Baseerat Online News Portal

جب بھی ذکرِ وفا ہوگا ہمارا نام ائے گا

نوراللہ نور
ہم جس چمن میں نشو ونما پا رہے ہیں اس میں ہمارا وجود ازل سے ہی اغیار کے آنکھوں کا کانٹا رہا ہے ؛ تاریخ کے اوراق ہماری جاں نثاری سے پر ہیں ؛ ہم نے گلستان میں بسنے والے ہر فرد فرید کا احترام کیا اس کے جان و مال کا پاس و لحاظ رکھا ہر ایک کو اپنے دل میں جگہ دی ہے لیکن اس کے بر عکس ازل سے ہی ہمارے ساتھ ناروا سلوک ؛ بدعہدی کا الزام سر آیا ہے :

ہم نے انگریزوں کو اپنے دامن عنایت میں جگہ دی اور ان کے رزق وسائل فراہم کیے لیکن شیطینت ذہن کے مالک ہماری وفاؤں کا صلہ ایک سیاہ تاریخ سے دیا غرض ہم وفا کی راہ چلتے رہے اور لوگوں نے ہمارے لیے جفا کی خاردار جھاڑیاں ہی تحفہ میں دی

بڑی جاں سپاری اور اور قربانیوں کے بعد نیء دنیا میں ملی تھی پر امید تھے کہ برادران وطن کے ساتھ ایک خوشگوار اور آزاد فضا میں سکون کے پل جییں گے لیکن بد قسمتی کہ ہم زنجیروں اور سلاخوں کی اذیت سے تو نجات پاگیے لیکن ذہنی غلامی ابھی بھی ہمارے دامن گیر تھی
آزاد ہندوستان میں ابھی کچھ سکون کی سانس لی تھی کہ کچھ مفاد پرست لوگوں نے نفرت کی بیج بو دی جو آج تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے ہر طرف نفرت کے یہ لگایے ہوئے درخت یہاں کی فضا میں آلایشںں ؛ رنجشیں عداوت ہی بکھیرا ہے برادران وطن کے ساتھ ہم نے سنہرے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جو کبھی سچ نہ ہو سکا
اغیار کی طرح ہمارے اپنے بھی ہم سے بھی محبت و الفت کے بجائے دست و گریباں ہوگیے اور میرا آشیاں جلا کر مسکرا تے رہے پھر بھی ہم‌ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا غیروں سے زیادہ ان سے محبت کی ہماری مسجد شہید کر دیے گئے ہم نے خوشی بخوشی عدلیہ کے حکم مانتے ہوئے عدلیہ کی لاج رکھ لی ہمیں گجرات میں جلایا گیا ہم صبر و شکر کے ساتھ امن و امان کی دعائیں کی
اب بھی ہماری آزمائش کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ ہنوز جاری ہے ہمارے وجود پر انگشت نمائی کی گئی پھر بھی ہم اس کے لیے دعا کی
ہم‌ اپنے زخموں کا شکوہ نہ کرکے ایٹمی ہتھیاروں سے ارض وطن کو قوت بخشی ؛ تاج کی خوبصورتی ؛ قطب مینار کی رفعت و بلندی ؛ ہمارے بلند عزائم کی تصویر ہے

غرض کہ اس چمن سے ہمارا والہانہ محبت و عقیدت رہی ہے اس کی محبت ہمارے رگو میں سرایت کر چکی ہے ہے
ہم ماضی میں بھی اس کے معمار تھے اور مستقبل بھی ہم عمدہ بنادیں گے آج بھی جب ہر طرف جاں کنی کا عالم ہے ہر طرف اضطراب و پریشانی کی کیفیت کا عالم ایسی نازک وقت میں بھی ہماری وطن پرستی میں کمی نہیں آئی ہم نے ( عظیم پریم جی) کی صورت میں اس مہماماری سے جنگ لڑنے کے لئے وافر رقم صرف کی ہے لوک ڈاؤن کی وجہ سے بھوکوں کی مدد میں یہ دارڑھی ٹوپی والے ہے نظر آتے ہیں انہوں نے مندر و مسجد کے امتیاز کے بغیر سب کو کھانا پہنچایا ہے
اور آج جب مزدوروں کو سرکار نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے تو ان تک بھی یہ جو آپ کے آنکھوں کے تنکے ہیں نہ انہیں نے ان مدد کی ہے سوشل میڈیا پر بہت ساری ویڈیو ہمارے نیک ارادوں کا پتہ دیتی ہے
کہیں پر کوئی ننگے پاؤں مزدوروں کے لیے چپل جوتے کا انتظام کر رہا ہے تو کہیں پر راہ پر پریشان حال مسافروں کو کھانے کی پیکٹ دے رہے ہیں اور تمہیں اس ویڈیو کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے جس میں ایک مسلم رپورٹر ایک خاتون کو جو پیادہ پا تھی اپنے پیر کے جوتے تک دے دیے
اتنی محبت ؛ نوازش اور بھائی چارگی کے باوجود تمہیں ہماری ذات سے اور ہمارے نام سے تکلیف ہے ؛ تمہیں ہماری دکان کی سبزیاں پسند نہیں اور ہمارے لیے نفرت آمیز پلے کارڈ لگاتے ہو ؛ اپنے محلے میں آنے پر بندش لگاتے ہو
تم کتنی بھی نفرت کرلو ؛ اور کتنا ہی بغض و عناد رکھ لو ہمیں ہمیشہ صبر کا پتلہ پاؤگے
اور ہاں  ” جہاں بھی ذکر وفا ہوگا ہمارا نام ضرور آئے گا۔

Comments are closed.