آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
اولاد کے درمیان ناانصافی
سوال:- ایک صاحب کو پانچ لڑکے ہیں ، انہوں نے ایک ہی لڑکے کو پوری جائداد کا مالک بنادیا ہے ، مکان بھی اسی کے نام رجسٹری کرادیا ہے ، کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟ ( رفیق احمد، )
جواب:- اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ماں باپ ان کے درمیان عدل اور برابری سے کام لیں ، اپنی اولاد میں سے ایک کو دینا اور ایک کو محروم کردینا یا ایک کو زیادہ دینا اور ایک کو کم دینا گناہ ہے ، اور اس کو رسول اللہ انے جور یعنی ظلم قرار دیا ہے ، حضرت نعمان بن بشیر ص سے مروی ہے کہ ان کے والد نے انہیں کچھ دینا چاہا ، والدہ کی خواہش تھی کہ وہ اس پر آں حضور ا کو گواہ بنائیں، جب خدمت اقدس میں آئے تو آپ ا نے پوچھا کہ کیا اور لڑکوں کو بھی اسی طرح دیا ہے ؟ عرض کیا : نہیں ، آپ انے فرمایا کہ پھر میں اس ظلم کے کام پر گواہ نہیں بن سکتا (مسلم، حدیث نمبر: ۴۱۷۷) ؛لہذا والدین کو ایسی نا انصافی اور زیادتی سے بچنا چاہئے کہ یہ بات عند اللہ سخت پکڑ کا باعث ہے ۔
ناجائز مال میں میراث
سوال:- ناجائز کمائی کا مال کیا وراثت میں لینا جائز ہے ، ایک شخص کا انتقال ہو گیا ، اس کے بیوی بچے ہیں اور اس نے اچھی خاصی جائداد چھوڑی ہے ، لیکن اس جائداد کا کچھ حصہ ایسے طریقوں سے حاصل کیا گیا ، جن طریقوں کی اسلام میں اجازت نہیں ہے ، اس شخص کے بیوی بچوں کو اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے ، کیا وہ زندہ رہنے کے لیے اس جائداد سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں ؟ ( محمد احمد حسین رحمانی ، ہنمکنڈہ )
جواب:- اگر ایک شخص کی جائداد کا کچھ حصہ حرام مال پر مشتمل ہے اور اس کی اولاد کو متعین طور پر معلوم ہے کہ اس کے متروکہ مال کا فلاں حصہ حرام طریقہ پر حاصل کیا گیا ہے ، تو اس کو صدقہ کردینا واجب ہے ۔ اور اگر متعین طور پر مال حرام کا علم نہ ہو ، تو متوفی کی اولاد کے حق میں وہ مال حلال ہوگا ، لیکن احتیاط یہ ہے کہ اندازہ سے اتنا مال اصل مالکان کی نیت سے صدقہ کردے : و إن کسبہ من حیث لا یحل و ابنہ یعلم ذلک و مات الأب و لا یعلم الابن ذلک بعینہ فھو حلال لہ في الشرع ، و الورع یتصدق بہ بنیۃ خصماء ابیہ (ہندیہ: ۵؍۳۴۹)
والدین اور بالغ لڑکوں کی اصلاح
سوال:- اولاد کے بالغ ہوجا نے کے بعد بھی ، کیا والدین پر یہ ذمہ داری رہتی ہے کہ وہ انہیں نماز اور روزہ کی ادائیگی کے لیے سختی سے پیش آئیں ؟ یا پھر انہیں توجہ دلانے پر اکتفا کریں ،اگر وہ نہ مانیں تو ان کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھیں یا پھر فرائض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ترک تعلق کرلیں ؟ ( کلیم الدین، حشمت پیٹ)
جواب:- بالغ ہونے سے پہلے نماز کا حکم تربیت کے قبیل سے ہے اور بالغ ہونے کے بعد ’’ امر بالمعروف ‘‘ کے فریضہ میں داخل ہے ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو ، اور دس سال کے ہوجائیں تو اس کے لیے ان کی سرزنش بھی کرو (ابو داؤد:۱؍۷۰)بالغ ہو نے کے بعد انسان خود مکلف ہوتا ہے ، اور اگر واقفیت کے باوجود کسی مسئلہ میں کوتاہی کرتا ہے تو خود ہی اس بارے میں جواب دہ ہے ، لیکن چوں کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے ، اور جتنا زیادہ کسی انسان کی نسبت مؤثر ہو ، اس پر اسی قدر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اس لیے ماں باپ پر اپنے بالغ بچوں کی اصلاح عام مسلمانوں کی اصلاح کے مقابلہ زیادہ ضروری ہے ،اب یہ کہ کس درجہ تنبیہ ہو اور کیا اس مقصد کے لیے ترک تعلق کر لیا جائے ؟ یہ ہر شخص کے انفرادی حالات پر مبنی ہے ، اگر توقع ہو کہ یہ رویہ بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے گا ، تو اسے اختیار کرنا چاہئے ، اور اگر اندیشہ ہو کہ اس سے مزید بغاوت پیدا ہوگی اور جو کچھ روک ٹوک ہے ، وہ بھی ختم ہوجائے گی ، تو پھر ترک تعلق سے بچنا بہتر ہوگا ، ساتھ ہی ساتھ والدین کو اپنی اولاد کی اصلاح حال کے لیے دعاء کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ، کہ والدین کی دعاء اولاد کے حق میں مقبول ہوتی ہے ۔
دولڑنے والے کے درمیان صلح کی کوشش
سوال:- میری عادت ہے کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہوتی ہے تو چھڑا دیتا ہوں ، ایک بار میں نے ایسا ہی کیا ، تو ایک فریق کے لوگوں نے مجھے کافی مارا پیٹا ، جس کی وجہ سے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کسی کے معاملہ میں مداخلت نہ کیجئے۔ ( محمد ارشاد، کریم نگر)
جواب:- دو مسلمانوں کو جھگڑے سے بچانا بہت ہی نیکی کا کام ہے ، اور اس پر بے حد اجر و ثواب ہے ، ممکن حد تک ایسے جھگڑے فساد کو روکنا ہر مسلمان کا فرض ہے آپ ا نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے روکے اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے ، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا مانے، اور یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۸۷) آپ کا یہ عمل بھی برائی کو روکنے میں داخل ہے ، تاہم اگر اندیشہ ہو کہ لوگ دست درازی کریں گے تو آپ زبان سے سمجھانے پر اکتفا کریں ، لیکن بہر حال اسے ایک ایمانی فریضہ اور اسلامی ذمہ داری سمجھیں ۔
نمازی کی طرف بیٹھنے والے کا چہرہ
سوال:- بعض صاحبان اپنی سنت نماز ادا کرکے دائیں بائیں یا سامنے سے دوسرے نمازی کی طرف چہرہ کرکے بیٹھتے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (عادل فیضی، سنتوش نگر )
جواب:- اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دائیں یا بائیں نماز پڑھنے والوں کی طرف گھوم کر دیکھے اور یہ اندیشہ نہ ہو کہ نماز پڑھنے والوں کی توجہ ہٹ جائے گی تو اس میں کوئی حرج نہیں ،اگر نمازی کی توجہ ہٹ جانے کا اندیشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی ایسا عمل درست نہیں جو نمازیوں کو اپنی عبادت سے بے توجہ کرتی ہو؛البتہ یہ صورت کہ عین نمازی کی طرف کوئی شخص اپنا چہرہ کرکے بیٹھ جائے ، بہر حال مکروہ ہے، اور اس کی کراہت شدید ہے، کیونکہ نماز میں بے توجہی پیدا ہونے کے علاوہ اس میں بظاہر اس شخص کی عبادت و بندگی کا ایہام ہوتا ہے، جس کے ٹھیک سامنے نماز پڑھنے والا کھڑا ہوا ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے : الاستقبال إلی المصلی مکروہ سواء کان المصلی في الصف الأول أو في الصف الأخیر(ہندیہ: ۱؍۱۰۸)
مغرب کا مسبوق کتنے قعدہ کرے ؟
سوال:- مغرب کی نماز میں اگر کسی کو تیسری رکعت مل گئی ، تو باقی دو رکعت ایک قعدہ سے ادا کرے یا دو قعدہ سے ؟ ( محمد چاند پاشا، ورنگل)
جواب:- ایسی صورت میں اسے مزید دوقعدے کرنے پڑیں گے ،ایک قعدہ ایک رکعت ادا کرنے پر ، جو اس کے حق میں قعدۂ اولی ہوگا ،دوسرا قعدہ دوسری رکعت ادا کرنے کے بعد جو اس کے حق مین قعدۂ اخیرہ ہوگا، اس طرح مغرب کی نماز میں جو شخص مسبوق ہوجائے ، اس کو تین قعدے کر نے پڑیں گے : لو أدرک من المغرب قضی رکعتین ،وفصل بقعدۃ فیکون بثلاث قعدات وقرأ في کل فاتحۃ و سورۃ (ہندیہ:۱؍۹۱)
ختم نبوت اور تکمیل دین کا مطلب
سوال:- ختم نبوت کے بعد کسی شخص پر ایمان لانا اور اس کے حکم کو معاشرہ میں رواج دینا کہاں تک درست ہے؟ اور دین کے مکمل ہونے کا کیا مطلب ہے؟ (ذوالفقار، مہدی پٹنم )
جواب:- انسانیت میں صرف انبیاء و رسل ہی وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جو اللہ تعالی کی جانب سے اپنے منصب و مقام کے اعلان پر مامور ہوتی ہیں، اور وہ جانتے ہیںکہ انہیں مقام نبوت پر فائز کیا گیا ہے؛ اس لئے نبی پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، نبی کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کی حیثیت کا اقرار کرنا اور اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئے شرط ہو، نبوت کا یہ سلسلہ ابو البشر سیدنا حضرت آدم ں سے شروع ہوا، اور ختمی مرتبت حضرت محمد ا پر مکمل ہوگیا، اب آپ اکے بعد کسی پر ایمان لانا ضروری تو کیا جائز بھی نہیں ، اور نہ کسی کا حکم حلال حرام کی بابت اس کی ذاتی حیثیت میں واجب الطاعت ہے، ختم نبوت اور تکمیل دین کا یہی مطلب ہے کہ شریعتِ الٰہی خاتم النبیین ا کے ذریعہ اپنی مکمل اور آخری شکل میں آچکی ہے، اس میں کسی اضافہ اور کمی کی گنجائش نہیں، —– البتہ کتاب و سنت میں بعض احکام تو صراحت و وضاحت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، اور بعض احکام وہ ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کی صراحت نہیں ملتی، لیکن ان مسائل کے حل کے لئے خود کتاب و سنت میں اصول و قواعد کی رہنمائی کی گئی ہے، اگر کوئی فقیہ ان کی روشنی میں مسئلہ کا حل نکالے، تو یہ ختم نبوت اور تکمیل دین کے منافی نہیں، اور ان احکام کی اتباع چونکہ اس گمان پر مبنی ہے کہ یہی اللہ اور رسول کا منشا ہے؛ اس لئے اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ جو لوگ اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے ایسے لوگوں کی تشریحات پر عمل کرنا واجب ہے، امام رازی ؒ نے اس پر گفتگو کی ہے ، اور اس پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے ، اسی ذیل میں امام رازی ؒ نے لکھا ہے کہ قیاس سے جو احکام ثابت ہوں وہ بھی دین ہی کا حصہ ہیں، اور ان کا شمار بھی اکمال دین میں ہے : ثم إنہ تعالی لما أمر بالقیاس وتعبد المکلفین بہ کان ذلک في الحقیقۃ بیانًا لکل الاحکام،وإذا کان کذلک کان ذلک اکمالًا للدین(تفسیرکبیر:۵؍۵۶۴) ہاں جن احکام کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو وہ قطعًا قابلِ رد ہیں ، حضور ا نے خود ایسی باتوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے:من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس فیہ فہو ردّ (بخاری، حدیث نمبر: ۲۶۹۷)
.
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.