کوروناتائیوان میں ناکام

سمیع اللہ ملک
تائیوان جوچین کے ساحل سے صرف80کلو میٹردورہے اورجان ہاپکنزیونیورسٹی کے ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ کورونا وائرس سے چین کے بعد سب سے زیادہ تائیوان متاثر ہوگالیکن دنیاحیران ہے کہ نہ لاک ڈاون نہ ایسے ہی دوسرے اقدامات۔عالمی ادارہ صحت کی رکنیت بھی نہیں،اس کے باوجودتائیوان کوروناوائرس کواس طورشکست دینے میں کامیاب رہاہے۔تائیوان کی آبادی2کروڑ40لاکھ ہے۔تائیوان کے4لاکھ باشندے چین میں کام کرتے ہیں۔اپریل کے وسط تک تائیوان میں کورونا وائرس کے صرف 400 کیس سامنے آئیاور صرف6اموات واقع ہوئی۔ تائیوان میں جن400افرادکوکوروناوائرس نے اپنی لپیٹ میں لیاان میں سے بیشترکہیں گئے نہیں تھے یعنی یہ وائرس اندرونی سطح پر پھیلا۔تائیوان کی حکومت نے لاک ڈاون متعارف کرایا نہ اِسی نوعیت کاکوئی اورانتہائی اقدام کیا۔سب کچھ چلتارہامگرکورونانے تباہی نہیں مچائی،کیوں؟یہ سوال بہت اہم ہے۔کیا تائیوان نے کوئی ایساطریقہ اختیارکیاجوباقی دنیاکومعلوم نہ تھا۔تائیوان کیسے بچ گیا؟
امریکانے کوروناسے نمٹنے کیلئیسخت ترین اقدامات کیے۔ لاک ڈاون نافذ کرکے پوری قوم کوقرنطینہ کردیاگیا۔معیشت کاپہیہ رک گیا۔یہ معاملہ پوری دنیاکاہے۔اب امریکی قیادت عالمی ادارہ صحت کوخداحافظ کہنے کے بارے میں غورکررہی ہے۔تائیوان تواس عالمی ادارے کارکن ہے ہی نہیں۔تائیوان کوعالمی ادارہ صحت کی رکنیت اس لیے نہیں دی گئی کہ چینی قیادت تائیوان کوباغی،الگ ہوجانے والاصوبہ قراردیتی ہے۔
کیاتائیوان کوپہلے سے اندازہ تھاکہ کورونایااِس سے ملتی جلتی کوئی وباپھیلے گی؟معاملہ توکچھ ایساہی لگتاہے۔تائپے ٹائمزکے مطابق31دسمبر2019کوتائیوان کی حکومت نے چین کوخبردارکیاکہ کوروناکی وباپھیل سکتی ہے،اس لیے احتیاطی تدابیراختیارکی جائیں۔تب تک چین ایسی کسی وباکے پھیلنے کاامکان مستردکرتاآیاتھا۔تائیوان نے اسی دن سے ہر اس شخص کی نگرانی شروع کردی، جوچین سے واپس آیا۔ساری توجہ اس نکتے پرمرکوزتھی کہ چین سے واپس آنے والاکوئی بھی فردتائیوان میں کورونا وائرس پھیلانے کاسبب نہ بنے۔ تائیوان ان پہلے ممالک میں شامل تھاجنہوں نے چین جانے اورواپسی کے سفرپرپابندی عائدکی۔
2003میں چین سے سارس وباپھیلی تھی۔تائیوان چونکہ اس وباسے نمٹنے میں بھی کامیاب رہاتھااس لیے اسے اچھی طرح اندازہ تھاکہ صحتِ عامہ کے نظام کوکس طورہمہ وقت تیاری کی حالت میں رکھناہے۔چین کے معاملے میں تائیوان غیرمعمولی سطح پرمحتاط رہا۔اسے چین کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت پر بھی بھروسانہ تھا۔اس نے تمام متعلقہ معاملات اورحقائق پرنظررکھی۔ اس نے اپنے تمام منصوبے اپنے حالات اوروسائل کوذہن نشین رکھتے ہوئے تیارکیے۔
امریکااورباقی دنیانے پوری پوری قوم کوقرنطینہ کردیامگرتائیوان کی قیادت نے ایساکچھ بھی نہیں کیا۔ساری توجہ صرف اس نکتے پرمرکوزکی گئی کہ چین سے آنے والوں کوالگ تھلگ رکھا ۔باقی لوگوں کوکام کرنے کی آزادی تھی۔شاپنگ سینٹرکھلے رہے۔فیکٹریاں کام کرتی رہیں۔دفاترمیں بھی حاضری معمول کے مطابق رہی۔ماسک لگانے اورسماجی فاصلہ اختیار کرنے پرضرورغیرمعمولی توجہ دی گئی۔
کوروناکی وبانے بہت کچھ بے نقاب کردیاہے۔دنیابھرمیں صحتِ عامہ کامعیاربلندرکھنے کیلئے ہرسال ہزاروں ارب ڈالرخرچ کیے جاتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں صحتِ عامہ کے حوالے سے ذراذراسی بات کانوٹس لینے کی روایت سی پڑگئی ہے۔ایسے میں کوروناپر قابوپانے کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیاناکامی سے دوچارکیوں ہوئی؟امریکااوریورپ اس وبا کی موثرروک تھام میں اس حدتک ناکام کیوں ہوئے؟کسی نے سوچابھی نہ ہوگاکہ کوئی وبا اتنے بڑے پیمانے پرپھیلے گی اوریوں عالمی معیشت کواپنی گرفت میں لے گی۔ماہرین بہت سے جوازتلاش اوربیان کرسکتے ہیں۔کہاجاسکتاہے کہ طبی ماہرین کے پاس اورکوئی راستہ ہی نہ تھایاتو جانیں بچانے کوترجیح دی جاتی یاپھرمعیشت کی بحالی۔ٹھیک ہے مگرایسے تمام سوالوں کاایک جواب ہے ۔۔۔۔۔۔تائیوان۔
تائیوان چھوٹاساملک ہے مگردنیا کی اکیسویں بڑی معیشت ہے۔قوتِ خرید کے پیمانے پرمعاشی اعتبارسے اس کاانیسواں نمبرہے۔فی کس خام قومی پیداوارکے نقطہ نظرسے تائیوان گیارہویں نمبرپرہے۔اس اعتبار سے وہ سوئیڈن اورڈنمارک سے بھی بہترہے۔تجارت اورسرمایہ کاری کے حوالے سے تائیوان اورچین میں غیرمعمولی اشتراکِ عمل ہے۔تائیوان بہت سے معاملات میں چین کیلئیبینکاری کی خدمات بھی انجام دیتاہے۔چین سے رابطے غیرمعمولی رہے ہیں۔اس کے باوجودکوروناکی وباکے خلاف تائیوان کی کارکردگی انتہائی حیرت انگیزرہی ہے۔دنیابھرمیں کورونا کے مریضوں کاتناسب337فی دس لاکھ ہے جبکہ تائیوان میں یہ تناسب 30 فی دس لاکھ ہے۔
تائیوان کی معیشت بھی متاثرہوئی ہے۔بیرونی تجارت بندہے۔دنیابھرکی معیشتیں رکی ہوئی ہیں اس لیے تائیوان بھی کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگرملک میں سب کچھ
کھلا ہے۔صنعتی اورتجارتی سرگرمیاں جاری رہنے سے اندرون ملک لوگ زیادہ مشکلات سے دوچارنہیں ہوئے۔کوروناکی وباسے بچنے کیلئیدنیانے بہت کچھ کیا،بظاہرکچھ زیادہ نہیں کیاتاہم اِسے مثال نہیں بنایاجاسکتا۔سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ تائیوان میں حقیقی آزادی دکھائی دی ہے۔ کسی پرکوئی بھی حکم مسلط نہیں کیاگیا۔لوگوں نے بہت کچھ رضا کارانہ طورپر کیا۔ماسک کااستعمال بہت بڑے پیمانے پرکیاگیااورسماجی فاصلے کی پالیسی بھی پوری سنجیدگی سے اپنائی گئی۔اب یہ بات صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ2003میںسارس سے نمٹنے کے بعد اپنے تجربے کو بروئے کارلاتے ہوئے تائیوان کی حکومت نے عوام کی قوتِ مدافعت بڑھانے پرخاص توجہ دی۔خطِ استوا کے نزدیک کے ماحول بالخصوص گرمی نے کوروناکی روک تھام میں کلیدی کردارادا کیاہے۔
ویکسین گاڈبل گیٹس اورڈاکٹرفوشی کوتائیوان میں کوروناکی روک تھام کے حوالے سے کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
Comments are closed.