زندگی کی تلاش میں موت کو گلے لگا تا مزدور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد سیف اللہ رکسول
مبائل : 9939920785
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ سچ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا کوئی بھی باب چمپارن کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس سرزمیں سے ملک کی آزادی کے اتنے واقعات اور تاریخیں وابستہ ہیں کہ کسی ادنیٰ قلم کار کے لئے بھی ان واقعات سے نظریں چراکر آگے بڑھ جانا ممکن نہیں۔
جب آپ آزادی کی تاریخ میں چمپارن کے کردار کو تلاشنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو یاد آجائے گا کہ یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اپنے تحریکی سفر کی شروعات کرکے آزادی کی لڑائی کو ایک فیصلہ کن مرحلے تک پہونچایاتھا،باپو کی نگری کہلانے والی یہی وہ سرزمین ہے جہاں کے مزدوروں نے نہ صرف ایک طویل عرصے تک انگریز حکومت کی آنکھوں میں ڈال کر نیل کی کھیتی کے ذریعہ ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنائے رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ انگریزوں کے ناپاک عزائم کو انجام تک پہونچانے کے لئے وہ عملی اقدامات کئے جنہیں فراموش نہیں کی جاسکتا،لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب ان مزدوروں اور کسانوں پر انگریزوں نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے تو انہوں نے بابائے قوم کو آواز دی اور انہیں بے بسی کی کہانی سناتے ہوئے ان سے رحم کی بھیک مانگی، جس کے بعد وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مزدوروں کے ساتھ کھڑے رہ کر انگریزوں کے ظالمانہ رویوں کا حساب لینے کے لئے نہ صرف چمپارن روانہ ہو گئے،بلکہ اس وقت دم نہیں جب تک ان مزدوروں کو انگریزوں کے چنگل سے آزادی نہ مل گئی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں نے یہاں چمپارن کے مزدوروں کی مختصر تاریخ کیوں لکھی اور کیا وجہ ہے کہ آج مجھے چمپارن کے مزدوروں کا ذکر کرنا پڑا،در اصل لاک ڈاون کے بعد پچھلے دو ماہ کی مدت میں ملک نے گھر واپسی کے لئے در در بھٹکتے لاکھوں بے بس مزدوروں کی جو تصویریں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی ہیں ان میں کئی دلخراش تصویریں اسی چمپارن سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ہیں جنہوں نے پیٹ کی خاطر اپنا وطن تو چھوڑا تھا مگر آج وہ بھوکے پیٹ کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ جھلسا دینے والی دھوپ میں پیدل ہی چل پڑنے کو مجبور ہیں، غور سے دیکھئے تو یہ وہ تصویریں ہیں جس نے ہر کسی کی پیشانیوں پر فکر وتشویش کی لکیریں کھینچ دی ہیں،ہر طرف ایک خاموش سناٹا چھایا ہوا ہے اور ملک کا ایک بڑے حصہ کی نگاہیں ان مزدوروں کی حالت زار کو دیکھ کر اشکبار ہیں،لیکن افسوس اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ملک کا ذمہ دار طبقہ خاموشی کی نیند سو کر ان مزدوروں کی بدحالی کا مذاق اڑا رہا ہے،کہنے کو تو حکومت ان مزدوروں کے تئیں کافی سنجیدہ ہے اور انہیں اپنے گھروں تک پہونچانے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے گئے ہیں یا جن اقدامات کے کئے جانے کےحوالے دیئے جارہے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اس اقدام میں خلوص وانسانیت کا ایسا کوئی قابل ذکر پہلو نظر آتا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے،کیونکہ اگر ان کے بند کمروں سے کہی جانے والی باتیں سچ ہیں اور انہوں نے ان لاچار وبے بس مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ابھی تک بہت کچھ کردیا ہے تو پھر ان کو ہی یہ بتانا چاہئے کہ آخر جو مزدور بھوک پیاس سے تنگ آکر خود کو زندہ رکھنے کی امید میں پیدل ہی اپنے گھروں کے لئے نکل پڑے ہیں،جن بچوں نے ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں سڑک کنارے اپنے کندھے پر اپنے ماں باپ کی لاشیں ڈھوئیں ہیں،جن لوگوں کو تیز رفتار ٹرین نے بے دردی سے روند دیا،جنہوں نےبسوں ٹرکوں یا آٹو کے نیچے دب کر اپنی آخری سانسیں لیں،جن لوگوں نے رکشہ اور سائیکل سے میلوں کا سفر طے کیا،جنہوں نے مئی کی چلچلاتی دھوپ میں جسموں کو جھلسا کر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن کے لئے رخت سفر باندھا اور جن لوگوں نے بھوک وپیاس کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے خاموشی کی نیند کو اپنے گلے لگا لیا، بھلا انہیں اس اقدام پر کیوں کر مجبور ہونا پڑا اگر لاک ڈاون کے بعد حکومت نے ان کی مسیحائی کا دعوی کیا تھا اور ان کے لئے بڑے بڑے اعلانات کئے تھے تو انہیں چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ اس کی وجہ سے نہ جانے کتنوں نے اپنی جانیں کھو دیں،کتنوں کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا،کتنی ہی عورتیں بیوہ ہو گئیں اور کتنوں نے اپنی نگاہوں کے سامنے اپنوں کو دم توڑتے دیکھ کر موت کو گلے لگا دیا.آخر انہیں بے بسی کی موت سے بچانے کے لئے حکومت بروقت سامنے کیوں نہ آئی،کیوں ان کے لئے بڑی تیاریوں کے ساتھ قابل اطمینان اقدامات نہ کئے گئے۔
اب ذرا سوچ کر تو دیکھیے کہ آخر اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو اپنے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھنے والا انسان کس کے سہارے جیئے گا ،کون ان معصوم یتیموں کے سروں پر ہاتھ رکھ ان کے دکھ کو بانٹنے کی کوشش کرے گا،کون سنے گا سڑکوں پر گونجنے والی چیخوں کو،کون ان کے سپنوں کو پورا کرانے کے لئے آگے آئے گا جن کے ماں باپ لاک ڈاون کی بھینٹ چڑھ گئے،کون ان معصوموں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے گا جن کو بھوک پیاس کی شدت نے سڑک کنارے دم توڑنے پر مجبور کر دیا،ارے صاحب آپ نے بلا تیاری لاک ڈاون کر دیا انہوں نے چوں تک نہیں کی،لیکن بے بسی جب انہیں اپنے گھر دھکیلنے لگی تو آپ نے ان مزدوروں کی بے بسی کا ہی مزاق بنا دیا،آخر آپ کو کیسے گوارا ہوا کہ جن لوگوں نے آپ سے خود کو اپنے گھر پہونچانے کی بھیک مانگی آپ نے انہیں موت کے حوالے کر دیا،کیا آپ کا جرم آنے والی نسلوں کے لئے درس عبرت نہیں بنے گا،کیا آنے والی نسلیں آپ سے اس جرم کا حساب نہیں مانگے گیں ۔
یقین کیجئے آج نہ تو ان حکمرانوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے اور نہ ان بے بس مزدوروں کو ان کے گھروں تک پہونچانے کا کوئی فامولہ،سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب مزدوروں کی تکلیف کا علاج تلاشنے کے لئے بابائے قوم نے خود کو بڑی تحریک کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ آج ان ہی مزدوروں کی بے بسی پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ،معاف کیجئے میں نے گذشتہ دو ماہ کے دوران مختلف ذرائع ابلاغ میں مزدوروں کو اپنے بال بچوں کے ساتھ پیدل ہزاروں میل سفر طے کرنے کی ایسی ایسی تصویریں دیکھی ہیں جنہیں دیکھ کر کسی بھی شخص کا دل بھر آئے گا،کوئی باپ اپنے بیماربیٹے کو چارپائی پر اٹھائے سینکڑوں میل دور اپنے وطن لوٹ رہا ہے، کوئی ماں اپنے دو ماہ کے بچے کو اٹھائے راستے پر ہانپتی کانپتی اپنے گھر لوٹ رہی ہے،کوئی بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں بھر کر اپنے وطن پہونچنے کے لئے بے تاب ہے، کوئی اپنی اپاہج بیوی کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر "پد یاترا” پر نکل پڑا ہے، کسی کے پاؤں کے چھالے پھوٹ چکے ہیں اور ان سے خون رِس رہا ہے، کوئی بیچ راستے میں ہی موت کی ہچکیاں لینا شروع کردیتا ہے، کوئی ٹرین کی چپیٹ میں آتا ہے تو کوئی روڈ ایکسیڈنٹ کا لقمہ بن جاتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود زندہ رہنے کا عزم اتنا مضبوط ہے کہ وہ تھکتے نہیں، رکتے نہیں میں نے تپتی دھوپ میں پیاس سے باہر لٹکتی زبانیں، تھکن سے اُبلی ہوئی آنکھیں، دھول دھول جسم، لنگڑاتے لہراتے گرتے سنبھلتے قدموں کی تصویریں بھی بہت دیکھیں،جو آنکھ پھاڑے ہماری حکومت سے یہ سوال کر رہی تھیں کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے،ہم نے روٹی کے لئے اپنا وطن چھوڑا تھا اور آج جب ہم اسی روٹی کے لئے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں تو ہم پر یہ ظلم کیوں۔کیا کوئی بتائے گا کہ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اپنی موت کو گلے میں ڈال کر ملک کا مزدور بے بسی کے ساتھ دردر بھٹکنے کے لئے مجبور کیوں ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے حقوق کی بقاء اور ان کی زندگی کے تحفظ کے لئے کہیں سے کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آج وہ لوگ کہاں روپوش ہیں جو مزدوروں کی مسیحائی کا دم بھرتے تھے، کہاں ہیں وہ لوگ جو انتخابات کے موقع پر ان مزدوروں کے پاوں دھوتے دکھائی دیئے تھے،کیا مزدوروں کے ساتھ ان کی ہمدردیاں الیکشن کی زنجیروں میں ہی قید ہوتی ہیں،کیا مزدوروں کے جھلسے جسموں اور لہو لہان قدموں کو دیکھ کر حکومت کو غیرت نہیں آتی،کیا بچوں کی چیخ وپکار انہیں اندر سے نہیں جھنجورتیں،کیا ان کا ضمیر انہیں آواز نہیں دیتا،کیا راتوں کی تنہائیاں ان مزدوروں کے لئے انہیں بے چین نہیں کرتیں ،اگر ان مزدوروں کی چیخ پکار آپ کو بیدار کرنے کے لئے کافی نہیں تو مت بھولئے کہ یہ مزدور ہی ہیں جن کے سہارے آپ کے انا کی بنیاد کھڑی ہے اور اگر آج یہ مزدور بیدار ہو گیا تو اور ان کی خودداری نے آپ سے بے حسی کا حساب مانگ لیا تو پھر آسمان کی بلندیوں سے زمین پر پہونچنے میں دیر نہیں لگے گی۔
اس لئے اللہ کے واسطے اپنے ضمیر کو بیدار کیجئے اور خواب غفلت سے اٹھ کر ان مزدوروں کی زندگی بچانے کے لئے آگے آئیے،ان بے سہارا مزدوروں کے احساس کو سنئیے،ان کے لہولہان قدموں اور تھکے ہارے جمسوں پر ترس کھائیے،پیدل راہ میں بھٹکتے ان مزدوروں کے پیٹ کی آگ بجھانے ان کے چھوٹے چھوٹے دودھ پیتے بچوں کے لئے دودھ کا انتظام کیجئے، معذور لوگوں کی مدد کرکے ان کا سہارا بنئے کیونکہ یہ کوئی غیر نہیں بلکہ اسی ملک کا مستقبل اور ہندوستان کے معمار ہیں،ان ہی سے اس ملک کی رنگا رنگی قائم ہے،انہوں نے اپنے خون پسینے کو ایک کر کے اس ملک کا مستقبل تابناک بنایا ہوا ہے،ورنہ یاد رکھئے اگر یہ مزدور سڑکوں پر اسی طرح دم توڑ تے اور ان کی زندگیاں نہیں بچائی گئیں تو یہ ملک شاندار مشتقبل کی راہ بھول جائے گا ۔
Comments are closed.