حکومت کی بْو ہوتی ہے(ناول، مندری والا)

رابعہ الرَبّاء
’’حکومت کی بْو ہوتی ہے۔ جو پھیلتی ہے اور آتی ہے۔ مشام ِ جاں میں سوئیوں کی طرح چبھتی ہے۔ شریانیں اْدھیر دیتی ہے۔ نسلیں پھاڑتی ہے۔ سوچ مفلوج کرتی ہے۔ ضمیر کا گلا گھونٹتی ہے۔قو ی مضحمل کرتی ہے ۔حکومت مردار جسم کی طرح ملک کے تمام شہروں ، گائوں قصبو ں ، کھلیانو ں، صحرائوں ، پہاڑوں ، ندیو ں ، دریائوں اور سمندرو ں میں پڑتی ہوتی ہے۔ کٹی کھوپڑیو ں اورپھٹے پیٹ کے ساتھ ، جس کی انتڑیو ں میں گدھ چونچوںاور پنجوں کے نشترچبھو کر مرا ہوا فضلہ ہو امیں اچھالتے ہیں ۔ حکومت کی بو ہوتی ہے۔جو آتی ہے ۔کھانے نہیں دیتی ، سونے نہیں دیتی، جینے نہیں دیتی۔،،
یہ سب جملے اکثرمیری یاداشت میںبے خود رقص کرتے ہیں۔حکومت کی بو ہوتی ہے۔ اس بو کے خالق ڈاکٹر وحید احمد ہیں ۔ جنہو ں نے ایک عام آد می کی نسبت زیادہ قریب سے اس بو کو محسوس کیا ہے۔ یہ بو ان کے ناول ’’مندری والا،، میں سمائی ہو ئی ہے۔
ناول میچورٹی کی ایک خاص سطح کو چھوتا ہو امحسوس ہوتا ہے ۔ جہا ں خاک اور خمیر ایک دکھائی دیتے ہیں ۔ جہا ں تاریخ برہنہ دکھائی دیتی ہے۔ جس کو انہو ں نے ریشم و اطلس کا لبادہ نہیں پہنایا ۔ جو بو آتی ہے اس کو ویسے ہی پیش کر دیا ہے۔ یوںلگتا ہے جیسے کوئی دیوانہ جنونیت میں پردے چاک کرتا چلا جاتا ہے ۔جس سے اپنا ہی چہرہ دیکھنا دشوار ہو گیا ہے۔
’’قدرت نے انہیں کمیونسٹ ہونے کے باوجود برابری کی بنیاد پر اعضاء عنایت نہیں کئے تھے۔ شاید ضرورت کے مطابق دئیے تھے۔ چنانچہ وہ نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ اور جنسی اعتبار سے سوشلسٹ تھے۔ اذیت کے نت نئے طریقے سوچتے ہوئے ذہین ،اسلحے سے بھری چھولداریاں ، بارودی سرنگیں بچھاتے دستے ،نشے میں اپنی عورتوں کی تصویریں نکال کر روتے ہوئے عشاق، لاشیں ٹھکانے لگاتے ہوئے خاکی گورکن، رنگو ں کی پھواریں،دماغ میں ہولی کھیلتی ہیں،،
’’پکی عمر کے لوگ آخر خود کش حملہ کیو ں نہیں کرتے،،
’’نہیں اجتماعی موت اجتماعی ہے۔ جسم مل کر جھڑتے ہیں اور روحیں مل کر اْٹھتی ہیں،،
کتنا خوبصورت منظرہے ۔ موت کی ساری تنہائی ہی ختم کر دی ہے۔ یہ ناول روایتی نہیں ۔ قاری کو ا س میں غیر روایتی پن کی بو آسکتی ہے۔اس لئے اس کو مروجہ پیمانو ں پہ پرکھنا دشوار ہے ۔سچی سْچی تخلیق یو ں بھی عموماََ غیر راویتی ہو تی ہے۔
حکومت سے بو آتی ہے۔مگر ہم اس کے عادی و فاخر ہو گئے ہیں ۔
’’کئی کامیاب مرد اسمبلی ممبروں کے پیچھے کسی خاتون اور کامیاب خاتون کے پیچھے کسی مرد کا ہاتھ نظر آتا ہے تو چہرو ںپہ معنی خیز مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ شرفابھی اسمبلی ممبر منتخب ہوگئے مگر ان کی حالت دیدنی ہے۔ وہ اس کھیل میںپنجابی کی ایک کہاوت کے مصداق گمشدہ گائے کی طرح ادھر اْدھر دیکھتے رہتے ہیں،،
’’ہمارے قومی ادارے صحرائی مزار کے کیکر پر بندھے پارچوں کی طرح ہیں ۔پہلے جن کا رنگ اڑا اور اب دھجیا ں بکھر رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی سرحدوں میںریت ہے ۔بنیادوں کے پائو ں اْکھڑتے ہیں۔ ملکی سیاست دورافتادہ اور غریب گائو ں کے ا میر جاگیر اور وڈیرے کی بیٹھک ہے۔ جہا ں کارندوں کے ذریعے غریبو ں سے لوٹا گیا سرمایہ اور بنیو ں سے بھیک لیا گیاقرضہ طوائفوں کے سر پر اڑیا جاتا ہے۔ ہمارے جمہوری معمارغیرپیشہ وارانہ اور بے ہنر ہیں ۔ کئی عشرو ں سے تخریبی تعمیرات میں مصروف ہیں ۔ ان کے ہاتھو ں میں کجی ہے۔ عمارت کی بنیاد ٹیڑھی رکھتے ہیں ۔ ،،۔ ’’جن معمارو ں کو واجبی ہنر آتا ہے وہ عمارت کو فالٹ لائن پر بنا کر زلزلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یا دریا کنارے دیوار اٹھا کر سیلاب کا۔ سیاست دان اور فوجی میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ اس کھیل میں عوام کو داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ صدر اور وزرائے اعظم قرآن اورحدیث سے فال نکالتے ہیں۔ عوامی خطاب سے پہلے ان آیات کو منتخب کرتے ہیں جو ان کے عہدوں کی طوالت پر خدائی مہر ثبت کریں ۔ یہا ں اتناگھنائونا مذہبی کھیل کھیلا جارہا ہے کہ تاریخ ِعالم منہ چھپانے کے لئے اندھیرا ڈھونڈتی ہے۔ عجب حادثہ ہے ۔،،
یہ ناول بھی اک عجب حادثہ ہے۔ اس با شعو ر طبقے کے دل کی آواز ہے ۔ جس کی آواز حکومتی گمبھیرتا میں سنائی ہی نہیں دیتی ۔جس کی سوچ کسی کی سوچ سے میل ہی نہیں کھاتی ۔ جو حقیقت میں مستقبل کو کسی ولی کی طرح اپنی بصارت سے دیکھ رہا ہو تا ہے ۔ جس کے لئے غالب انکل نے فرمایا تھا
’’ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔۔ ،،
چلئے ہم کو کیا ، ہم اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے ، انہیں معطر کر کے ، اپنے گھرو ں کے لان اور چھتو ں پہ باربی کیو پارٹیاں انجوائے کرتے ہیں ۔ دماغ پہ چربی چڑھ جانے کا یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسے خیالات منتشر ہو جائیں گے ۔ پھر تمام شہرو ں ،گائو ں، قصبو ں ، کھلیانو ں ، صحرائو ں ، پہاڑوں ، ندیو ں ، دریائو ں اور سمندرو ں سے جتنی مرضی بو آتی رہے ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔
ہمیں مندیاں پہن کر دھمال ڈالنے سے غرض ہے تاکہ پارسائی کی پر سکون اور رنگین چھتری تلے ،سب کا دھندہ قیامت تک چلتا رہے اور ہوش ہی نہ آئے کہ روز قیامتآچکا ہے۔
Comments are closed.