رمضان کی قبولیت کی علامت

مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی
چیر مین انڈین کونسل آف فتوی اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور
عیدکے بعد ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب ہے ۔ان روزوں کو ’’شش عید‘‘ کے روزے اور ’’عیدی کے روزے‘‘ بھی کہتے ہیں۔ان روزوں کی ترغیب وفضیلت پر ایک حدیث مسلم شریف جلد اول صفحہ ۱۷۹ پر آئی ہے۔’’عن أبی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ عنہ انہ حدَّثَہ أنّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ عنہ قال مَن صَام رمضانَ ثمّ أتْبعہ سِتّامِن شوّال کَان کَصِیامِ الدّھر(رواہ مسلم ج:۱ص:۱۷۹) حضرت ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے رکھے ،پھر اس کے بعد چھ روزے شوال کے مہینہ میں رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی طرح ہے ۔
اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمام عمر اپنا یہی معمول رکھے کہ ماہ رمضان کے روزوں کے بعدماہ شوال میں چھ روزے رکھ لیا کرے تو ایسا ہے کہ گویا اس نے تمام عمر روزے رکھے ۔ورنہ ایک سال میں یہ عمل اگر ایک بار ہوا تو سال بھر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے ’’مَن جَاء بِالحَسَنۃِ فلہ عشْرُ اَمثالِھا‘‘یعنی جو ایک نیکی کرے گا وہ دس گنا ثواب پائے گا۔جیسے پانچ وقت کی نماز پڑھنے سے پچاس وقت نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے ۔اسی طرح ماہ رمضان کے روزوں کا ثواب دس ماہ روزے رکھنے کا ہوا۔اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ دن یعنی دوماہ روزہ رکھنے کا ہوا۔اس کا مطلب یہ ہواکہ شوال کے چھ دن کے روزوں کا ثواب بارہ ماہ یعنی ایک سال روزے رکھنے کا ملے گا۔اور اگر تمام عمر اس عمل کو جاری رکھا یعنی ہر سال ایک ماہ (رمضان)اور چھ دن (شوال)کے روزے رکھے جائیں توتمام عمر روزہ دار رہنے کا ثواب ملے گا۔
شارح مسلم امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیںکہ یہ حدیث اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمدرحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی اس بات پر دلیل ہے کہ عید الفطر کے بعد ماہ شوال میں چھ روزے مستحب ہیں ۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ عید کے فوراً بعد یہ چھ روزے مسلسل رکھ لئے جائیں۔لیکن اگر تاخیر کرکے شروع شوال یا اخیر ِشوال میں بھی رکھ لئے جائیںتب ٹھیک ہے۔اس کو وہ فضیلت حاصل ہوجائے گی ،جو حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔
فقہ کی مشہور کتا ب ’’نورالایضاح ‘‘میں صاحب نورالایضاح نے مستحب روزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’احناف کے نزدیک مستحب روزے ہر مہینہ میں تین روزے ہیںاور تین میں بھی بہتر یہ ہے کہ ایام بیض یعنی چاند کی تیرھویں ،چودھویں اور پندرھویں تاریخ میں ہوں،اور پیر اور جمعرات کا روزہ اور شوال کے مہینہ میں چھ روزے ،پھر عید بعد مسلسل ہوں یا نہیں ۔اس میں دونوں قول ہیں۔
حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’لمعات‘‘میں لکھا ہے کہ شوال کے مہینہ میںچھ روزے عید بعد فوراً یا تاخیر سے ،شروع ماہ میں یا اخیر میں جس طرح بھی رکھ لے ،درست ہے۔مگر عید بعد فوراً مسلسل نہ رکھے ۔بلکہ الگ الگ کرکے رکھے توزیادہ اچھا ہے۔تاکہ اہل کتاب سے ظاہری مشابہت بھی لازم نہ آئے کہ انہوں نے رمضان میں کچھ اور روزے بھی ملا دئے تھے۔حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ عید کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزے رکھنا مستحب ہے ،اور ان روزوں کے رکھنے والوںکے لئے گنجائش ہے کہ شوال کے مہینہ میں اپنی سہولت کے مطابق عید کے د وتین دنوں بعد جب چاہے رکھ لے ،اس کو حدیث میں بیان کی گئی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
جب مزدور اپنے کام کو مالک کی مرضی کے مطابق پورا کرتا ہے تو مالک خوش ہوکر اس کو پوری پوری مزدوری ادا کرتا ہے بلکہ بعض اوقات زائد انعام بھی دیتا ہے ۔اسی طرح مالک حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کو جس کے رمضان المبارک کے روزے ،تراویح ،تلاوت ،اذکار وتسبیحات،زکوٰۃ وصدقات اوردیگر عبادات ونوافل کے مجاہدے پسند آگئے ۔االلہ تعالیٰ اس مؤمن کوان اعمال کا پورا اجروثواب عطا فرماتا ہے۔ اورعید کے دن بطور انعام اس کو مغفرت وبخشش اور دنیا وآخرت کے بارے میں دعاؤں کی قَبولیت کے تحفے عنایت فرماکر اس کے لئے تقویٰ والی زندگی کے فیصلے فرمادیتا ہے اور نیک اعمال کی توفیق عطا فرماکر اس کو لباس تقویٰ سے مزین اور آراستہ فرمادیتا ہے۔کیونکہ رمضان روزوں کا دنیا میں ملنے والا پھل اللہ تعالیٰ نے تقویٰ ہی قرار دیا ہے۔’’یا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘۔اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ۔جیسا کہ تم سے پہلے پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ(اور دوزح سے بچ جاؤ)
لھٰذا رمضان کے بعد اگر روزہ دار کی زندگی میں انقلاب صالح پیدا ہوگیا یعنی اگر پہلے وہ متقی وپابند شرع نہیں تھا اور رمضان کے بعد وہ پرہیزگار و دیندار ہوگیا۔اور اگر دیندار تھا ۔اور دینداری وتقویٰ میں ترقی ہوگئی تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے رمضان نے قبولیت کا شرف حاصل کرلیا۔اور عید کے انعامات سے بھی وہ مالا مال ہوا ہے۔جیسے آگ پر دھواں دلالت کرتا ہے اور دھوپ کا پھیلنا اور دنیا کا روشن ہوجاناسورج نکلنے پر علامت ہے ۔بالکل اسی نیک اعمال اور اچھے کاموں کی توفیق مل جانا ۔اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ اس بندۂ مؤمن پر خدا کی رحمت متوجہ ہوئی اور اس کے گناہوں کو معاف کرکے اس کو جہنم سے آزادی نصیب ہوگئی،اس کی مغفرت و بخشش ہوگئی۔
مشائخ کا قول ہے کہ اگر ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہوجائے تو یہ پہلی نماز کے مقبول ہونے کی علامت ہے ۔بس اسی طرح اگر رمضان کے بعد دوسری عبادت کی توفیق نصیب ہوجائے تو رمضان کے مقبول ہونے کی علامت ہے۔اور عید کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی نشانی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔’’والذین جاھَدوافینا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘۔اور جو لوگ ہماری رِضا کے لئے محنت کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہوں پر چلنے کی ہدایت ا ورتوفیق دیتے رہتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ پر ٹھیک ہے کہ رمضان میں زیادہ عبادت کا اہتمام تھا ،تراویح کی بیس رکعات تھیں،اب رمضان کے بعد وہ نہیں ہیں تو دیگر نوافل ہیں ،بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اگر عشاء کے وتر سے پہلے چند رکعات صلاۃ اللیل کی نیت سے پڑھ لیں توپڑھنے والا تہجد کی برکت سے محروم نہیں ہوتا اور یہ ایک حدیث سے بھی ثابت ہے کہ عشاء کے فرض کے بعد جو نفلی طور پر پڑھی جائے وہ صلاۃ اللیل یعنی تہجد میں شمار ہوگی ۔اسی طرح رمضان میںتلاوت کی مقدار زیادہ تھی ،اب اتنی نہیں تو کچھ کم ہی سہی۔لیکن رمضان المبارک کے بعد تمام معمولات کویکسر ختم کردینا صحیح نہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے نفلی عبادتوں کا اہتمام رمضان کے بعد بھی ہونا چاہئے۔اسی طرح معاشرے میں پھیلے ہوئے ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی کریں۔دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے بعد یہ مت سمجھنا کہ اب دعا قبول نہیں ہوگی ،بلکہ جب بھی تم اخلاص کے ساتھ اور دعا کے آداب کے ساتھ دعا مانگو گے تو ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمائے گا ۔گویا رمضان المبارک کے بعد ایک لائحہ عمل کی طرف اشارہ فرمایا۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت سے ہم سب کو ان ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭

Comments are closed.