ہائے! کہاں غروب یہ آفتاب ہوگیا

? ظفر امام
——————————————————————
عام دنوں کے مقابلے میں رمضان کے ایام میں دن چڑھے تک سونے کا معمول رہتا ہے ، حسبِ سابق کل {۲٥/ رمضان بروز منگل} سحری کے بعد سویا اور اتنی گہری نیند سوگیا کہ نو بجے آنکھ کھلی ، ہڑبڑا کر اٹھا ، موبائل کھولا ہی تھا کہ ایک ایسی اندوہ گیں اور دلگیر خبر پڑھنے میں آئی کہ جسے پڑھ کر یک بیک نگاہیں ٹھر گئیں ، ماتھے پر درد و کرب کی سلوٹیں ابھر آئیں ، بڑھتے قدم زمین سے پیوست ہو کر رہ گئے ، چہرے پر بےیقینی ، رنجیدگی اور افسردگی کے کئی رنگ آئے اور رخصت ہوگئے ، شیشۂ دل پر کاری چرکہ لگا ، آنکھوں کے سامنے رنج و الم کے گہرے بادل چھا گئے ، ہونٹ کپکپائے ، یک دوجے سے علیحدہ ہوئے اور انا للہ الخ کے الفاظ بےربط جملوں کے سانچے میں ڈھل گئے؛
ویسے تو حضرت الاستاذ { مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری } رحمہ اللہ کی طبیعت کافی دنوں سے خراب چل رہی تھی ، بےخوابی ، شب بیداری ، ورق گردانی ، کثرتِ کتب بینی اور انتھک محنت و لگن نے آپ کو بیماریوں کا مجموعہ بنا کر چھوڑ دیا تھا ، جب میں ۲۰١۴ء میں عربی ہفتم میں تھا تو اس وقت ہی آپ پر ایک جان لیوا مرض نے یلغار کردیا تھا ، جس کے زیرِ اثر آپ مسندِ تدریس سے تقریباََ ایک ماہ الگ رہے تھے ، لیکن! آپ اپنے ہزاروں خوشہ چینوں اور زلہ رباؤں کی دعاؤں اور اپنے وقتِ موعود کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے جانبر ہوگئے تھے ، تب سے لیکر امسال شعبان تک نہایت ہی بہتر اور خوش انداز طریقے سے آپ اپنے فریضے کو انجام دیتے رہے کہ :-
امسال شعبان میں بخاری کے آخری درس میں آپ کے سر پر موت کی اولِ بانگِ درا اس طور پر بجی کہ یک بیک آپ کی قادر الکلام اور رواں زبان ہکلا گئی ، چاہ کر بھی آپ بول نہ سکے ، اپنے شیخ کی یہ حالتِ زار دیکھ کر پورا دارالحدیث گریہ کناں ہوگیا ، طلباء کی سسکیوں اور آہوں سے دارالحدیث کے در و دیوار کپکپا اٹھے ، کافی جد و جہد کے بعد بمشکل آپ کی زبانِ مبارک سے یہ جملہ ادا ہوسکا کہ ‘‘ اب جو کرےگا اللہ ہی کرےگا ‘‘ پھر آپ بغرضِ علاج ممبئ کے لئے آخری سفر پر نکلے ، اب کسے پتہ تھا کہ بلبل کے اپنے آشیانے سے اس کا یہ سفر آخری سفر ہے ، پرندے اپنے آشیاں چھوڑتے ہیں واپس آنے کے لئے ، لیکن آپ ہم سب کو بےسہارا و بےآسرا چھوڑ کر یہاں سے ایک ایسے سفر کی طرف رختِ سفر باندھ رہے ہیں جس کی مسافت کبھی ختم نہ ہوگی اور جس کی بھول بھلیاں اتنی وحشتناک کھنڈرات میں تاحدِ نگاہ بَل کھاتی چلی گئی ہیں کہ کسی مسافر کی وہاں سے پسپائی نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے؛
ممبئ میں بہتر طریقے پر آپ کا علاج چلا ، آپ بیماری سے مکمل طریقے پر صحتیاب بھی ہوگئے کہ رمضان سر پر آگیا ، پھر آپ نے وہیں ممبئ میں ہی علمی نکات ، فقہی لطائف اور تفسیری رموز پر مشتمل قرآنِ کریم کی نہایت ہی جامع ، بلیغ اور شاندار تفسیر شروع فرمائی جو غالبا سترہ رمضان تک جاری رہی ، لیکن! یہ تو بجھتے ہوئے چراغ کی آخری لَو تھی جو گُل ہونے سے پہلے تھر تھرا رہی تھی ، اور پھر وہی ہوا جو ایک بجھتے ہوئے چراغ کا آخری مقدر ہوتا ہے کہ آپ اچانک لبِ بستر ہوئے اور پھر مختصر سی علالت کے بعد دنیا بھر میں پھیلے اپنے چاہنے والوں اور ہزاروں شاگردوں کے جم غفیر کو اشکبار کر کے یہ خوش نوا بلبل یہ کہتے ہوئے ہمیشہ کی میٹھی نیند سوگیا کہ
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
آپ کی موت کسی ہمہ شما کی موت نہیں تھی ، بلکہ ایک پائے کے محدث اور جلیل القدر فقیہ کی موت تھی ، آپ کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی ، علمی حلقوں میں سوگواری اور رنجیدگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ، پچھلے چار پانچ دہائیوں سے آپ کے علم کی جوت سے روشن و منور ہونے والا دارالعلوم اچانک یوں تاریک سا ہوگیا کہ مانو جیسے اس کی روشنی کو گہن لگ گیا ہو ، دارالعلوم کے در و دیوار چیخ اٹھے اور بزبانِ حال یوں نغمہ سرا و سنج ہوئے کہ
کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے دردِ دل جس کی کوئی دوا نہیں
بلا شبہ اس دورِ قحط الرجال میں آپ کی بلند پایہ ، شہرۂ آفاق اور یگانۂ روزگار شخصیت بمثلِ اس آفتاب کے تھی جس کی ضیاء پاش کرنیں بیک وقت پورے عالم کو تابندگی عطا کرتی ہیں ، اور جن کی جھلملاتی روشنی میں راہِ حق سے بھٹکا مسافر اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنے کاروانِ حیات کو درست سمتِ سفر عطا کرتا ہے ، آپ جہاں میدانِ علم و دانش کے ایک زبردست محدث ، بلند پایہ فقیہ ، مایہ ناز مفسر ، باکمال مصنف ، سحر طراز مدرس ، منفرد عالم ، ممتاز محقق اور عالی رتبہ مدقق تھے تو وہیں میدانِ اصلاحِ حال اور درستگئ قلوب کے ایک بہت بڑے مصلح ، نبض آشنا حکیم ، خوش بیاں مقرر ، خوش گفتار خطیب اور روشن دماغ رہنما تھے ، مجلس کو لوٹنے کا ملکہ آپ کو خدا نے خوب عطا کیا تھا ، آپ کی باتوں میں پروردگار نے وہ خمار اور سحر ودیعت کردیا تھا کہ لوگ انہیں سن کر مسحور ومخمور ہوجاتے اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ کے سراپے میں اتنی سادگی ، بےساختگی ، دلبری ، دلکشی اور مقناطیسیت تھی کہ جو ایک بار آپ کی مجلس میں چلا جاتا یا آپ کو دیکھ لیتا تو وہ بار بار جانے اور آپ کو دیکھنے کی تمنا کرنے لگتا ، بات کرنے کا اسلوب اور طَور اتنا دلکش و دلنشیں کہ گھنٹوں آپ کی مجلس میں بیٹھنے کے باوجود نہ دل اکتاتے اور نہ ہی ذہن پژمردہ ہوتے؛
آپ کا شمار دارالعلوم کے ان مایہ ناز اور مقبول ترین اساتذہ میں ہوتا تھا { بلکہ آپ اس باب میں سرِ فہرست تھے } کہ جو مساویانہ طور پر دارالعلوم کے ہر چھوٹے بڑے درجے کے طالبِ علم کے منظورِ نظر اور ان کے دلوں میں رچے بسے ہوا کرتے ہیں، آپ کا درس اولِ دن ہی سے دارالعلوم میں اتنا مقبول تھا کہ شاذ ہی کسی اور کے حصے میں یہ آیا ہو ، اور اس کی بنیادی وجہ آپ کا ماہرانہ کلام ، فقیہانہ گفتگو ، منطقانہ اسلوب اور محققانہ طَور تھا ، آپ پوری بیدار مغزی اور کمالِ دقیقہ رسی و نکتہ سنجی سے پوری تشفی بخش بات کیا کرتے تھے ، دارالعلوم کے دورۂ حدیث کے اکثر گھنٹے میں ایک پاؤ تپائیاں طلبہ سے فارغ رہتی ہیں ، لیکن! یہ آپ کے تدریسی اسلوب اور تعلیمی تکنیک کا ہی کمال تھا کہ صرف طلبۂ دارالعلوم ہی نہیں بلکہ قرب و جوار کے مدارس کے طلبہ بھی آپ کے دریائے علم سے جرعہ نوشی کے لئے کشاں کشاں آپ کے گھنٹے میں حاضر ہوتے ، اور پورے ہمہ تن گوش ہو کر آپ کے بتائے ہوئے ایک ایک نکتہ کو آویزۂ گوش بناتے اور اس ہجوم کا یہ عالم ہوتا کہ اتنی بڑی درسگاہ طلبہ کی کثرت کی وجہ سے اَٹ جاتی ، حتی کہ تِل دھرنے کی جگہ بھی باقی نہیں رہتی ، مجبورا بعد میں آئے طلبہ کو دروازے سے باہر ہی بیٹھ کر سننا پڑتا ؛
دارالعلوم میں یہ قدیم روایت ہیکہ طلبہ دلفریب لحن ، وجد آفریں لہجہ اور مخصوص نوع کی طرز کے ساتھ احادیث کی عبارت خوانی کرتے ہیں ، اور مسند آراء اساتذہ موقع بموقع احادیث کی تشریح کرتے ہیں پہلے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا بھی یہی انداز تھا لیکن! ادھر کچھ سالوں سے { جس میں ہمارا بھی سال ۲۰١٥ء بھی شامل ہے } حضرت کسی طالبِ علم سے ضیاعِ وقت کی وجہ سے عبارت پڑھوانا پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ ازخود پڑھتے تھے اور پڑھنے کا انداز اتنا شاداب و شگفتہ اور دلکش و دلنشیں ہوتا کہ سماں میں وجد طاری ہوجاتا ، عبارت پڑھتے ہوئے آپ کی زبانِ مبارک سے ایسا نغمہ پھوٹنے لگتا جیسے کوئی رباب کے تاروں کو چھیڑ رہا ہو ، جیسے کوئی بہتا دریا پتھر کی سلوں سے ٹکرا رہا ہو اور جیسے کوئی آبشار جلترنگ بجا رہا ہو؛
اس کے ساتھ ہی آپ فطری طور پر نہایت ہی بذلہ سنج ، ظریف الطبع اور زندہ دل انسان واقع ہوئے تھے ، طلبہ کے دلوں کو پرکھنے کا نہ جانے آپ کے پاس کون سا ایسا آلہ تھا کہ آپ طلبہ کی ہلکی سی اکتاہٹ کو بھی محسوس کر لیا کرتے تھے ، جب مجلس میں ذرا اضمحلالی کیفیت چھانے لگتی تب آپ کوئی ایسا خوش گوار ، پُرلطف اور مسرت انگیز لطیفہ چھوڑ دیتے کہ پوری مجلس قہقہہ زار بن جاتی ، یہی وجہ ہیکہ آپ کی مجلس کبھی بھی بیزاری یا انقباضیت کی شکار نہ ہوتی ، پوری مجلس سراپا گوش بنی ہوتی ، کہیں سے ذرہ بھر بھی سرسراہٹ کی آواز پیدا نہ ہوتی آپ طلبہ کے دلوں پر چھائے رہتے ، کبھی تدریسی بانکپن اور بوقلمونی کی وجہ سے تو کبھی ظریفانہ نہج اور لطیفانہ اطوار کی وجہ سے؛
ان کے علاوہ خدا نے آپ کو معلمانہ وجاہت ، فاضلانہ متانت اور مرعوبانہ وقار کی نعمتِ عظمیٰ سے بھی بہرہ ور کیا تھا ، آپ جونہی درسگاہ میں قدم انداز ہوتے یک بیک پوری درسگاہ اس ٹھرے ہوئے جوہڑ { تالاب } کی مانند ہوجاتی جو کنارے سے ابل چلنے کے بعد بھی پرسکون لہروں کی آغوش میں خاموش رہتا ہے؛
لیکن! افسوس کہ آج یہ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، انگلیاں مائل بہ فگار ہیں ، کلیجہ منہ کو آرہا ہے اور قلم سے لہو کی سیاہی امڈ رہی ہے کہ آج ہم سے وہ تاریخ ساز ہستی اتنی دور جا چکی ہے کہ بس اب کبھی ہوا تو خوابوں میں ہی زیارت ہو؛
جا بسا اڑ کر اچانک ہائے وہ طائر کہاں
گلستاں میں جو تھا اب تک نغمہ سنج و نغمہ بار
پیکرِ صدق و صفا نازشِ دانشوراں
خطۂ عالم میں جو تھا سلف کی یادگار
یقیناََ آج اس بزمِ کون و مکاں سے سدا کے لئے وہ روشن چراغ بجھ گیا جو برسوں سے اپنی روشنیاں اصحابِ محفل پر لٹا رہا تھا ، تاہم فضا میں اس کی بکھری ہوئی چنگاریاں بشکلِ کہکشاں یونہی تاقیامت جھلملاتی رہینگی ، کیونکہ کسی فنکار کی موت صرف اس فنکار تک منحصر ہوتی ہے ، لیکن اس کے چھوڑے ہوئے فن پارے ایک یادگار عناصر بن کر ہمیشہ کے لئے لوگوں کے دلوں میں زندہ اور تابندہ رہتے ہیں؛
اس موقع پر مجھے آپ کا ایک جملہ خوب یاد آتا ہے جو آپ بار بار درس میں فرمایا کرتے تھے ، کہ ‘‘ مسلمانوں کو گورِ غریباں میں دفن کیا جانا چاہیے ، اب تو لوگ دفن کرنے میں بھی امتیاز برتتے ہیں اور اپنے مردوں کو جدا گانہ قبرستان میں دفن کرنے کو فخر سمجھتے ‘‘، یہ آپ کی تواضع کا اثر تھا یا انکساری کا نتیجہ کہ خدا نے آپ کی بات پر بارگاہِ مستجاب میں قبولیت کی مہر لگادی ، اور آپ کی وفات اپنے چمن سے میلوں دور ایک ایسے دیارِ غربت میں ہوئی اور آپ کے جسمِ اقدس کو ایک ایسی قبرگاہ میں سپردِ خاک کیا گیا کہ نہ وہاں آپ کے منصب کا کوئی آدمی دفن تھا اور نہ ہی آپ کے پلے کا کوئی انسان ، اگر تھے تو وہی گمنام لوگ تھے جو اپنی رحلت کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں فقط بھولی بسری یاد بن کر زندہ رہ جاتے ہیں؛
آج جوگیشوری ممبئی کے مکیں بھی اپنی قسمت پر ناز کر رہے ہونگے کہ اس سے پہلے شاید کبھی اس سرزمین نے ایسی پُرنور صبح نہیں دیکھی ہوگی جیسی کل دیکھی تھی اور اس قبرستان میں مدفون مردے بھی خوشی کی بانسری بجا رہے ہونگے کہ آج ان کے پہلو میں ایک ایسا آفتابِ عالم تاب محوِ خواب ہوا ہے کہ جس کی راہ دیکھتے ہوئے انہیں عرصہ بیت گیا تھا؛
بس دعا ہے کہ باری تعالیٰ حضرتِ والا کی مغفرت فرمائے ، درجات کو بلند و بالا فرمائے ، آپ کے پسماندگان ، خوشہ چینان اور عقیدت مندان کی اشک شوئی فرمائے اور آپ کے جانے سے دارالعلوم کو جو خسارہ لاحق ہوا ہے اور جو ناقابلِ پُر انخلاء پیدا ہوا ہے اس کو پُر کرنے کے اسباب پیدا فرمائے……. آمین یا رب العالمین
ظفر امام ، کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج
۲٦/ رمضان ١۴۴١ھ
Comments are closed.