آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

ایک شخص کو کئی روزوں کا فدیہ
سوال:- زید روزے نہیں رکھ سکتا ، وہ فدیہ ادا کرتا ہے ، اور کھانا کھلانے کے بجائے گیہوں دے دینا چاہتا ہے ، کیا وہ ایک مسکین کو کئی روزوں کا فدیہ ادا کرسکتا ہے؟(سلیم الدین احمد، سماجی گوڑہ )
جواب:- اس صورت میں بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ ایک مسکین کو ایک دن کا فدیہ ادا کرے ، یا ایک ہی مسکین کو روزآنہ ایک ایک دن کا فدیہ ادا کرتا چلا جائے ، اس صورت کے درست ہونے میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ، لیکن اگر ایک ہی دفعہ ایک محتاج شخص کو ایک سے زیادہ دنوں کا فدیہ ادا کرے ، تو امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک ، یہ صورت بھی درست ہے ، اور اسی پر فتوی ہے ۔ للشیخ الفانی العاجز عن الصوم الفطر و یفدی وجوبا و لوأول الشہر و بلا تعدد فقیر(درمختار مع الرد: ۳؍۴۴۰)

صدقۃ الفطرنماز عید کے پہلے یا بعد؟
سوال:- عید کی نماز سے پہلے فطرہ دینا افضل ہے یا نماز کے بعد ؟ ( محمد اسعد، حیدرگوڑہ)
جواب:- فطرہ کا مقصد اپنے غریب بھائیوں کو عید کی خوشی میں شریک کرنا ہے ،یہ مقصد اس وقت حاصل ہو سکتا ہے، جب عید سے پہلے بلکہ رمضان المبارک ہی میں فطرہ ادا کردیا جائے ،اس لئے نہ صرف نماز عید بلکہ عید کے دن سے بھی پہلے صدقۃ الفطر ادا کر دینا افضل ہے ، اگر پہلے ادا نہ کرسکا ہو ، تب بھی ذمہ میں واجب رہتا ہے ، عید کے بعد ادا کردینا ضروری ہے، البتہ ایسی صورت میں اجر کم ہوگا ۔(بدائع الصنائع: ۲؍۱۹۹)

صدقۃ الفطر کا وجوب
سوال:-صدقۃ الفطر واجب ہے یا مستحب ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔(نورالدین، کریم نگر)
جواب:- حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص ص سے مروی ہے کہ آپ ا نے مدینہ کی گلی کوچوں میں اپنے منادی کے ذریعہ اعلان کرایا کہ صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر واجب ہے ، مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام ، بالغ ہو یا نابالغ ، (ترمذی، حدیث نمبر: ۶۷۴) حضرت عبد اللہ بن عمر ص سے بھی روایت منقول ہے،(حوالۂ سابق) حضرت ثعلبہ ص کی روایت میں ہے کہ آپ ا نے خطبۂ عید الاضحی میں اس کی ہدایت فرمائی ، (بدائع الصنائع: ۲؍۶۹) بلکہ سعید بن مسیب ؒ اور عمر بن عبد العزیزؒ کہا کرتے تھے کہ آیت قرآنی :قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (اعلیٰ:۱۴) میں ’’ تزکی ‘‘ سے یہی صدقۃ الفطر مراد ہے ۔ (المغنی: ۲؍۳۵۱)چنانچہ عام فقہاء نے صدقۃ الفطر کو زکوۃ ہی کی طرح فرض قرار دیا ہے ، بلکہ ابن قدامہ ؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے،(حوالۂ سابق) البتہ چوںکہ اس کی فرضیت قرآن یا متواتر حدیث سے ثابت نہیں، اس لیے احناف اس کوا واجب قرار دیتے ہیں، نہ کہ فرض ، (بدائع الصنائع:۲؍۶۹) غرض صدقۃ الفطر کے ضروری ہونے پر تمام ہی فقہاء و محدثین کا اتفاق ہے ۔

خاندان ہی میں زکوۃ و فطرہ کی تقسیم
سوال:- زکوۃ و صدقۃ الفطر کی رقم پر ایک خاندان و قبیلہ کے لوگ ایک کمیٹی قائم کرتے ہوئے اپنے ہی خاندان اور قبیلے کے غریب افراد کی بہتر معیشت کے لئے اور لڑکیوں کی شادی و تعلیم پر خرچ کے لئے نظام قائم کریں، تو کیا مناسب اور جائز عمل ہوگا؟( فیصل احمد، آغا پورہ)
جواب:- اپنے قرابت داروں کو زکوۃ دینا باعث اجر ہے، کیونکہ اس صورت میں زکوۃ بھی ادا ہوتی ہے ،اور صلہ رحمی کا حق بھی ، لیکن یہ مناسب نہیں کہ زکوۃ کو صرف اپنے خاندان ہی میں محدود کرلیا جائے ، بعض اوقات دوسرے خاندانوں میںزیادہ مستحق اور ضرورت مند لوگ ہوتے ہیں، ان کو نظر انداز کر دینا مناسب نہیں ، اور اسلامی اخوت کے منافی ہے ،رسول اللہ ا کے عہد میں بھی اور بعد کے ادوار میں بھی مختلف علاقوں سے زکوۃ کی رقم مدینہ منورہ آیا کرتی تھی ، (دارقطنی: ۱؍۸۶) اگر اپنے ہی خاندان میں زکوۃ صرف کی جاتی تو دوسرے علاقے کے مسلمانوں کی اعانت کیسے ہوپاتی؟ اس لئے اس مسئلہ میں بہت غلو بھی مناسب نہیں ۔

اگر عید میں تکبیرات زوائد چھوٹ جائیں ؟
سوال:- نمازِ عید میں امام صاحب نے زائد تکبیرات کہے بغیر قراء ت شروع کرکے پہلی رکعت پوری کرلی ، اسی دوران شاید یاد آگیا تھا تو دوسری رکعت کی قراء ت سے پہلے تین بھولی ہوئی تکبیرات کہہ کر قراء ت شروع کی اور ضم سورہ کے بعد پھر تین تکبیرات کہہ کر نماز پوری کی ، شرعی لحاظ سے نماز ہوئی یا نہیں ؟( نوشاد احمد، سنتوش نگر)
جواب:- اس صورت میں نماز ہوگئی ، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر قراء ت سے پہلے تکبیراتِ زوائد کو بھول جائے اور رکوع سے پہلے یاد آجائے تو پہلی رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے پڑھ لے ، اگر رکوع میں چلا گیا ہو ، پھر یاد آیا تو اب اسے کیا کرنا چاہئے؟اس سلسلہ میں دو طرح کی آراء ہیں : ایک یہ کہ رکوع ہی میں ان زائد تکبیرات کو کہہ لے اور دوسری یہ کہ اب ان تکبیرات کو کہنے کی ضرورت نہیں رہی ، یوںہی نماز پوری کر لی جائے (ہندیہ:۱؍۱۵۱-ردالمحتار: ۳؍۵۷)پہلی رکعت کے رکوع کے بعد اب زائد تکبیرات کو نہ لوٹائے ، عیدین میں تکبیراتِ زوائد واجب ہیں، اس لیے اصولی بات تو یہ تھی کہ ان تکبیرات کے چھوٹ جانے کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہو ، لیکن عیدین اور جمعہ میں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے سجدۂ سہو معاف ہے ،اس کے بغیر بھی نماز ہوجاتی ہے :السھو في الجمعۃ و العیدین و المکتوبۃ و التطوع واحد إلا أن مشائخنا قالوا : لا یسجد للسھو في العیدین و الجمعۃ لئلا یقع الناس في فتنۃ ( ہندیہ : ۱/۱۲۸)

خواتین اور عیدین کی نماز
سوال:- سنا ہے کہ عیدین کی نماز عورتوں پر واجب نہیں ہے ،جب کہ وہ گھر میں اکیلے پڑھنا چاہتی ہیں، تو کیا اس کے لئے خطبہ مسجد میں جاکر سننا ضروری ہے ؟( ابو طالب، ہمایوں نگر)
جواب:- رسول اللہ ا کے زمانہ میں خواتین کو عید میں شرکت کی اجازت تھی ، (ترمذی، حدیث نمبر: ۵۳۹ ) کیونکہ اس زمانہ میں فتنہ کا اندیشہ کم تھا ،اور آج کی طرح بے حیائی عام نہیں تھی ،چنانچہ سیدنا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ : عورتوں میں اب جو کیفیت پیداہوگئی ہے، اگر رسول اللہ ا نے دیکھا ہو تا تو ان کو مسجد جانے سے اسی طرح منع فرمایا ہوتا جیسا کہ بنی اسرائیل کی خواتین کو منع کردیا گیا تھا ،(بخاری، حدیث نمبر: ۸۶۹)ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زمانہ کے اعتبار سے اب سماجی حالات اور بدتر ہوگئے ہیں، فتنہ کے مواقع بھی بڑھ گئے ہیں، اور عورتوں کا جذبۂ آرائش بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہوگیا ہے اس لئے موجودہ حالات میں بدرجۂ اولی خواتین کا عید وغیرہ کی نماز میں شرکت کرنا مناسب نہیں، نہ عید تنہا گھر پر ادا کی جاسکتی ہے ،دعاء اور اللہ کا شکر ادا کرنا کافی ہے، اصل مقصود اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جب عورتوں پر جمعہ اور عیدین کو واجب ہی نہیں رکھا گیا اور اس کے بر خلاف پردہ اور گھر میں رہنے کو ضروری قرار دیاگیا ، خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ (احزاب: ۳۳) تو ایک ممنوع بات کا ارتکاب کرکے ایسی عبادت کرنے میں کیا نفع ہے، جو آپ پر واجب نہیں، اور جس کا شریعت نے آپ کو مکلف نہیں بنایا ہے۔

جماعت کے ساتھ شب قدر میں نفل
سوال:- شب قدر میں مغرب کے بعد چھ رکعت نفل نماز کیا جماعت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے ؟ ( سرفراز احمد، شاہین نگر)
جواب:- جماعت اصل میں فرض نمازوں کے لئے ہے، نہ کہ نوافل کے لئے ، اس لئے سوائے نمازِ تراویح کے نفل میں جماعت مسنون نہیں: إن الجماعۃ في التطوع لیس بسنۃ إلا في قیام رمضان (ردالمحتار: ۲؍۵۰۰) نیز لوگ ایک مخصوص نماز شبِ برأ ت شب قدر وغیرہ میں جماعت سے پڑھا کرتے تھے، فقہاء نے اس کی جماعت میں شرکت کو منع کیا ہے : یکرہ الإقتداء في صلاۃ رغائب وبراء ۃ وقدر (درمختار مع الرد: ۲؍۵۰۱) اس لئے شبِ قدر وغیرہ میں جو بھی نفل پڑھیں تنہا تنہا پڑھا کریں ۔

گھر میں جماعت
سوال:- زید کے پاس حافظ صاحب کے قیام و طعام کا انتظام تھا، سردی کی وجہ سے زید اور اس کے گھر کے افراد نیز حافظ صاحب رمضان میں سحر کھانے کے بعد اذان ہوتے ہی فجر کی جماعت ادا کرکے فوری سوجاتے ہیں، یہ عمل ختم رمضان تک جاری رہا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ (نصیر الدین، شاد نگر )
جواب:- اگر کوئی شخص بیماری وغیرہ کی وجہ سے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ جماعت کرلیا کرے ، یا کبھی اتفاقا اس طرح جماعت کرلی جائے ، اور مسجد میں دوسرے لوگ جماعت کرلیں ، تو اس کی گنجائش ہے؛ کیونکہ جماعت واجب یا سنت مؤکدہ ہے، اور مسجد میں جماعت کا اہتمام واجب کفایہ ہے، تو اگر اس کے گھر میں نماز پڑھنے کی وجہ سے مسجد کی جماعت معطل نہ ہوجائے تو اسے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب تو حاصل نہ ہوگا؛لیکن جماعت کا ثواب حاصل ہوگا :لو صلی في بیتہ بزوجتہ أو ولدہ فقد أتی بفضیلۃ الجماعۃ (مجمع الانہر:۱؍۱۰۶)لیکن اس کی عادت بنا لینا مکروہ ہے؛ بلکہ علامہ حلوانی ؒ نے اسے بدعت قرار دیا ہے: ویکون بدعۃ و مکروھا بلا عذر(فتح القدیر:۱؍۳۰۰) اس لئے ان حضرات کا مسلسل ایک ماہ اس کو معمول بنا لینا مناسب نہیں تھا، آئندہ اس سے احتیاط کرنی چاہئے۔

دولڑنے والے کے درمیان صلح کی کوشش
سوال:- میری عادت ہے کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہوتی ہے تو چھڑا دیتا ہوں ، ایک بار میں نے ایسا ہی کیا ، تو ایک فریق کے لوگوں نے مجھے کافی مارا پیٹا ، جس کی وجہ سے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کسی کے معاملہ میں مداخلت نہ کیجئے۔ ( مرغوب الرحمٰن، بھیونڈی)
جواب:- دو مسلمانوں کو جھگڑے سے بچانا بہت ہی نیکی کا کام ہے ، اور اس پر بے حد اجر و ثواب ہے ، ممکن حد تک ایسے جھگڑے فساد کو روکنا ہر مسلمان کا فرض ہے آپ ا نے ارشاد فرمایا :تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے روکے اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے ، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا مانے ، اور یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۷۸) آپ کا یہ عمل بھی برائی کو روکنے میں داخل ہے ، تاہم اگر اندیشہ ہو کہ لوگ دست درازی کریں گے تو آپ زبان سے سمجھانے پر اکتفا کریں ، لیکن بہر حال اسے ایک ایمانی فریضہ اور اسلامی ذمہ داری سمجھیں ۔

Comments are closed.