مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ: عبقری عالم دین اور بے باک قائد

از: خورشید عالم داؤد قاسمی
عبقری عالم دین:
ہندوستان کی علمی، فکری، دینی اور سماجی تاریخ میں مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کا نام ایک روشن ستارے کی مانند چمکتا رہے گا۔ وہ ایک عبقری عالم دین تھے۔ انھوں نے کئی میدانوں میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ علم و فکر کے اعتبار سے مولانا رحمانیؒ ہندوستان کی ان ممتاز شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے جنھوں نے نہ صرف مذہبی حلقوں میں؛ بلکہ قومی سطح پر بھی ایک واضح شناخت قائم کی۔ وہ ایک باصلاحیت عالم، ذکی و ذہین، بے باک قائد، خطیب، کہنہ مشق قلم کار، منصوبہ ساز اور جدید تقاضوں سے باخبر دانشور تھے۔ خواہ علمی اور دینی حلقے ہوں، خانقاہی مجالس ہوں یا سماجی اور سیاسی فورم، مولانا کا وجود ہر جگہ مرکزِ توجہ رہتا۔ان کی گفتگو میں ایسی جاذبیت تھی کہ سامعین دم بخود ہو جاتے اور ان کی تحریر قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی۔ مدارس و مکاتب میں جب بھی کوئی نیا تعلیمی یا اصلاحی منصوبہ زیر غور آتا، یاہندوستان کی پارلیمنٹ میں کوئی اہم بل پیش کیا جاتا، مولانا اس کا گہرائی سے مطالعہ کرتے، اس پر غور و فکر کرتے اور پھر نہایت مدلل اور بصیرت افروز انداز میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے۔
ولادت اور خاندانی پس منظر:
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کا تعلق برصغیر کے ایک علمی، دینی، فکری اور اصلاحی خانوادے سے تھا۔ آپ کی ولادت5/جون 1943ء کومونگیر کے اسی خانوادے میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی، حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانیؒ، برصغیر کے ان علماء میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے دینی قیادت، سماجی اصلاح، فقہی بصیرت اور سیاسی رہنمائی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے چوتھے امیر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری کے طور پر ان کی خدمات تاریخی اہمیت رکھتی ہیں۔ آپ کے دادا، حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے بانیوں میں شامل تھے اور ان کی کاوشوں سے دار العلوم ندوۃ العلما ایک فکری و تربیتی مرکز بن کر ابھرا، جس نے اسلامی علوم و فنون کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی قابلِ قدر کوشش کی۔ ایسے عظیم علمی خانوادے میں پرورش پانے والے مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے بچپن ہی سے علم و حکمت، دین و تقویٰ اور قیادت وسیادت کی فضا میں سانس لی۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانیؒ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اُن کے والدِ گرامی کی نگرانی میں ہوئی۔ انھوں نے مقامی پرائمری اسکول میں پانچویں جماعت تک کی تعلیم مکمل کی۔ اس زمارے میں حکومت بہار نے پانچویں جماعت کے ممتاز طلبہ کا مقابلہ جاتی امتحان کروایا، جس میں آپ پورے بہار میں اول پوزیشن سے کامیاب ہوئے۔اس کے بعد، آپ نے جامعہ رحمانی، مونگیر میں باقاعدہ دینی تعلیم کا آغاز کیا۔
جامعہ رحمانی، مونگیر میں، ہدایۃ وغیرہ کی تعلیم مکمل کرنے کےبعد، مولانا رحمانی کو دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ بھیجا گیا۔وہاں آپ کو عربی ادب اور دینی افکار کے میدان میں بصیرت حاصل ہوئی۔ ندوہ کے ماحول میں ایک سال مکمل کرنے کے بعد، آپ نے دار العلوم، دیوبند کا رخ کیا اور اس علمی مرکز کے بلند علمی معیار سے استفادہ کیا۔ آپ نے دار العلوم ندوۃ العلما میں حضرت مولانامحمد اویس نگرامیؒ اور حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی سے استفادہ کیا اور دار العلوم دیوبند میں حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی متاثر ہوئے۔ آپ نے سن 1964 ء میں دار العلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی۔ سن 1967ء میں آپ جامعہ رحمانی کے استاذ مقرر ہوئے۔ آپ نے مختلف علوم وفنون کی کتابوں کی تدریس کے ساتھ فتوی نویسی کا فريضہ بھی انجام دیا۔ پھر یہ تدریسی سلسلہ سن 1977 تک جاری رہا۔
مولانا رحمانیؒ نہ صرف دینی علوم میں ماہر تھے؛ بلکہ عصری علوم، سیاسیات، ملکی معاملات اوربین الاقوامی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کا انداز فکر وسیع، تجزیہ عمیق اور مشاہدہ نہایت باریک بیں تھا۔ دینی علوم اور سیاسی شعور کا یہی امتزاج انھیں معاصر علماء میں ایک منفرد مقام عطا کرتا تھا۔آپ نے بہار کی سیاست میں بھی بھرپور نمائندگی کی۔ آپ سن 1974 سے سن 1996 تک بہار ودھان سبھا کے رکن رہے اوردوبار بہار ودھان سبھا میں ڈپٹی چیرمین بھی رہے۔
خانقاہ رحمانی کی سجادگی اور روحانی قیادت:
حضرت مولانا رحمانیؒ کا کردار روحانیت اور تصوف کے شعبے میں بھی نہایت مؤثر رہا۔ آپ اپنے والدِ گرامیؒ کے انتقال کے بعد،سن 1991ء میں خانقاہِ رحمانی کے سجادہ نشیں بنے۔ انھوں نے اس عظیم روحانی امانت کو سنبھالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ان کی مجلس ذکر و فکر اور وعظ و ارشاد کا مرکز تھی۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے تشنگانِ طریقت آپ کی خانقاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی مجلسِ اصلاح سے فیض یاب ہوتے۔ ان کی خانقاہ میں دین و شریعت کی مکمل پاسداری، اصلاحِ باطن، اخلاقی تربیت اور عملی تزکیہ کو بنیاد بنایا گیا۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کی زندگی میں روحانی انقلاب برپا کیا اور انھیں غفلت اور دنیا پرستی سے نکال کر، اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا راستہ دکھایا۔ آپ کےہاتھ پر سینکڑوں افراد نے اصلاحِ نفس اور سلوکِ طریقت کی بیعت کی، جن میں سے کئی ایک کو آپ نے خلافت سے بھی نوازا۔
رحمانی 30 کا انقلابی منصوبہ:
حضرت مولانا رحمانیؒ ایک فعال منتظم اور بہترین منصوبہ ساز تھے۔ان کی فکری اور تنظیمی زندگی کا ایک تابناک باب رحمانی فاؤنڈیشن رہا۔ پھر انھوں نے سن 2008 میں،رحمانی پروگرام آف ایکسی لینس کے تحت”رحمانی 30″ قائم کیا، جو ان کی دور اندیشی اور تعلیمی انقلاب کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس منفرد تعلیمی منصوبے نے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگی کا رخ بدل دیا اور انھیں تعلیمی کامیابی کے ساتھ ساتھ عزت و اعتماد اور قیادت کا شعور بھی عطا کیا۔یہ ادارہ ذہین اور قابل؛ مگر معاشی لحاظ سے محروم مسلم طلبہ کے لیے ایک امید کی کرن بن کر ابھرا۔ اس ادارے میں طلبہ کو ملک کے مقابلہ جاتی امتحانات، جیسے: این ای ای ٹی، جے ای ای، آئی آئی ٹی، این آئی ٹی ، سی اے، سی ایس وغیرہ کی اعلیٰ تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے مراکز ہندوستان کے مختلف شہروں، مثلا: جہاں آباد، پٹنہ، حیدرآباد، کرناٹک، مہاراشٹر وغیرہ میں ہیں۔ اس منصوبے کے تحت پورے ملک سے منتخب ذہین طلبہ کو داخلہ دیا جاتا، انھیں مکمل رہائش، تعلیم، کھانا اور تربیت مہیا کی جاتی اور ان کی ہمہ جہت نشوونما کا خیال رکھا جاتا۔ مولانا کی یہ تعلیمی خدمت اس بات کی گواہی ہے کہ وہ خانقاہ کے پیر و مرشد ہونے کے ساتھ، ملت کے رہنما تھے؛ بلکہ وہ نئی نسل کے معمار اور سماجی تبدیلی کے داعی بھی تھے۔ آپ کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں، کولمبیویونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔
امارت شرعیہ کی امارت:
سن 2005ء میں، مولانا رحمانی امارت شرعیہ جیسے عظیم الشان ادارے کے نائب امیر نامزد ہوئے اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی وفات کے بعد، آپ نومبر 2015 میں، امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے امیر منتخب ہوئے۔ آپ نے یہ ذمہ داری پورے وقار کے ساتھ نبھائی۔ آپ کی مدت امارت بہت مختصر رہی؛ مگر اس مختصر مدت میں آپ نے امارت شرعیہ کے استحکام کے لیے متعدد اقدام اٹھائے۔ آپ نے امارت شرعیہ کے تحت قائم اداروں کو مضبوط کیا۔ آپ نے تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لیے ہر ضلع میں صدر، سکریٹری اور فعال کمیٹی کا انتخاب کروایا۔آپ نے متعدد مبلغین کی بحالی کی۔آپ امارت کے کام کو وسعت دینے کے لیے بہار کے متعدد اضلاع کا دورہ کرکے، ہر ضلع میں چند دنوں قیام کیا اور اہم لوگوں سے ملاقات کی۔ تعلیمی میدان میں امارت کو آگے بڑھانے کے لیے آپ نے امارت پبلک اسکول کا آغاز کیا۔رانچی امارت انٹرنیشنل اسکول قائم کیا گیا۔ امارت کے تحت چل رہے تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے لیے مناسب اقدامات کے گئے۔ اس طرح اور بھی متعدد کام آپ کی امارت میں انجام پائے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مولانا رحمانیؒ:
مولانا رحمانیؒ کی قیادت کا ایک یادگار باب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ ہے۔ حضرت مولانا سید نظام الدینؒ کے انتقال کے بعد، اربابِ حل و عقد نے مولانا رحمانیؒ کو بورڈ کا تیسرا جنرل سکریٹری منتخب کیا۔ یہ انتخاب ان کی دینی بصیرت، تنظیمی صلاحیت، ملی شعور اور شریعت کے تحفظ کے حوالے سے ان کے اخلاص و جرأت کا اعتراف تھا۔ مولانا نے اس عظیم منصب کو ملت کی امانت اور دینی قیادت کے ایک عظیم فریضے کے طور پر نبھایا۔ انھوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ کو نئی توانائی بخشی اور اسے شرعی مسائل میں رہنمائی کا مؤثر پلیٹ فارم بنایا۔ خصوصاً تین طلاق کے مسئلے میں مولانا کی خدمات نہایت قابل ذکر اور تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت ابھرا جب ملک کی فضا شریعتِ اسلامی کے خلاف شدید پروپیگنڈہ سے آلودہ ہو چکی تھی اور حکومت کی جانب سے "طلاقِ ثلاثہ بل” کے ذریعے مسلمانوں کے عائلی قوانین میں مداخلت کی کوشش کی جارہی تھی۔ ایسے نازک وقت میں مولانا رحمانیؒ نے نہایت جرأت مندی اور دانشمندی کے ساتھ ملت کی قیادت کی۔ انھوں نے نہ صرف علمی و قانونی محاذ پر مضبوط موقف اختیار کیا؛ بلکہ عوامی بیداری اور خواتین کی رہنمائی، جیسے تمام محاذوں پر بورڈ کو فعال رکھا۔ یہ مولانا کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اس سنگین مسئلے پر ملتِ اسلامیہ ہند کے تمام مکاتبِ فکر، دینی ادارے، علماء کرام اور خواتین بورڈ کے موقف کے ساتھ کھڑی رہیں۔آپ نے تین طلاق کے حوالےدستخطی مہم شروع کی اور لاکھوں مردو خواتین کے دستخط کرواکے، وزارت قانون اورلا کمیشن آف انڈیا کی دفاتر کو بھیجے گئے۔ پھر انھوں نے ملک کے مختلف خطے میں احتجاجی مظاہرے کی کال دی، جس میں ہندوستانی مسلمان کندھے سے کندھا ملاکر، حکومت کے خلاف جمہوری طریقے سے مظاہرے کیے۔ عورتوں نے بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب ممبئی کے آزاد میدان میں مظاہرہ ہوا، اس روز تو ممبئی کے ایک ایک گھر کی خاتون آزاد میدان پہنچ گئی۔ اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آیا؛ لیکن مولانا کی قیادت میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی ساتھ اٹھایا اور آخری وقت تک لڑائی جاری رکھی۔
خطابت اور تحریر :
اللہ تعالی نے حضرت مولانا رحمانیؒ کوگوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک مفکر، مؤثر خطیب اور صاحبِ طرز قلمکار تھے۔ وہ جب بولتے تو الفاظ ترتیب میں ڈھل کر دلوں پر اثر انداز ہوتے۔ ان کے خطبات میں فکر کی گہرائی، اندازِ بیان کی شستگی اور حالاتِ حاضرہ سے ہم آہنگی کا نادر امتزاج نظر آتا۔ ان کے خطاب محض روایتی وعظ نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ وہ دین کی تعبیر کو وقت کے تناظر میں پیش کرتے۔ ان کی آواز میں اتار چڑھاؤ، الفاظ کا انتخاب اورموضوع کی ترتیب سننے والے کو محو کر دیتی۔
مولانا رحمانیؒ کی تحریر ان کے فکر کی عکاسی کرتی تھی۔ ان کا قلم ایک سوچ اور پیغام تھا۔ وہ سن 1967 میں امارت شرعیہ کے ترجمان: ہفت روزہ "نقیب” کے مدیر اعلی منتخب ہوئے اور کئی سالوں تک اس کی ادارت کی۔ انھوں نے سن 1984 میں ایک روزنامہ اخبار بنام: ایثار، پٹنہ سے شروع کیا۔ وہ معاشرتی و تعلیمی اصلاح، ملی قیادت، سیاسی شعور، دینی تشخص اور قومی مسائل پر نہایت مدلل اور بصیرت افروز تحریریں لکھتے تھے۔ جب بھی کوئی ملکی اور ملی مسائل سے متعلق کوئی موضوع ابھرتا، اس پر آپ ایک اہم تحریر کتابچہ کی شکل میں سپرد قلم کردیتے۔ آپ کی چند تصانیف یہ ہیں: بیعت عہد نبوی میں، دینی مدارس میں صنعت و حرفت کی تعلیم، آپ کی منزل یہ ہے، شہنشاہ کونین کے دربار میں،حضرت سجاد: مفکر اسلام، کیا 1857 پہلی جنگ آزادی تھی؟ تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ، لڑکیوں کا قتل عام، ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالتی روایات کے پس منظر میں، یادوں کا کارواں، مسلم پرسنل لا بورڈ اور ہندوستانی قانون، اقلیتوں کی تعلیم حکومت ہند کو چند قانونی اور عملی مشورے، صبح ایک زندہ حقیقت ہے یقینا ہوگی،مجموعہ رسائل رحمانی وغیرہ۔
خاتمہ:
مولانا رحمانیؒ کی زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ تھی۔ ان کی فکر، ان کی قیادت اور ان کے عزم سے پتہ چلتا ہے کہ مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارنی چاہیے؛ بلکہ علم و عمل کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ آج کی دنیا میں جہاں امتِ مسلمہ مختلف علمی، فکری، سماجی اور اخلاقی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ایسے وقت میں مولانا رحمانیؒ جیسی عبقری شخصیت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جارہی ہے؛ مگر اللہ تعالی کی مرضی کہ وہ 3/اپریل 2021 کو، پٹنہ کے ایک اسپتال میں، کورونا کے دوران، اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کی نماز جنازہ مولانامحمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے پڑھائی۔ آپ کو سرکاری اعزاز کے ساتھ مونگیر میں دفن کیا گیا۔ نماز جنازہ میں تقریبا تین لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کریں اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں! آمین!
Comments are closed.