Baseerat Online News Portal

عید کی مبارکباد اور مصافحہ و معانقہ

مکرمی!
عید مبارک کا ہدیہ تبریک پیش کرنے کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خاص جملہ مروی نہیں،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے جہاں عید کے دن کے معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے وہاں اس سے متعلق کوئی روایت پیش نہیں کی ہے، ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ معمول ضرور رہا ہے کہ ا س دن وہ ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کیا کرتے تھے،البتہ اس سلسلہ میں جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں ان میں عموما لوگ صحابہ کرام کی روش عام سے منحرف ہوجاتے ہیں،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے جبیر بن نفیل سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین جب عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو وہ یہ جملہ ادا کیا کرتے تھے” تقبل اللہ منا ومنک”(فتح الباری 2/466)
اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ابن عقیل سے عید کی تبریک و تہنیت کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ محمد بن زیاد نے فرمایا میں ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام کے ساتھ تھا، وہ حضرات جب عید سے لوٹے تو ایک دوسرے سے کہا تقبل اللہ منا ومنک (اللہ ہمارے اور آپ کے اعمال قبول فرمائے) امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ والی حدیث کی سند جید ہے،اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے عید کے د ین تقبل اللہ منا ومنکم کہے،امام احمد سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کسی سے یہ جملہ کہنے میں پہل نہیں کرتا البتہ کوئی کہہ دے تو اس کا جواب ضرور دیتا ہوں،اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ لوگ عید مبارک،تقبل اللہ منا ومنکم یا اس جیسے دیگر تبریک و تہنیت کے کلمات نماز عید کے موقع پر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے وقت ادا کرتے ہیں، اس کی کیا حیثیت ہے؟شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ وہ ان جملوں کے ذریعے مبارکباد پیش کیا کرتے تھے، البتہ بعض ائمہ نے رخصت دی ہے جیسے امام احمد وغیرہ، لیکن امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں پہل کبھی نہیں کرتا ہاں اگر کوئی پہل کرے تو جواب ضرور دیتا ہوں،کیونکہ تحیہ کا جواب دیناواجب ہے،یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ مبارکبادی دینے میں پہل کرنا نہ تو مامور بہاسنت ہے اور نہ ہی اس سے منع کیا گیا ہے،لہذا عامل وتارک دونوں اس سلسلے میں مختار ہیں،(مجموع فتاویٰ (24/253)
اب جہاں تک سوال ہے عید کے دن مصافحہ اور معانقہ کا تو اس سلسلہ میں کسی صحابی سے خصوصی طور پر عید کے دن یہ دونوں اعمال ثابت نہیں،ہاں البتہ معجم طبرانی کی ایک مستند روایت سے اسکی وضاحت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے اور جب سفر سے لوٹتے تو معانقہ کرتے،علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس حدیث (2647) کو پیش کرنے کے بعد فقہ الحدیث پر بڑی عمدہ بحث کی ہے،جسکا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی سے معانقہ کرنا خوشامد یا تعظیم کی بنا پر ہو تو مکروہ ہے،لیکن الوداع کہتے وقت، سفر سے واپسی پر، زیادہ عرصہ ملاقات نہ ہونے کی صورت میں اور اللہ تعالی کے لیے شدید محبت کی وجہ سے معانقہ کرنا درست ہے،
لیکن ظاہر ہے کہ ان دنوں جبکہ ہمارے لئے سوشل اور فزیکل ڈیسٹیسنگ یعنی سماجی اور جسمانی دوری میں ہی حفظان صحت کے تمام راز مضمر ہیں،مصافحہ اور معانقہ کو کلیتاً ترک کردینا ہی بیشمار خیر و بھلائی کا باعث اور وبائی مرض کووڈ۱۹کی چین ٹوٹنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
حافظ عبد السلام ندوی

Comments are closed.