پرپھیل سکتاہے۔
1۔کیابڑے اجتماعات اوراجتماعات والے کاروبارختم ہونے کوہیں؟شراب خانے،ریسٹورنٹ،کیفے،ڈسکوز،سنیماگھرماضی کاقصہ ہوکررہ جائیں گے؟
2۔کیاگھربیٹھے علم حاصل کرنے کارجحان اِتنی تیزی سے پروان چڑھے گاکہ اسکول،کالج اوریونیورسٹیوں کے ڈھانچے تبدیل ہوجائیں گے؟کیااینٹ اورسیمنٹ سے بنے کیمپس خواب وخیال ہوکررہ جائیں گے؟
3۔خوراک اورپھل کس طورمحفوظ بنائے جاسکیں گے؟کھانے پینے کی اشیااورپھل یاپھلوں کے جوس سے بھی توکوئی بھی وائرس تیزی سے پھیل سکتاہے۔اس وقت بھی اشیائے خورد و نوش اورپھل کس حدتک محفوظ ہیں؟
4۔کیااب غیرقانونی تارکین وطن کاسلسلہ رک جائے گا؟
5۔اس وقت دنیاہنگامی کیفیت سے دوچارہے۔کوروناوائرس نے حقیقی عالمگیروباکی صورت اختیارکی ہے اوراس کے نتیجے میں شدیدبدحواسی کی کیفیت پیداہوئی ہے۔ایسے میں دہشتگردی کاخطرہ بڑھ گیاہے؟اوراگردہشتگردی ہوئی توریسپانس کس حدتک جاندارہوگا؟
6۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران دہشتگردی کی صورت میں ہلاکتیں کم ہوں گی کیونکہ بھیڑبھاڑوالے مقامات ناپید سے ہیں مگراسپتال؟وہاں توبھیڑہی بھیڑہے۔
کوروناوائرس کی کامیاب اوردیرپااثرات کی حامل ویکسین کاانتظارہے تاہم ایسی کوئی بھی ویکسین رواں سال کے آخرتک تو سامنے آتی دکھائی نہیں دے رہی اوراگرویکسین بنابھی لی جائے تواربوں خوراکیں تیارکرناپڑیں گی۔سوال یہ ہے کہ فارماانڈسٹری کتنوں کاعلاج کرسکے گی؟کوروناوائرس کے مریضوں میں سے5تا10فیصدکووینٹی لیٹرزکی ضرورت پڑے گی۔اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں وینٹی لیٹرزکی فراہمی کس حدتک ممکن بنائی جاسکے گی۔
اس وقت یورپ عجیب کیفیت سے دوچارہے۔کوروناوائرس کے بطن سے پیداہونے والابحران شدت اختیارکرتاجارہاہے اورساتھ ہی ساتھ کامیابی کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں ۔منصوبہ بندی کے ساتھ زندگی بسرکرنے والوں میں جرمن بہت نمایاں ہیں۔یورپ کی حدتک سوچیے توجنگ کادوراب رہانہیں۔اس کااسلحہ خانہ کمزورپڑتاجارہاہے۔یورپ کے بیشترممالک کے ٹینک،ہیلی کاپٹراور آبدوزیں مطلوب معیار کے مطابق نہیں۔آزمائش کی کسوٹی پران میں بہت سی اشیابہت حدتک ناکام رہی ہیں۔
جرمنی میں بائیں بازواوروسط کی لڑائی جاری ہے۔معاملات میں بگاڑبڑھتاہی جارہاہے۔اٹلی میں فیس ماسک کی قلت سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں مگرجرمنی میں یہ قلت کیوں ہے ؟ معمرافرادکی بڑھتی ہوئی تعدادوالے معاشروں میں نرسوں اورلیب ٹیکنیشنز کی کمی توسمجھ میں آتی ہے مگرفیس ماسک کی قلت؟
کوروناوائرس کے نمودارہونے سے پہلے کیفیت یہ تھی کہ پلاسٹک سے ہماراجی بھرگیاتھا۔اس سے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی جارہی تھی۔کوروناوائرس کی وبامیں پلاسٹک اہم ڈھال بن کرسامنے آیاہے۔دنیاایک بارپھرپلاسٹک پرمتوجہ ہے اور پلاسٹک کی عظیم واپسی کی دعائیں مانگی جارہی ہیں!
کوروناکی وبانے جوچندباتیں سکھائی اورسجھائی ہیں ان میں دوبہت اہم ہیں:
1۔غیرضروری اشیاسے جان چھڑانے کازمانہ آگیاہے۔معاشیات میں پڑھائی جانے والی چیزوں میں قانونِ تقلیلِ افادہ مختتم بہت اہم ہے۔یعنی کسی بھی چیزکی اتنی ہی قیمت اداکی جائے،جس قدراس سے تسکین مل سکتی ہو۔کوروناوائرس کے ہاتھوں عالمگیرکساد بازاری بالکل یقینی ہے۔یہ شدیدتربھی ہوسکتی ہے۔عالمی معیشت معاملات کوبحال توکرہی لے گی مگر کس حدتک؟اس کامدارہم پر ہے۔
2۔کوروناوائرس کی مہربانی سے لوگوں کوگھروں میں رہنے کاموقع ملاہے۔ہوسکتاہے کہ معیشتوں کاڈھانچاتبدیل ہوجائے اورانسان کوکم محنت کے ساتھ زندگی بسرکرنے کاموقع ملے۔اب زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔زیادہ محنت اس لیے کی جاتی ہے بعدمیں فراغت میسرہو۔اگرفراغت میسررہے توزیادہ کام کرنے کی کیاضرورت ہے؟
حرفِ آخریہ ہے کہ کورونا کی وباپناہ گزینوں سے نہیں،سیاحوں سے پھیلی ہے۔دنیاکے تقریباتمام مہاجرکیمپ کروناوباسے محفوظ ہیں لیکن اس وقت یورپی یونین کیلئے کروناسب سے بڑاامتحان بن گیاہے۔پچھلے پانچ ہفتوں کے بحران نے یورپی یونین کے سیاسی ،معاشی اورمعاشرتی تانے بانے کوادھیڑکررکھ دیاہے۔یورپی یونین ابھی تک2015 کے تارکین وطن کے سیلاب کے بعدعوامی مقبولیت اورقوم پرستی کی لہروں سے نمٹنے کامقابلہ کررہاتھاکہ کرونانے اسے دہراجھٹکادے ڈالاہے۔برطانیہ کایوروپی یونین سے دستبرداری،اور چانسلر انجیلا مرکل کی کمزوری کے پیچھے جرمنی کاسیاسی ٹکراؤکی دراڑیں مزیدگہری ہوگئی ہیں۔یورپی یونین نے شام کے مہاجرین کویورپ میں داخلے سے روکنے کیلئے ترکی کو6بلین یوروکاپیکج دینے کالالچ بھی دیاتھاجسے ترکی نے مستردکردیاتھا۔ترکی نے پولیس،کوسٹ گارڈاورسرحدی سیکیورٹی کے عہدیداروں کویہ حکم دیاکہ وہ پناہ گزینوں کویورپی یونین میں جانے میں رکاوٹ نہ بنے جس کے جواب میں بلغاریہ نے ترکی کی سرحدپرایک ہزاراضافی فوج بھیج کران کوروکنے کی کوشش کی اور یونانی پولیس نے توتارکین وطن پر ایک کراسنگ پردھواں داردستی بموں سے حملہ کرکے ان کوواپس ترکی کی طرف دھکیلنے کی بھی کوشش کی۔
ادھرٹرمپ نے توباقاعدہ چین کوکروناوباپھیلانے کاذمہ دارقراردینے کی کوشش بھی کی ہے جس کے جواب میں چین نے اسے باہم سفارتکاری کونقصان پہنچانے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ وقت تناؤبڑھانے کانہیں بلکہ مل کرساری دنیاکواس بحران سے نجات دلانے کاہے۔چونکہ دنیا اس وقت کروناجیسی مہلک وبائی بیماری سے ہونے والی انسانی اور معاشی تباہی سے دوچار ہے لیکن چین اورامریکاکے درمیان سردجنگ میں پیداہونے والا تناؤبھی وبائی امراض سے لڑنے کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔
اس کے چندگھنٹے کے بعد ٹیلیویژن انٹرویوکے دوران،امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیونے کہاکہ’’ اس کے بہت سارے ثبوت موجودہیں کہ نئی کوروناوائرس کاآغازووہان لیبارٹری سے ہواہے لیکن اس نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔سائنس دانوں،صحت کے عہدیداروں اورامریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے پہلے کہاہے کہCOVID-19انسان ساختہ یاجینیاتی طور پرتبدیل شدہ نہیں تھابلکہ ’’فطری طورپرقدرتی تھا۔‘‘
ادھر30اپریل2020 کوامریکی انٹیلی جنس نے فوری طورپرایک مختصرپریس ریلیزجاری کی ہے کہ’’پوری انٹیلی جنس کمیونٹی امریکی پالیسی سازوں اورCOVID-19وائرس کا جواب دینے والے افرادکومستقل طورپرچین میں پیدا ہونے والی تنقیدی مددفراہم کرتی رہی ہے۔انٹیلی جنس کمیونٹی بھی وسیع سائنسی اتفاق سے اتفاق کرتی ہے کہ COVID-19 وائرس کوانسان ساختہ یاجینیاتی طورپر تبدیل نہیں کیاگیاتھا۔
جیساکہ ہم اس وقت شدیدبحرانوں کی زدمیں ہیں،اس کمیونٹی کے ماہرین امریکاکی قومی سلامتی کیلئے ضروری امورپروسائل میں اضافے اورتنقیدی ذہانت پیداکرکے جواب دیتے ہیں۔آئی سی ابھرتی ہوئی معلومات اورانٹیلی جنس کی سختی سے جانچ پڑتال کرے گا تاکہ یہ معلوم کیاجاسکے کہ یہ وبامتاثرہ جانوروں کے ساتھ رابطے کے ذریعے شروع ہوئی ہے یااگر وہ ووہان کی لیبارٹری میں ہونے والے کسی حادثے کا نتیجہ میں پھیلی ہے‘‘۔
ڈبلیو ایچ اوکی ترجمان فدیلہ چائب نے کہاکہ’’تمام دستیاب شواہدسے پتہ چلتاہے کہ وائرس جانوروں میں پایاجاتاہے لیکن اسے لیب میں یاکسی اورجگہ جوڑ توڑ یاتعمیرنہیں کیاگیاہے ۔ ایک امریکی محقق جس نے ووہان وائرولوجی لیب کے ساتھ کام کیا وہ 4 وجوہات بتاتا ہے کہ کوروناوائرس لیک ہونے کا انتہائی امکان نہیں ہے۔
(1)ایک منجمد تھیوری سے پتہ چلتاہے کہ کوروناوائرس چین کے ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی کی ایک لیب سے لیک ہوسکتا تھا ، لیکن اس کاکوئی ثبوت نہیں ہے۔
(2) ایک امریکی محقق جس نے ووہان لیب میں سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، نے بزنس انسائیڈر کو سمجھایا کہ حادثاتی لیب کا رساؤ کاکیوں انتہائی امکان نہیں ہے۔
(3) اعلیٰ سیکیورٹی لیب کا کہنا ہے کہ ناول کروناوائرس کے جینوم کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا ہے اورلیب میں تمام سخت عالمی حفاظتی اقدامات کی پیروی کی جاتی ہے۔
(4) اس سے کہیں زیادہ امکان ہے کہ یہ وائرس قدرتی طورپرچمگادڑوں سے پھیلاہو،جہاں کسی دوسرے جانورنے اسے کھالیاہواوراس سے کوروناوائرس بن گیاہواوراس وائرس نے کسی انسان پرحملہ کردیاہو۔
نیویارک ٹائمزکے مطابق ٹرمپ کے قومی سلامتی کے نائب مشیرمیتھیو پوٹنجر نے جنوری میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا کہ وہ کروناوائرس کے ووہان لیب سے لیک ہونے کے خیال پرغورکریں لیکن سی آئی اے افسران کواب تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔گویاٹرمپ انتظامیہ کے پاس چین کوموردالزام ٹھہرانے کاکوی واضح ثبوت نہیں اورامریکااوراس کے تمام اتحادی اس بات سے باخبرہیں کہ یہ معاملہ کسی تیسری دنیاکے پسماندہ ملک یاکسی مسلمان ملک کے ساتھ نہیں جیساکہ عراق اورافغانستان کے ساتھ کیاگیا بلکہ چین کے ساتھ ہے جو نہ صرف ایک ایٹمی قوت کے علاوہ ایک مضبوط معاشی ملک ہے اورامریکا1.7ٹریلین ڈالرکا صرف چین کامقروض ہے۔ یہ 6.7ٹریلین ڈالرکا16 ٹریژری بل،نوٹ اوربیرونی ممالک کے بانڈزکی شکل میں خودامریکی حکومت کے پاس ہے۔

Comments are closed.