از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز
اور ہندوستان نے آپریشن سیندور کے تحت پاکستان پرحملہ کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا۔ چونکہ شہری آبادیوں پر حملے نہیں کئے گئے اس لئے مجموعی طور پر ہندوستان کے اس اقدام کو سراہا گیا کیونکہ اس وقت ساری دنیا دہشت گردی کے صفایا کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور پاکستان ساری دنیا میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے لئے بد نام ہے۔ اس کے دہشت گرد تنظیموں لشکر طیبہ جیش محمد وغیرہ پر کئی ممالک نے پابندی عائد کی ہے۔ کیونکہ ان کی کڑیاں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے ملتی ہیں۔ 22 اپریل 2025ء کو پہلگام (کشمیر) میں 26سیاحوں کے قتل عام نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں غم و غصہ کی لہر پیدا کردی تھی۔ اگرچہ کہ ہندوستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے اس سانحہ کا سبب انٹلیجنس ایجنسیوں کی غفلت قرار دیاتھا اور حکومت سے کئی سوال کئے تھے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ پاکستان نے اگرچہ کہ اس واقعہ سے لا تعلقی کا اظہار کیا تاہم یہ دھمکی دی تھی کہ کسی بھی فوجی کاروائی کے خلاف وہ نیو کلیئر ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ ہندوستان سے پاکستان کا کسی بھی شعبہ حیات میں مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شعبہ میں یہ دیوالیہ ہوچکا ہے۔
اس ملک کی یہ بد نصیبی ہے کہ اس کی حکومت اور فوج کو ملک کی عوام کی مکمل حمایت حاصل نہیں ہے اس کی وجہ شریف خاندان کی غاصبانہ حکومت اور جمہوری طریقے سے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی اقتدار سے جبری بے دخلی اور پاکستان کی مقبول ترین شخصیت عمران خان کو مختلف مقدمات میں الجھاکر جیل میں رکھا جانا ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت عمران خان کو اپنا حقیقی رہنما مانتے ہیں کیونکہ 22 سالہ سیاسی کیرئیر کے دوران عمران خان نے اپنے قول و فعل سے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ وہ محمد علی جناح سے کئی زیادہ تھی تاہم بعض مغربی طاقتوں کے زیر اثر شریف خاندان نے عمران خان کو معزول کیا اور شہباز شریف جیسے مخبوط الحواس کو وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھا دیا۔ گزشتہ دو سال نہ صرف پاکستان تحریک انصاف بلکہ عام پاکستانی عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر مظاہرہ کر رہا ہے۔ شہباز شریف اور بد عنوان نواز شریف اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کے درمیان نہیں آسکتے۔ انہوں نے پاکستان کو ہر طرح سے لوٹا اور اس ملک کی دولت مغربی ممالک میں منتقل کی۔ انہیں بدعنوان ترین آصف زرداری کی حمایت حاصل رہی جس پر رشوت اور کمیشن خوری کے سینکڑوں الزامات ہیں۔ انہوں نے اس ملک کو کنگال اور بھکاری بناکر رکھ دیا۔ پاکستانی عوام بھی چاہتے تھے کہ شریف خاندان کو سزا ملے۔6 مئی کی شب یا 7 مئی کی اولین ساعتوں میں پاکستان کے مختلف مقامات پر ہونے والے ہندوستانی حملوں نے جس طرح سے شریف خاندان کو ذلیل اور رسوا کیا یہ ان کی سزا تھی۔ اگرچہ کہ یہ دہشت گرد وں کی پشت پناہی اور پہلگام حملے کے جواب میں تھی۔
پاکستانی فوج شریف خاندان سے زیادہ بد عنوان اور پاکستانی عوام کا خون چوسنے والی رہی ہے۔فوجی عہدیدار وں کی محسوبہ آمدنی ان کی عیش و عشرت بین الاقوامی بینکوں میں اثاثہ ذات اس کاثبوت ہے۔ ایک دور تھاجب پاکستانی فوج کو عوام کی حمایت حاصل تھی مگر آج ایک عام شہری بھی فوجی سربراہ کو لعن و طعن کرسکتا ہے۔ ہندوستانی حملے پر پاکستانی عوام کی اکثریت نے کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیابلکہ خیبر پختونخواہ کی عوام نے باقاعدہ پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف بغاوت کا اعلان نہیں تو اظہار ضرورکیا۔ خیبرپختونخواہ کے لال مسجد کے امام و خطیب مولانا عبد العزیز غازی نے اس حملے سے پہلے مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان حملہ کرے تو جو پاکستانی حکومت و فوج کاساتھ دینا چاہتا ہے وہ اپنا ہاتھ بلند کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک بھی پاکستانی شہری نے اپنا ہاتھ بلند نہیں کیا۔ مولانا غازی نے جو خیبرپختونخواہ کے نوجوان طبقے میں مقبول ہیں پاکستانی فوج پر کڑی تنقیدکی جس نے اس خطے کی عوام اوربلوچیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ان پر اپنے ہتھیار استعمال کئے۔ کئی نوجوانوں کو غائب کردیا۔ خیبرپختونخواہ جو شمال مغرب صوبہ سرحد کہلاتا تھا ہندوستان ہی کا حصہ تھا جو 1947ء میں پاکستان کا حصہ بنا۔ 2010 ء میں یہ صوبہ خیبرپختونخواہ بن گیا۔ پشتوبولنے والوں کی اکثریتی آبادی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ خیبر پختونخواہ سے بغاوت کی آواز ممکن ہے آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل جائے اور پھر پاکستان کو بیرونی حملوں کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا بھی شکار ہونا پڑے۔ ویسے بھی بلوچ تحریک اپنی علحدگی اورآزادی کی تحریک شدت سے چلا رہی ہے، حال ہی میں اس نے جعفر ایکسپریس کا اغواکیا تھا اور پھر 5 اور 6 مئی کے درمیان ایک فدائین حملے میں پاکستان کے کئی فوجیوں کو ہلاک کردیاتھا۔ یہ حملہ بالکل پلواما کے طرزکاحملہ تھا۔
پاکستانی حکومت اور فوج اس صدمہ سے سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ ہندوستان نے ان حالات کو ایک سنہرہ موقع سمجھ کر سرجیکل اسٹرائیک کی اور ایک عام اندازے کے مطابق 70 سے 90 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ان میں مسعود اظہر کے پورے خاندان کا صفایا ہوگیا۔ بیٹا،بھائی،بڑی بہن سب ہی ہلاک ہوگئے۔ ایک اطلاع کے مطابق حافظ سعید کی ہلاکت کی بھی خبر ہے جس کی تصدیق ہونی ہے۔یہ پاکستانی دہشت گردی پر زبردست کاری ضرب ہے۔ پاکستان نے اگرچہ کہ اس حملے کے بعد یہ کہا ہے کہ فی الحال وہ کوئی جوابی کاروائی نہیں کرے گا تاہم یہ ایک جنگ فریب بھی ہوسکتا ہے۔ایک سابق فوجی عہدیدارنے نیشنل نیوز چیانل پر کہا کہ پاکستان پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ 1965ء میں جنگ بندی کے بعد اس کی فضائیہ نے جاتے جاتے ایک ہندوستانی آبادی پر بم گرایا تھا، 350 جانیں ضائع ہوئی تھی۔ چنانچہ اگراب بھی پاکستانی وزیراعظم انتقامی کاروائی نہ کرنے کا اعلان کرتے بھی ہیں تو ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان کی جانب سے مزیدحملے کئے جاسکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان عالمی برادری میں یکاو تنہا ہے۔ ترکی نے اگرچہ کہ سمندری جہاز فوجیوں کے ساتھ بھیجے ہیں تاہم وہ مصلحت سے کام لے سکتا ہے کیونکہ اس کے مفادات ہندوستان سے وابستہ بھی ہیں جبکہ سعودی عرب، قطر، یو اے ای نے غیر جانب دارانہ موقف اختیارکیا ہے ان کے لئے ہندوستان سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ امریکہ، کوریا، جاپان جیسے ممالک دہشت گردی کے صفایا کے نام پر ہندوستان کے حق میں ہیں البتہ ہندوستان کی جانب سے دریاؤں کی پانی روک دینے کے فیصلے کی بہت سارے ممالک نے مخالفت کی ہے۔ پاکستان اس وقت غربت، بے روزگاری، اناج کی قلت سے پریشان ہے اور اس کی حالت کا فائدہ نہ اٹھانا حماقت ہے۔ اس کے ساتھ پانی کی قلت کا مسئلہ پیداہوگا اس سے وہ کیسے نپٹے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے حالانکہ بیشترماہرین کا دعوی ہے کہ ہندوستان، سندھ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ ہندوستان نے اس معاہدے کو معطل کیاہے‘ کالعدم نہیں کیا۔ اور 60 سال پہلے کئے گئے اس معاہدے کو کالعدم کیا بھی نہیں جاسکتا۔ بہرحال آنے والے حالات کیا ہوں گے؟ کہا نہیں جاسکتا۔
اندرونی بغاوت کا فائدہ اٹھاکر فوج شہباز شریف حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے اور خود ملک کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں یہ روایت رہی ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت تبدیل ہو جاتی ہے اور نئی حکومت سے ہندوستان کے امن مذاکرات ہو تو بہت سارے باہمی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ شہباز شریف کے دور اقتدار میں تو یہ ممکن نہیں۔ انہیں اپنی کمزوری، نااہلی، بے بسی، عالمی ادارہ میں اکیلے پن کا احساس ہے۔ وہ اقتدار کی کرسی پر تو بیٹھ گئے مگر اب انہیں احساس ہو رہا ہوگا کہ کانٹوں کی سیج پر ہیں۔ اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ حالات کے بگڑنے پر وہ چوری چھپے ملک سے رفو چکربھی ہوسکتے ہیں۔ فوج کے کئی اعلی عہدیدار پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ بہرحال! پاکستان کو جو سزا ملی ہے وہ عبرت ناک ہے۔ مودی حکومت کی اخلاقی فتح ہے جو بہار کے الیکشن میں بھی ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی کو یقینی بنائے گی۔ مودی حکومت کی حکمت عملی کے آگے اپوزیشن بے بس دکھائی دیتی ہے۔ کہاں وہ اپوزیشن قائدین جو سوالات کر کر کے حکومت کو پریشان کر رہے تھے۔ اب حکومت کی تائیداور اس کی ستائش کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔نیہا ٹھاکر نے بھی ”چٹکی بھر سیندور کی طاقت“ دکھادی۔
سابق پاکستانی گلوکار عدنان سمیع نے ہندوستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے ایکس پر ٹوئیٹ کیا۔”سیندور سے تندور تک“ پاکستان اگر پہلگام سانحہ کا ذمہ دار ہے تو اس نے اپنے حریف کو غیرمحسوس طریقہ سے فائدہ پہنچایاہے۔ کیونکہ اس واقعے نے پورے ملک کو ایک آواز کردیا اور اپوزیشن کی کھن گرج کو خاموشی میں بدل دیا۔ یہ محض اتفاق ہی ہوسکتا ہے کہ جب کبھی انتخابی ماحول ہوتا ہے اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1971ء کے بعد ہندوستان نے پاکستانی علاقوں بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں کھس کر نشانہ لگایا اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔خبروں کے مطابق ان حالات سے بنگلہ دیش کی فوج فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ محمد یونس کی فوج تختہ پلٹ سکتی ہے۔ اس وقت شیخ حسینہ واجد اپنے ملک واپس ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔بیگم خالدہ ضیاء پہلے ہی اپنے ملک واپس ہوچکی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے یہ اعلان کیا تھاکہ پاکستان پر حملے کی صورت میں وہ ہندوستان کے بعض ریاستوں پر قبضہ کرے گا۔ اس کے اس بڑے بول کی سزا دی جاسکتی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے آگے کیا ہوتا ہے؟۔۔
Comments are closed.