حدیثِ رمضان المبارک

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
(چوبیسواں روزہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ ، اِذَا دَخَلَ العَشرُ اَحیَا اللّیْل، وَایْقَظَ اَہْلَہُ ، وَشَدَّ الْمِئْزَرَ۔یعنی جب (رمضان کا آخری) عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدارکرتے اور (عباد ت کے لئے ) کمر کس لیتے۔ (بخاری و مسلم)
ویسے تو پورا رمضان ہی نیکیوں کا موسم بہار اور عبادت و طاعت کا خصوصی مہینہ ہے۔ لیکن اس کا آخری عشرہ تو اس موسم عبادت کا نقطہ عروج ہے۔ اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ان دس دنوں اور راتوں میں تو بالخصوص خوب محنت اور جدو جہد کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی اور اسی طرح لیلۃ اقدر کی فضیلت حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔اسی لئے ان دس دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کرنے کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے، اس پر بھی عمل کرنا چاہئے۔اور قرآ ن کی تلاوت کا خاص اہتمام کرناچاہئے اس کی بڑی اہمیت آئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعْمُہَا طَیِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِی لَا یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَۃِ لَا رِیحَ لَہَا وَطَعْمُہَا حُلْوٌ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الرَّیْحَانَۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی لَا یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَمَثَلِ الْحَنْظَلَۃِ لَیْسَ لَہَا رِیحٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ.(مسلم)
قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بُونہیں مگر مزا میٹھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کے مانند ہے کہ اس کی بُو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہے۔ اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن (کوڑ تنبہ) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے: الْمَاہِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ َالَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہُ أَجْرَان۔
قرآن کا مشاق (اس سے حافظ مراد ہو سکتا ہے جو کہ عامل ہو) ان بزرگ فرشتوں کیساتھ ہے جو لوحِ محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور وہ اس کے لئے مشقت کا باعث ہے تو اس کیلئے دو گنا ثواب ہے۔ (مسلم)
ایک جگہ آپ نے فرمایا: لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَقُومُ بِہِ آنَاء َ اللَّیْلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ وَرَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَاء َ اللَّیْلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ.(مسلم)
دومَردوں کے سوا اور کسی پر رشک جائز نہیں ہے۔ ایک تو وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن عنایت کیاہو اور وہ اس دن رات پڑھتا ہو (اور اس پر عمل کرتا ہو) دوسرے وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہو۔
ان تمام احادیث سے قرآن کریم کی فضیلت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔٭٭٭
Comments are closed.