فاین تذھبون؟’ہم ہار نہیں مانیں گے‘

ش م احمد کشمیر
7006883587
یوٹیوب پر الشیخ سعودالشریم کی سورہ ’’النازعات‘‘ کی لحن ِداؤدی والی تلاوت نہاں خانۂ دل میں اُترکر وجد آفرین تراوت دوڑا رہی تھی ۔ افطار سے تھوڑی دیر قبل گناہ گار اس سورت ِ پُر حلاوت میں کھویا ہوا تھا۔ سورہ ٔ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اُس جان گسل اور ہوش رُبا ساعت ِقیامت کی منظر کشی کر تا ہے جب جہانِ ناپائیدار تلپٹ ہوگا، سورج بے نور پڑے گا ، فلک کے تارے بکھر یں گے، پہاڑ ڈَھ جائیں گے ، سمندر بھڑک اُٹھیں گے ، خوف ودہشت کے عالم میں انسان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی محبوب ترین اشیاء کا ہوش کھوبیٹھے گا، دشت و بیابان کے وحوش ڈر ے سہمے بد حواسی میں ایک ہی جگہ جمع ہوں گے ۔
ان آیاتِ بینات کی سماعت کے دوران اسہپ ِ فکرکورونا کی قیامت صغریٰ اور عالمی سطح پر اس کے سبب جان ومال کی بلا روک ٹوک تباہیوں کی جانب کھنچ گئی ۔ جونہی قاری صاحب آیت ۲۶ ’’فاین تذھبون‘‘ (پس تم کدھر جارہے ہو؟) کے سوال پر پہنچ گئے تو دل میں اُترنے والی تلاوت یک بہ یک بند ہوئی، خیال وتوجہ کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور دفعتاً ایک اشتہاری نغمہ شروع ہوا ۔ یہ کمرشل بریک تھا۔ایسا محسوس ہوا کہ روح کی پرواز تھم گئی یا یوں کہیے کہ پاکیزگی کے گلستان میں کوئی صیاد دَرآیا۔ یوٹیوب پر کمرشل وقفے ہوتے رہتے ہیں ۔ اکثر الاوقات کمرشل بریک آتے ہی میں انہیں نظر انداز(skip) کر کے آگے بڑھتاہوں مگر اس بار نہ جانے ایسی کیا بات ہوئی کہ ’’ ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ کےvisuals پر میری آنکھیں مرتکز ، کان متوجہ اور فکر کا گھوڑا سر پٹ دوڑنے لگا۔ یہ کورونا کے موضوع پر ایک نیا نغمہ ہے ، بڑا دل نشین ، سجا سجیلا ۔
نغمے کے پُرکشش بول اور دُھن کی جتنی چاہیے داد دیں ،دیجئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نغمے کے بول کووڈ۔ ۱۹ کے پیدا شدہ زمینی حالات سے میل بھی کھاتے ہیں؟ نغمہ نگار پرسُن جوشی کا کلام ، اے۔ آر۔ رحمن کا فنی چابکدستی، مختلف گلوکاروں کی مدھر آوازیں ،متعدد آلاتِ مزامیر مل کر نغمے میں جان ڈالتے ہیں مگر اس کے پیغام پر تھوڑا سا سوچ بچار کیا تو نغمہ میرے لئے سوالا ت کی ایک بڑی سوغات بن بیٹھا ۔شاید ہی ان کے جوابات نغمہ نگار اور موسیقار کے پاس ہوں گے۔ کئی منٹ طویل کمرشل بریک کے بعد کلامِ الہٰی کی تلاوت اپنی حلاوتیں،رُوح پرور معانی ، حیات بخش مفاہیم کے انمول موتی لٹا نے دوبارہ شروع ہوئی۔
میرے کان میں’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ گو نجتا رہا ،ساتھ ہی کورونا کی پل پل بڑھتی وحشت ناک زیاں کاریاں ضمیر کے دراوزے پر دستک بنیں اور رہ رہ کر ’’فاین تذھبون ‘‘ ( پس تم کدھر جارہے ہو؟) کا خدائی سوال ذہن میں کلبلاتا رہا ۔سوال کاجواب ڈھونڈنے میں نے خود کو حقائق کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ۔ میری ناچیز رائے ہے کہ اگر ہم کورونا کے خلاف نام نہاد جنگ میں دعوؤں اور وعدوں کی ٹامک ٹوئیوں سے تھوڑا سااُوپر اُٹھ کر اس مہلک وبا کے آئینے میں’’ پس تم کدھر جارہے ہو؟‘‘ کے سوال پر ضمیر کی بارگاہ میں غور وفکر کر یں تو ہمیں ایک ہی جواب ملے گا : اے انسان ! تُوشرق وغرب ، عرب وعجم میں اللہ کی مشیت کے سامنے بُری طرح ہار ا پچھڑ ا ہوا ہے۔ پھر بھی اگرعالم ِ انسانیت اس کم مایہ وائرس کے ہاتھوں اپنی شکست وریخت نہ ماننا چاہے تو شوق سے نہ مانے ، کسی کو سورج کی روشنی اندھیرا ماننے پرا صرار ہو تو یہ اس کی اپنی بنیائی اور دانائی کا قصور ہے نہ کہ سورج کا۔
ہار پسرِ نوح نہ مانی تو کیا خدائی طوفان تھم گیا ؟ ابرہہ نکھٹو نے خانہ کعبہ کوڈھانے میں بھلے ہی اپنے’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن ‘‘ کی ہار خواب وخیال میں بھی نہ سوچی تو کیا ابابیلی لشکر اصحابِ فیل کو موت کی وادی میں پہنچادینے والی سنگ باری میں ہار ا ؟ موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کر نے والے فرعون اور اس کے لاؤلشکرنے اپنی ضدم ضدا نہ چھوڑی تو کیا دریائے نیل کی فلک بوس لہروں نے اُسے دنیا وآخرت کے لئے نشانۂ عبرت بنانا چھوڑ دینے میں ہار مانی ؟ نمرود نے اپنی شقاوتِ قلبی سے شکست تسلیم نہ کی تو کیا ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ سلامتی والی ٹھنڈ بننے سے ہار گئی ، اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر تے ہوئے چھری حلقوم پر نہ چلی تو کیا خنجرکی ہار نہ ہوئی؟ یوسف علیہ السلام کا کام تما م کر نے آپ ؑ کو اپنے سوتیلے بھائیوں نے ایک اندھے کنویںمیں دھکیل کر جیت کا جشن منایا توکیا مولائے کائنات نے اسی بے وطن اور بے گھر یوسفؑ کے سامنے انہی پیغمبر زادوں کو آخر اپنی ہار کا مزانہ چکھانا چھوڑدیا؟ عیسیٰ علیہ السلام کو پچھاڑنے کے لئے بنی اسرائیل کے احبار ورہبان نے رومی حاکموں سے ساز باز کر کے اُنہیں تختہ ٔ دارپر پہنچانے کا رقص نیم بسمل کیا تو کیا آپؑ کے رفع الیٰ السماء کا خدائی فیصلہ ہارگیا؟ پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کفارانِ مکہ نے ہر رنگ میں اور ہر محاذ پہ اپنی ہار ٹا لنے کی جنگ چھیڑی ، کیا خود کافروں کی ہار نہ ہوئی؟ ہار کر بھی ہارنہ ماننا ایک چیز ہے اور حقیقی جیت کا تمغہ پانا دوسری چیز ہے ۔
کورونا کی مہاماری نے دنیاکو گھمبیر حالات کے قید وبند میں اہل ِ دنیا کی مرضی، اس کی چاہت، اس کی آرزو کے خلاف بری طرح ٹھونس دیا ہے ۔ ٹرمپ، بورس جانسن، پیوتن کی قوموں سے لے کر مودی ، عمران خان اور حسن روحانی کے ملکوں تک میں کون ایسا ہے جو آج کی تاریخ میں اللہ کی مشیت سے پیدا شدہ کورونا کے سامنے ہارا ہوا نہیں دِکھ رہا ہے ؟ فی الحال عالمی سطح پر عملاً صور ت حال یہی کچھ دکھاتی ہے ۔ زیادہ دوجانے کی ضرورت نہیں، ۲۴مارچ کوانڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر تے ہوئے پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مہابھارت کا یُدھ اَٹھارہ دن میں جیتا گیا ، ہم اکیس دن میں کورونا سے مُکتی پائیں گے مگر یہ محض ایک واہمہ ثابت ہوا ، اب لاک ڈاؤن کا چوتھا دور چل رہاہے اور یک طرفہ یُدھ جوںکا توں جاری ہے جب کہ مُکتی کے دوردور بھی کہیں آثار نہیں دِ کھ رہے ہیں ۔ پتہ نہیں یہ سارا سلسلہ کب تلک یونہی طول کھینچتا رہے گا ۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ یہ سطور لکھنے تک ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز بتائی جاتی ہے ، مر نے والوں کی تعداد بھی رُوبہ اضافہ ہے ۔ اس کے بعد کہنے کو اب رہتا ہی کیا ہے کہ عالمی ادارہ ٔ صحت کووڈ۔۱۹ کی
گھمبیر تا کا فہم وادراک کر کے ہینڈز اَپ ہو ا،صاف لفظوں میں اعلان کر گیا کہ انسانی دنیا کو اپنی تمام بے بسی کے ساتھ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا مرنا ہوگا ۔
’’فاین تذھبون‘‘ پس تم کدھر جارہے ہو ؟
میرے ناقص خیال میں مہلک وبا کی غیر مختتم گرفت سے بچنے کے لئے ہمیںکسی بہادری یا جنگ بازی کی قطعی ضرورت نہیں، جملہ بازی سے بھی کام نہیں چلے گا ، کیونکہ یہ کسی دشمن ملک نے ہم پر جنگ مسلط نہیں کی ہے بلکہ یہ پوری دنیاکو جھنجوڑنے کے لئے خدائی کارخانے سے نازل شدہ بلائے آسمانی ہے جو بیک وقت تعذیبی اور آزمائشی ہے ۔ یہ ناگہانی آفت البتہ ہم سے مطالبہ کر تی ہے کہ واپس مہر بان خالق ِ کائنات کی طرف پلٹ جائیں ۔ جب تک یہ خدائی فیصلہ اس کی مرضی سے دنیا میںنافذالعمل رہتا ہے ہمیں اس کے سامنے رحم کی دعاؤں کے ساتھ سرنگوں بھی ہونا ہے اور اپنی بقاء کے لئے جہدمسلسل بھی کر نا ہوگی ، زیادہ سے زیادہ ہوش مندی سے کام بھی لینا ہو گا، احتیاط کی پگڈنڈی اور پرہیز کی شاہراہ پر بھی ہر حال میں چلنا ہوگا ، علاوہ ازیں ہیلتھ ایڈوائزریوں پر بھی من وعن عمل درآمد کرنا ہوگا ۔ لاک ڈاؤن کب ختم ہو ،اس جنجال میں پڑے بغیر احتیاط کی جملہ روشیں قائم رکھتے ہوئے، سرکاری بندشیں اور فرامین توڑے بغیر اگر تھوڑی بہت معاشی دوڑ دھوپ کی گنجائش نکلنی ممکن ہو تو اس سے بھی منہ نہ موڑیں تاکہ ’’جان بھی جہان بھی‘‘ کا سنہری اُصول نظر انداز نہ ہو ۔
ہمیں اچھا لگے یا بُرا مگر ہے یہ ایک بدیہی حقیقت کہ کورونا کے بعد والی دنیا قبل از کورونا دنیا سے بالکل مختلف ہوگی جس میں ہم کئی ماہ قبل تک رہ بس رہے تھے۔ اُس دنیا میں احتکارِزر، سرمایہ دارانہ نظام اور حد سے زیادہ مادہ پرستی کابول بالا تھا مگر اب نئی دنیاکی صبح وشام بدلی بدلی ہوگی، ترجیحات نہیں ہوں گی ، دلچسپیوں کامحور کچھ اور ہو گا۔ آثاروقرائین سے لگتاہے کہ زمین پر جو قومیں زورآور مانی جاتی تھیں، ممکن ہے وہ اور زیادہ طاقت ور ہوں، یہ بھی ممکن ہے گرتے گرتے کمزوروں کی صف میں یہ لڑھک جائیں کہ دبدبہ قائم رہے نہ کوئی نام لیوا ،اور جو ملک کمزور مانے جاتے ہیں وہ کمزور تر ہوجائیں یا زمانے کے اُلٹ پلٹ سے وہیں سب اُوپر اُٹھ کر فائق ہوجائیں۔ بہر حال اس نئی دنیا میں مفید مطلب علم اور جد ید سائنس وٹیکنالوجی سے لیس افراد اور اقوام ہی بآسانی جی سکیں گی ۔ لگتا ہے کہ اخلاقی سطح پر یہ دنیا انسانوں کو حسب ِ معمول فقط اپنا پیٹ پوجا کر نے والا حیوان بننا پسند نہیںکرے گی بلکہ دوسروں کے لئے بھی جینے کا سہارا بننے کا درس دیتی ہوگی۔ یہ نئی دنیا میں ’’فاین تذھبون‘‘( پس تم کدھر جارہے ہو؟ ) کے خدائی سوال کا جواب ہم سے ’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ سننا گوارا نہیں کر ے گی بلکہ چاہے گی کہ ہم اپنی اپنی جگہ ہر طرح کی حیوانی سوچ ترک کر کے مثبت سوچ کے حامل بن جائیں، ہم انسانی دُنیا کو ہلاکت خیز ہتھیاروں اور منافرتوں کے سیاسی کاروبار سمیت مہلک وباؤںکے چنگل سے آزاد کر کے ہر شخص کو سکھ چین کا سانس لینے کا موقع دیں۔ فبہا اگر اس دنیا میں ہم سب اپنی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاکر علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی گویا تفسیر مجسم بن جا ئیں تاکہ دنیا خوان ِ یغما نہیں بلکہ فوائد کی آماج گاہ اور خدمات کی جنت بن جائے ؎
تُو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
( محاورہ مابین خدا وانسان)
ترجمہ : تونے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔
تونے مٹی بنائی میں پیالہ ( کام کی چیز) بنالی۔
اس وقت ہم پرمالک ِکائنات نے جو بھاری بھر کم بوجھ کوڈ۔ ۱۹ کی شکل میں لادیا ہے ، اس سے پہلے بھی ہزاروں سال سے ایسی آفات وبلیات خدا انسانی بستیوں کو تہس نہیں کر تا رہا ہے ۔ یہ اس کی حکمت ِ بالغہ ہے جو انسانی دستر س سے باہر ہے، مگر انسان نے ان چلنجوں کا سامنا کبھی بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہ کیا بلکہ اللہ کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں اور قابلیتوں کوبلا دھڑک استعمال کر کے اپنا مدافعتی و تخلیقی محاذ سنبھا لا۔ آج بھی انہی صلاحیتوں کی خوشہ چینی کر کے ہم پیش آمدہ ہلاکت خیز آفت سے تعمیری امکانات کی ایک حسین دنیا دریافت کر سکتے ہیں جہاں بھوک ، بیماری ، افلاس، ناخواندگی، تنگ نظری، تنفر، تخریب کاری اور تشدد کی جگہ بھائی چارہ، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت کی شریں نغمہ خوانیاں ہوں، لیکن اس کے بالکل اُلٹ میں اگر’’ گھرمیں گھس کر ماریں گے ‘‘ کی ڈینگیں ہوں ’’ گولی مارو سالوں کو‘‘ کی دھمکیاں ہوں ، مہاماری کے کچوکے برادشت کر نے و الے غریب مزدور،اُن کے معصوم بچے، لاغر بیویاں ننگے پاؤں ، خالی جیب ، خالی پیٹ پیدل ہی سینکڑوں میل چلنے کا عزم لئے بھوک ، پیاس، چلچلاتی دھوپ ، پولیس کے ڈنڈوں اور سڑک حادثات کی بھینٹ چڑ ھ چڑھ کر انسانیت کی ذلت وخواری کے تماشے دکھا رہے ہوں اوریہ لاکھوں لوگ اپنے حاکمانِ اعلیٰ کی غلط اور مجرمانہ پلاننگ کے باعث بے تکان اَتیا چاروں کے ساتھ یونہی ٹھوکریں کھا تے جا رہے ہوں تو واللہ ہم ہار ے ہوئے ہیں اور یہ ہمارا خالص بھرم ہے ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘۔ ایسی صورت حال میں یہ نغمہ زمینی حالات کے بجائے سرکاری بیانئے کی تائید میں گنگنائی گئی بالی وُڈ سٹائل قوالی ہوسکتی ہے مگر عملی دنیا کی یہ گفتگو ہی نہیں ہوسکتی۔خود ہی فیصلہ دیجئے اس وقت جب ہمیں مشترکہ اور متحدہ طور مہاماری سے گلوخلاصی کے لئے کمر بستہ ہونے کی اشد ضرورت ہے، انتہا پسندوں کے ہاتھوں اقلیتی مسلم کمیونٹی سے غیرا نسانی برتاؤ معمول بناہوا ہے، مسلم اقلیت کے کھانے پینے ، ٹوپی، حجاب، اذان سے لے کر اُن کے تشخص کی ساری علامتوں تک خدا واسطے بیر بر تاجارہا ہے۔اس پر کیا کہیے؟ حدیہ ہے کہ ایک دلت ڈاکٹر نے ہسپتال میں پی پی ای کی عدم دستیابی کی شکایت کر نے کی بھول کی تو پولیس اسے سرراہ گھسیٹے تھانے لے جارہی ہے ،وہ بھی ننگے جسم، پیچھے کی طرف ہاتھ بندھے، تذلیل کے لئے سر مکمل حجامت کیا ہوا ۔ اُف! کیا اس بے قصور انسان کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کر کے قانون کی ہار اور اخلاق کی شکست کا اعلان نہیں ہوا ؟ ایسی مغموم فضا میں ’’ہم ہارنہیںمانیں گے‘‘ کا نغمہ محض سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے؟
’’فاین تذھبون ‘‘ ایک حقیقی دنیا کی صدائے بازگشت ہے جب کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘ کا نغمہ صرف ایک خیالی دنیا اور قیاسی جنت کا فریب ِ نظر ہے۔ نغمے میں پیوست شاعرانہ خیال آرائی ،
لفظوں کی جادوگری یا جملوں کی موسیقی اپنی جگہ ، شاعر کا نومیدی کو مات دینے کی غرض سے موت کے عالم میں زیست کی خو ش خبری سنانا بھی تسلیم مگر کورونا کی مسلسل مار سے نجات پانے کے لئے حکومت کو اپنی تمام ہاروں کو جیت ماننے کے بجائے ایک تعمیری اور انسانی سوچ سے کام لینا ہوگا ،ایک نئے جوش ،ولولے اور انسانی جذبے سے اپنی جملہ ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔ ہم نے گزشتہ دوماہ سے بلا روک ٹوک مختلف محاذوں پر صرف غریب عوام کی ہاریں اور کورونا کی جیتیں دیکھیں، تقاضا ئے وقت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں، اپنا محاسبہ کریں ۔ اس میں دورائے نہیںکہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کی ناک میں دم کر رکھاہے ، کارخانوں ، معاش گاہوں، انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام اداروں یک قلم بے کار پڑے ہیں۔ زندگی کا سارا نظام درہم برہم کر نے میں عالمی جنگوں نے جو ریکارڈ بنایا تھا،کارخانہ ٔقدرت شاید اسے توڑ کے رکھنے کا فیصلہ کر چکاہے۔ ان حالات میں ملک وقوم کی نیا بچانے کے لئے ناگزیر ہے کہ’’ فاین تذھبون‘‘ کی خداوندی کنجی سے عقل وفہم اورضمیر کے بند تالے کھول کر ایسی نتیجہ خیز،انسانیت نواز ،تازہ دم مدافعتی اور اختراعی پالیسیاں وضع کر کے اپنائی جائیں جو زندہ قوموں کا شعار ہوتی ہیں ؎
آرزوحسرت اور اُمیدشکایت آنسو
اک تر ا ذکر تھا بیچ میں کیا کیا نکلا

Comments are closed.