Baseerat Online News Portal

خوشی ہو عید کی کیوںکر کہ سوگوار ہوں میں

نثار احمد حصیر القاسمی
(شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ حیدرآباد ،
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز حیدرآباد)
[email protected] 0091-9393128156

اسلام عفو و درگذر ، رواداری و رکھ رکھاؤ ، بھائی چارگی ، اُلفت و محبت کا دین اور آسانیاں پیدا کرنے اور توسع اختیار کرنے والا مذہب ہے ، جسے دین فطرت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں انسانی فطرت کی پوری پوری رعایت کی گئی اور ہر اوامر و نواہی میں اسے ملحوظ رکھا گیا ہے ، اسی فطری تقاضے اور آسانی پیدا کرنے کے اُصول کے تحت اسلام نے چند دنوں کو خوشی و مسرت کے اظہار اور عید و جشن منانے کا دن ہمارے لئے قرار دیا ہے ، اور یہ چند ایام ہیں عید الفطر و عید الاضحی ۔
ہر مذہب ، ہر سماج ، ہر تہذیب ، ہر قوم اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں میں سال کے بعض ایام خوشی و مسرت کے اظہار اور جشن و تہوار منانے کے لئے ہوتے ہیں ، یہ عیدیں سماجی و تہذیبی خصوصیات میں شمار کی جاتیں اور ثقافتی تانے بانے کا اہم حصہ ہوتی ہیں ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں مدینہ والوں کا دو دن تہوار کا ہوا کرتا تھا ، جس میں وہ کھیل کود کرتے ، خوشیاں مناتے اور لہو و لعب سے لطف اندوز ہوتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے فروکش ہوئے اور یہاں والوں کو عید و خوشیاں مناتے ہوئے اور اس میں کھیل کود اور لہو و لعب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دو دنوں کو اس سے بہتر دنوں سے تبدیل کردیا ہے اور وہ ہے عید الفطر و عید الاضحی ۔ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۹۷۲)
یہ دونوں عیدیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشی و مسرت و شادمانی کے اظہار ، باہمی میل جول اور اُلفت و محبت کے رشتوں کو جوڑنے اور ایمانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے ہیں کہ ہم ان ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کریں ، رحم وکرم کا سلوک کریں ، اُخوت و بھائی چارگی کو پروان چڑھائیں ، قلوب کو رنجشوں و کدورتوں سے پاک کریں ، تعلقات میں اگر تلخی و بگاڑ ہو ، قرابت و رشتہ داریوں میں اگر دوری ہو ، ہم اگر پھوٹ و افتراق کا شکار ہوں تو اس عید کے موقع پر اس کا خاتمہ کریں ، دلوں کو صاف کریں ، عزیز و اقارب اور عام برادرانِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں ، اُلفت و محبت کا اظہار کریں ، ان میں خوشی و مسرت اور فرحت وشادمانی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔
اس سال ہماری عید لاک ڈاؤن اور مصنوعی وباء کرونا کے سائے میں آئی ہے جس کی وجہ سے ہم عید گاہ میں نماز عید ادا کرنے سے عاجز اور عزیز و اقارب اور اہل تعلق سے ملنے اور ان کی ضیافت کرنے سے قاصر ہیں ، اور رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہم نے اسی طرح تنہائی میں گزارا ہے ، ہمیں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت مسجدوں کی رونقوں سے محروم رکھا گیا ، مساجد کی باجماعت تراویح اور چہل پہل سے ہم دُور رہے ، اور اس تنہائی اور بے کسی کے عالم میں ہماری یہ عید آئی ہے جو اصل میں روزے کا صلہ ہے ، اس وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُمت مسلمہ کی عید لباس و زینت ، ظاہری چمک دمک ، فرحت و انبساط کے اظہار اور خوشی و مسرت میں مست ہونے سے عبارت نہیں ؛ بلکہ درحقیقت ہماری یہ عید آپسی رشتوں کو جوڑنے ، بھائی چارگی کو فروغ دینے ، غریبوں و مسکینوں کا خیال رکھنے ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اور سماج کے تمام طبقوں کے ساتھ ہمدردی و یگانگت اختیار کرنے کا موقع ہے ، اس وباء اور لاک ڈاؤن کے سائے میں ہماری یہ عید ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اونچے اوصاف و اخلاق اور اعلیٰ کردار سے متصف ہوں ، اونچ نیچ اور اظہار برتری سے دور ہوں ، ہم دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کریں ، اپنے دلوں کو اللہ کے سامنے جھکانے پر توجہ دیں ، ہماری زبان پر حمد و ثنا جاری ہو ، ہمارے اعضائے جسمانی اللہ کا شکر بجالانے کی سعی کریں ، یہاں تک کہ ہم اسلام کی ان تعلیمات کی سچی تصویر بن جائیں جن میں اسلام نے ہمیں بخل و لالچ کرنے ، بغض و حسد کا شکار ہونے اور عداوت و منافرت کو جگہ دینے سے منع کیا اور رنجش و کدورت رکھنے اور افتراق و انتشار کا ذریعہ بننے پر متنبہ کیا ہے ۔
اس خوشی کے موقع پر اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم بطور خاص اس موقع پر فقراء و مساکین کا خیا ل رکھیں ، غریبوں و ناداروں کی حاجت روائی کریں ، دل کھول کر صدقہ و خیرات کے ذریعہ ان پر انفاق کریں ، یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کریں اور عید سے پہلے ہی صدقۂ فطر غریبوں تک پہنچادیں ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(آخری عشرہ میں) جب قدر کی رات آتی ہے تو جبرئیل امین فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والے ہر قیام و قعود کی حالت میں موجود شخص کے لئے دُعاء مغفرت و رحمت کرتے ہیں اور جب عید کا دن یعنی رمضان کے ختم پر روزہ نہ رکھنے کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان روزہ سے فراغت پانے والوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے اور ان سے پوچھتے ہیں ، ایسے مزدور کی مزدوری کیا ہوسکتی ہے ، جس نے اپنا کام عمدگی کے ساتھ پورا کرلیا ، فرشتے جواب دیتے ہیں ، اے میرے پروردگار ! ان کی مزدوری یہی ہوسکتی ہے کہ انھیں پورا پورا بدلہ و مزدوری دی جائے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، میرے فرشتو ! میرے بندوں و باندیوں نے اس فریضے کو ادا کردیا ہے جو میری طرف سے ان پر لازم کیا گیا تھا ، پھر دُعاء کرنے کے لئے یہ جوق درجوق نکلے ہیں ، میری عزت ، میرے جلال ، میرے کرم ، میری عظمت و برتری اور میرے بلند مقام کی قسم میں ان کی دُعاء ضرور قبول کروں گا ، پھر اللہ تعالیٰ ان روزہ رکھنے کے بعد عید کی نماز پڑھنے والوں سے کہیں گے : تم لوٹ جاؤ میں نے تمہاری مغفرت کردی اور تیرے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیا ہے ، تو وہ اپنے گھروں کو اس طرح لوٹیں گے کہ ان کی مغفرت ہوچکی ہوگی ۔ ( شعب الاایمان ، بیہقی : ۳؍۴۳۴ ، حدیث نمبر : ۱۷)
واقعہ یہ ہے کہ عید تو درحقیقت اللہ کی طرف سے انعامات تقسیم کرنے کا دن ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رمضان کی آخری رات ( عید کی رات ) میں اُمت کی عام مغفرت کی جاتی ہے تو صحابہ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب قدر کو ہے اے اللہ کے رسول ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں مگر مزدور جب اپنا کام پورا کرلیتا ہے تو اسے پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے ۔ ( مسند احمد : ۲؍۲۵۲)
ہمیں خوشی اس لئے منانے کے لئے کہا گیا ہے کہ ہمیں رمضان کے روزے رکھنے ، قیام لیل کرنے اور عبادتوں و تلاوتوں میں مشغول رہنے کی توفیق ملی اور اجر و ثواب کو سمیٹنے اور اس کے خیر و برکت سے مستفید ہونے کا موقع ملا ، جس پر جتنی خوشی منائی جائے کم ہے ، اسی شکرانے کے طورپر ہم عید کی دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں ، اسلام نے عید منانے اور خوشی کا اظہار کرنے کا طریقہ ہمیں بتادیا ہے ، ہماری عید غیر مسلموں کے تہواروں اور عیدوں کی طرح نہیں ، ہماری عید رقص و سرور ، گانے بجانے کی تقریب نہیں ، ہماری عید ، اہل خانہ اور بال بچوں کی خوشیوں تک محدود نہیں ؛ بلکہ ہماری عید سراپا پیغام اور دعوت و موعظت ہے ، ہماری عید وحدت و اجتماعیت کی نقیب ، عبادت و بندگی اور طاعت و فرمانبرداری کی علامت ہے ، اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ سراسر حرماں نصیبی ، حسرت و ندامت اور خود غرضی ہے ۔
ہماری یہ عید ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ ہمیں صرف اپنی اور افراد خانہ ہی کی فکر نہیں ہونی چاہئے ؛ بلکہ پوری اُمت مسلمہ اورپورے سماج کی فکر کرنی چاہئے ، اسلام نے ہمیں بتایا اور سکھایا ہے کہ وہ خوشی خوشی نہیں جس میں سماج کے تمام طبقوں کو شامل نہ کیا جائے ، اسلام یہ پسند نہیں کرتا کہ ایک کے گھر خوشی و مسرت کے چراغاں ہوں اور اور دوسرے غم و اندوہ کی تاریکیوں میں ڈوبے رہیں ، کسی کے یہاں شہنائیاں بجیں اور کسی کے یہاں ماتم و تازیانہ ہو ، کہیں پرتکلف دعوتیں اور انواع و اقسام کے چنے دسترخوان ہوں اورکہیں بچے ایک لقمے کے لئے ترس رہے اور ان کے چہروں پر مُردنی چھائی ہو؛ بلکہ اسلام نے تاکید کی ہے کہ عید کی اس خوشی میں سب کے سب شریک ہوں ، امیر و مالدار غریبوں کا خیال رکھیں ، ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچے تو خوشی و مسرت سے سرشار ہوں اور پڑوسی کے بچے حسرت و یاس کی تصویر بنے رہیں اور اپنی زندگی و وجود پر نالاں اور اللہ سے شاکی ہوں ۔
اسی عظیم مقصد کے تحت اسلام نے مسلمانوں پر صدقہ فطر کو واجب قرار دیا اور اسے نماز عید سے پہلے پہلے غریبوں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ، افسوس کہ ہم نے اپنے دین و مذہب کی ان ہدایتوں کو فراموش کردیا ہے ، ہمارے پڑوس ، محلے ، اور بستی میں اپنے بچوں جیسا ہی دل اور شوق و ارمان رکھنے والے بچے بھی ہیں جن کی ناز برداری کرنے والے ماں باپ یا تو اس دنیا میں نہیں رہے ، یا ہیں تو مگر وہ اپنے بچوں کی اُمنگوں و ارمانوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں ، دوسری طرف ہم اپنی عید کی خوشیوں میں مگن ہیں ، ان کی طرف کبھی نظر التفات ڈالنے کی زحمت نہیں کی ، ان کی حسرت و یاس کی پرواہ نہیں کی ، جب کہ عید جس طرح ہمارے گھر آئی ہے ان کے گھروں میں بھی آئی ہے ۔
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری عید اسی وقت عید اور عمل مقبول ہوسکتی ہے جب کہ ہم ان غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں ، مزدوروں اوربیکسوں کی عید کو اپنی عید بنائیں ، اپنی عید کی تیاری سے پہلے قرب و جوار اور معاشرہ کے کمزور طبقہ اور پریشان حال لوگوں کو عید کی خوشی دینے کا انتظام کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے عید ہمیں اس لئے نہیں دی ہے کہ ہم اپنی صحت و فراخی ، دولت و ثروت ، جاہ ومنصب اور وجاہت و منزلت پر اِترائیں ؛ بلکہ اللہ نے ہمیں اس لئے دی ہے کہ اس دن ہم عاجزی و فروتنی اختیار کریں ، ناداروں کی داد رسی کریں ، بے کسوں کی مدد کریں ، بیماروں کی اعانت کریں ۔
ہم اگر واقعی عید منانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے محتاجوں کی حاجت روائی کریں ، لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کریں ، فاقہ کش مزدور ہوں یا کوئی اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کریں ، عید صرف نئے لباس پہننے کا نام نہیں ؛ بلکہ عظیم پیغام اور دوسروں کے کام آنے کا نام ہے ۔
بڑی محرومی و بدنصیبی کی بات ہے کہ عید کی اس رات میں ایک طرف تو اللہ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور مغفرت کا دروازہ کھول دیا جاتا اور عام مغفرت کا مسلسل اعلان کیا جاتا اور معمولی سی طلب پر بھی ہماری مغفرت کردی جاتی ہے ، اور پورے رمضان کے شب وروز میں جتنے لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ صرف ایک رات شب عید میں مغفرت کی جاتی ہے ، جو پورے رمضان کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ، مگر ہماری اکثریت اس سے محروم رہتی ہے ، ہمارے نوجوان اس رات میں بھی فحاشی و عریانیت اور لہب و لعب میں پڑکر ثواب لوٹنے کی بجائے گناہوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے مرد و زن کے اختلاط والی بازاروں کی بھیڑ میں تو وہ نہیں جاسکتے ، تفریحی پروگراموں کا انعقاد تو نہیں کرسکتے ، ہوٹلوں میں بیٹھ کر دل لگی میں رات تو نہیں گزار سکتے ، مگر چوںکہ یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ، اس لئے سارے گناہ کے کام اور معاصی کے مواقع ان کے ہاتھوں میں آگئے ہیں اور اس بابرکت رات میں بھی بہت سے محروم القسمت بندے لغویات و فضولیات میں مشغول رہتے ہیں ، سیریلوں اور سنیما بینی میں رات گذارتے اور اسی طرح کے مشاغل عصیاں میں مصروف رہتے ہیں ، ہمارا یہ طرز عمل بڑا بدبختانہ ہے ، اس طرح ہم گھاٹے کا سودا کرنے والے اور گویا اپنی محرومی و نامرادی پر خوشیاں منانے والے ہیں :
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
پورے رمضان سے بڑھ کر ہمیں اس شب میں عبادت اور دُعاؤں میں مشغول رہنا چاہئے ، اس کے خیر و برکت اور موقعہ استجابت کو غنیمت جاننا چاہئے ، ہمیں اپنی عید کو یہود و نصاریٰ اور غیر مسلموں جیسی عید نہیں بنانی چاہئے جو محض لہو و لعب اور معاصی و آثام سے عبارت ہے ؛ بلکہ ہمیں اپنی عید عبادت کے طورپر گزارنی چاہئے اور بطور خاص بیوی بچوں کے ساتھ توسع و کشادگی کا معاملہ کرنا چاہئے ۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، جب کہ دو نابالغ بچیاں میرے پاس جنگ یعاث سے متعلق اشعار گارہی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر دوسری طرف رُخ کرکے لیٹ گئے ، پھر ابوبکر صدیقؓ آئے اور مجھے جھڑکا اور کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پس شیطان کی بانسری یا شیطانی گیت ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف رُخ کیا اور فرمایا : انھیں گاتے ہوئے چھوڑ دو ۔
یہ تو بخاری کی حدیث نمبر: ۹۲۱ میں ہے اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت و گنجائش ہے اور میں دین حنیف کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں ۔ ( مسند احمد : ۲۹۳۳۰)

٭٭٭

Comments are closed.