امریکہ نسلی تعصب کی آگ میں جل رہاہے

عبدالرافع رسول
دنیاکے کئی گوشوں میںدل دہلانے والے حزنیہ سانحات برپاکرنے والا ،ہنستی بستی انسانی آبادیوں کوآگ لگاکرخاکستراورملیامیٹ کرنے والا،انسانیت کومرگ انبوہ کاشکارکرنے والا،مسلمانوں پرکہیںخودیلغارکرنے اورکہیں ان کے خلاف نبرآزماطاقتوں کاساتھ دینے والا،مسلمانوں کی کئی مملکتوںپرشب خون مارنے والا،ان کے خلاف مکروفریب چلانے والا، انہیں اپنی حیونی خواہشات کاشکار بنانے والا،ان کے ساتھ بہیمانہ اوروحشیانہ طرزعمل اختیارکرنے والا،ان کے خلاف شدیدترین تعصبات اورجنبہ داریاں رکھنے والا،ان کے ساتھ اہانت آمیز اورذلت آٓمیزطریقے سے پیش آنے والا،خود بدترین ڈکٹیٹر اوربساط ارض پربسنے والے ممالک کوجمہوریت کی نصیحت اورتذکیرکرنے والا،مظلومین کوخاک بسربناکرخون کے آنسورلانے والا،انہیں رنج والم سے دوٓشتہ کرنے والا،ان کی زندگیوں کے چراغ غل کردینے والا،انصاف سے عاری اورظلم ڈھانے والا،امریکاآج ایک تباہ کن ،بدترین،مہیب اورمشکل بحران کی جکڑ میں ہے اورنسلی تعصب کی آگ میں جل رہاہے۔
ایک طرف کروناوائرس کاسارازورامریکیوں کی ہلاکت پرہے اوراس وقت تک جب یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوں ایک لاکھ دس ہزار سے زائدامریکی کوروناوائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انیس لاکھ امریکی کروناسے متاثرہوچکے ہیں۔کرونا سے ہلاکتوں اورمتاثرین کی یہ سب سے زیادہ شرح اوراعدادوشمارہیں جوامریکامیں پائی جارہی ہے اوردنیاکے 200ممالک میں کروناسے ہوئی اموات کی یہ ایک تہائی بنتی ہے!کروناسے امریکی معیشت بدترین جمودکاشکارہوکر برباد ہوچکی ہے اورگذشتہ دوماہ سے اب تک امریکی معیشت کو5 ہزارارب ڈالرسے زائدکانقصان ہوچکاہے جبکہ اس دوران اب تک 4کروڑ سے زائد امریکی بیروزگارہوچکے ہیں۔دوسری طرف سفیدفام امریکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت پرغصے میں بے قابوہوکرلاکھوں سیاہ فام امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہوئے ہیں اورتادم تحریرگذشتہ سات یوم سے زروداراحتجاج کررہے ہیں،اس احتجاج کی شدت اورحدت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اسکے باعث26ریاستوں اور واشنگٹن سمیت 40 بڑے شہروں میں کرفیونافذ کردیاگیاہے ،لیکن کرفیوکوتوڑ کرسیاہ فام ایک آندھی کی طرح تباہی مچائے ہوئے ہیں۔ سیاہ فام عوام نے اپنے ہم رنگ ،ہم جنس اورہم نسل کی ہلاکت پر کئے جانے والے زورداراحتجاج اورمظاہروں کے دوران بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ ،جلائو،گھیرائو اورلوٹ مارکاسلسلہ جاری ہے انہیں جہاں کہیں بھی پولیس کی گاڑیاں نظرآئیں آگ لگاکرانہیں خاکستر کرکے رکھ دیتے ہیں!جسکی وجہ سے پوراامریکہ آگ میں جل رہاہے!آگ ، جلائو گھیرئواورلوٹ مارسے امریکا،امریکانہیں بلکہ افریقہ کااتھوپیاجیساکوئی ملک لگ رہاہے۔دنیاکوجمہوری نظام دے کربرابری کاسبق پڑھانے والے امریکامیں اس کے سفیدفام سیاہ فاموں کے گلے دبادباکرماررہے ہیں۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
ٹرمپ جوخودامریکہ کے ایک نسل پرست صدرکہلائے جاتے ہیں نے اپنے تلخ بیانات سے سیاہ فاموں کے مجروح دلوں پرمرہم رکھنے کے بجائے ان کے زخموں کومذیدادھیڑکررکھ دیا ۔ سیاہ فاموںکواحتجاج کوبزروبازوں شدت کے ساتھ روکنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج بلانے کی دھمکی دی ہے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر شہر اور ریاستیں مظاہروں پر قابو پانے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے تو وہ فوج کو تعینات کردیں گے اور ان کے مسئلے کو جلد ہی حل کر دیں گے۔جمعہ 28مئی کوٹرمپ کی مظاہرین کودی گئی دھمکی پرمشتعل مظاہرین کے ایک بڑے اژدھام نے وائٹ ہائوس کا گھیرائوکررکھاہے تووائٹ ہائوس کی اسپشل فورس نے صدر ٹرمپ کووائٹ ہائوس کے تہہ خانے میں موجود ایک بنکرمیں مسلسل کئی گھنٹوں تک پناہ میں رکھا،امریکی صدرکوچھپاکررکھ دیا! بساط ارض پراپنی جھوٹی جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے والے امریکہ میں سفیدفاموں کے دلوںمیںسیاہ فام عوام کے خلاف ایک نفرت پائی جارہی ہے کس کے مظاہرمسلسل دیکھنے میں آرہے ہیں اوراس حوالے سے سفیدفام پولیس کی بربریت کے شکارہونے کے مسلسل واقعات رونماہورہے ہیں۔اس نسلی امتیازاورتعصب نے امریکہ کواندرسے پوری طرح کھوکھلابنادیاہے اوراخلاقی طورپرامریکی قعرمذلت کے اندھیروں میں لڑھکتاچلاجارہاہے۔
امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ زبان زدِ عام ہے۔ دنیا میں اس سے زیادہ نفرت انگیز ملک بھی اس وقت اور کوئی نہیں۔امریکہ پوری دنیاپراپنی چوہدراہٹ قائم کرنے،اپنی دھاگ بٹھانے اوررعب جمانے کے خناس میں مبتلاہے۔لیکن اس کی ظالمانہ اورغیرمنصفانہ پالیسیوں کی بدولت پوری دنیا اسے ناپسند کرتی۔ اس کی خارجہ پالیسی سے حقیقی معنوں میں ظلم کی گھن آرہی ہے۔ اس کے حکمرانوں کی سوچ کی محدودیت، بدتمیزی کی حد کو پہنچتی ہوئی۔امریکی قیادت کے حوالے سیانسانی ہمدردی، مروت،غمخواری ،دلجوئی ،ترحمی ،عدل وانصاف جیسے الفاظ ایک مضحکہ خیز عجوبہ خیال کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ پوری دنیا میں امریکہ کا شخصی تاثر متوحش اورتنفر کا ایک چکرا دینے والا مجموعہ ہے، اور اگر دنیا میں امریکہ کے بارے میں رائے پوچھی جائے کہ امریکہ اچھاہے یابراتوسب اس کے خلاف نفرت پرمبنی رائے پیش کریں گے۔اس حقیقت کا کچھ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1990 کی مردم شماری میں صرف 6 فیصد امریکیوں نے اپنا نسلی نسب صرف امریکی کے طور پر درج کیا۔ بقیہ چورانوے فیصد کا تعلق ان تارکین وطن سے ہیں کہ جومختلف نسلوں اور گروہوں سے تھا جو گذشتہ دو سو سال کے دوران دنیا کے مختلف خطوں سے نقل مکانی کر کے، ایک نئی زندگی کی تلاش میں امریکہ آئے اور ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1820 سے لے کر اب تک ساڑھے چھ کروڑ تارکین وطن امریکہ کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور صرف 1998 میں 6 لاکھ 60 ہزار افراد نے اس مد میں امریکی آبادی کے حجم میں اضافہ کیا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی آبادی اس وقت 32.8.2ملین یعنی لگ بھگ 33کروڑ سے زائد ہے اور آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت کے بعد یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
ٹرمپ نے سیاہ فام احتجاجی مظاہرین پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ یہ پیشہ ورانہ شر پسندوں اور فاشسٹ مخالف گروہ اینٹیفا (ANTIFA)کے دہشت گردہیںجوامریکہ کی تباہی چاہتے ہیںاور اتوار 31مئی کوٹرمپ نے اینٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ تنظیم 1920 کی دہائی میں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے خلاف قائم ہوئی تھی۔ پھر اس کا دائرہ دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تک پھیل گیا۔ تاہم چند سال میں ہی اس کا وجود ایک طرح سے ختم ہو گیا۔ 1960میں یہ تنظیم یورپ میں ایک بار پھر منظرعام پر آئی اور 1970 کی دہائی میں امریکہ پہنچ گئی۔ اس تنظیم سے وابستہ لوگوں کی اکثریت سوشلٹسوں، انارکسٹسوں اور کمیونسٹسوں پرمشتمل ہے جو خود کو جبرکے خلاف انقلابی کہتے ہیں۔اینٹی فا فسطائیت کے خلاف قدم لینے والی ایک احتجاجی تحریک ہے جو نازی خیالات، سفید فام نسل پرستی کی بالا دستی کے پیرو کار اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔اس تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی مرکزی رہنما نہیں ہے اور وہ آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے نسل پرستانہ رویے اور جنس پر مبنی تعصب کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک تارکین وطن اور مسلمان مخالف پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہے جو صدر ٹرمپ کے دور میں نافذ کی گئی ہیں۔حکومت مخالف اور سرمایہ دارانا نظام مخالف خیالات رکھنے والی تحریک کے اراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتشار پسندوں سے زیادہ متاثر ہیں بجائے بائیں بازو کی جماعتوں کے۔اس تحریک کا ذکر امریکہ میں بڑے پیمانے پر دوبارہ تین سال قبل اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں سفید فام نسل کی بالادستی کے لیے نکالی جانے ریلی کی مخالفت کی تھی۔
ویسے تو نسلی بھیدو بھائو ہمیشہ امریکہ میں رہا اور اسکا شکار سیاہ فام امریکی باشندے وقتا فوقتا ہوتے رہے ہیں، مگر کورونا کے آنے سے سیاہ و سفید کے درمیان موجود تعصب کی خلیج مزید آشکار ہو گئی ہے۔امریکہ میں قریب چار کروڑ سیاہ فام امریکی شہری موجود ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد کو امتیازی سلوک اور نسلی بھید بھا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں حفظان صحت کے وسائل و ذرائع کے علاوہ بیمہ کی سہولت کے تعلق سے بھی سخت دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔کچھ عرصے قبل برطانوی اخبار انڈیپینڈینٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ فاش کیا تھا کہ امریکی ریاست شیکاگو میں کورونا کے باعث جاں بحق ہونے والوں میں ستر فیصد سیاہ فام ہیں۔ انڈیپینڈینٹ کے مطابق امریکہ میں سیاہ فام برادری دیگر تمام سماجی طبقوں سے سات گنا زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہو رہی ہے اور اسکی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ معمولا افریقی نسل کے امریکی باشندے مشرقی اور مرکزی امریکہ میں کارخانوں اور صنعتی مراکز میں کام کرتے ہیں جس کے سبب وہ اپنی زندگی چلانے کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔
امریکہ میں برابری اور مساوات کے کھوکلے نعرے کے برخلاف سیاہ فام افراد تیسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں اور انہیں عام طور پر میڈیکل انشوریشن کی صرف ابتدائی سہولتیں ہی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو میڈیکل انشورینس سے مکمل طور پر محروم ہے۔میناپولس کے سابق پولیس اہلکار پر پولیس کی حراست میں 46 سالہ مسٹر فلائیڈ کے قتل کی وجہ سے فرد جرم عائد کی گئی ہے۔44 سفید فام ڈیرک چان کو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کئی منٹ تک مقتول فلوئڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے رکھے۔ تب بھی جب فلئڈ نے انھیں بتایا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہے۔
آخرپرامریکہ میں پائے جانے والے نسلی امتیازاورتعصب کوسمجھنے کے لئے چند برس قبل ہلیری کلنٹن کے اس بیان کا ایک اجمالی تذکرہ ضروری ہے جس میں اس نے امریکی معاشرے کوطشت ازبام کرکے رکھ دیا اس سے امریکی معاشرے کے تلخ حقائق کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور ہمیں امریکی معاشرے کی مضبوطی کا پہلو دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہلیری کا بیان یوں ہے ہم ایک بار پھر سیاہ فام امریکیوں کے چرچ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں ایک بار پھر نسلی امتیاز کے حامیوں نے اسے نسلی تشدد میں تبدیل کردیا ہے۔یہ ہماری وہ تاریخ ہے جو ہم پیچھے چھوڑ کر آگے جانا چاہتے تھے مگر ہم امریکہ میں انقلاب اور نسل کے بار ے میں حقائق کو نہیں چھپاسکتے ہمیں اس کی ذمہ داری لیکر اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ آج بھی کالے امریکیوں کے مقابلے میں گورے امریکیوں کو مکانات کیلئے قرضے تین گنا زیادہ ملتے ہیں۔ آج بھی ہمارے اسکول 1960 کے مقابلے میں کہیں زیادہ نسلی امتیاز کا شکار ہیں اور آج بھی ایک گورے بچے کے مقابلے میں 500 سیاہ فام بچوں کی سانس کی بیماری سے موت کی تلخ حقیقت موجود ہے۔ بطور قوم ہمیں اس حقیقت پر نظر ڈالنا چاہئے۔ ہلیری کلنٹن ، باراک اوباما اس انداز فکر میں اکیلے نہیں بلکہ ان امریکی ریاستوں میں مضبوط اور حکمراں ری پبلکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مٹ رومنی ، ریاست اوہائیو کے گورنر جان رسک سمیت کئی درجن نمایاں لیڈر بھی نسلی امتیاز کی علامت کنفیڈریٹ فلیگ کو ہٹانے اور نسلی مساوات کیلئے آواز اٹھا کر نقصان اٹھا چکے ہیں مگر اپنا موقف رکھتے ہیں۔
Comments are closed.