Baseerat Online News Portal

ہمارا رفیق و دمساز اپنے رفیقِ حقیقی سے جا ملا

ڈاکٹر سلیم خان
کائنات ہستی میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کم بندوں کو اسم بالمسمیٰ ہونے کا شرف عطا فرماتا ہے۔ مولانا رفیق قاسمی صاحب بزرگ ہونے کے باوجود دوست و رفیق تھے ۔ خالق کائنات نے انہیں جیسی وجیہہ شخصیت عطا فرمائی ویسی ہی دلنواز طبیعت سے بھی نوازہ ۔ اس دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک تو جن کو علم و فضل اور عزت و توقیر سے مالامال کیا جاتا ہے ۔ ایسے خاص لوگ عام طور پر کم سخن اور تنہائی پسند ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عام مجلسی لوگ جو سب سے گھل مل تو جاتے ہیں لیکن وقار و احترام کی دولت سے محروم ہوتے ہیں ۔ مولانا رفیق قاسمی ان یکتائے روزگار لوگوں میں سے تھے جن میں یہ دونوں خصوصیات یکجا کردی گئی تھیں ۔ مولانا رفیق قاسمی کے الفاظ ، انداز، لہجہ اور رویہ سب ایک دوسرے ہم آہنگ ہوا کرتا تھا ۔ اس لیے ان کی شفقت کا اظہار زبان و بیان کا محتاج نہیں تھا ۔ بقول شاعر؎بات تو جب ہے کہ جذبوں سے صداقت پھوٹے یوں تو دعویٰ ہے ہر اک شخص کو سچائی کا
رفاقت میں اگر صداقت شامل ہو جائے تو وہ محبت کو جنم دیتی ہے ۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک شخص کا اس کے قریب سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟اس نے جواب دیا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے یہ بات بتادو۔ چنانچہ اس آدمی نے جا کر اس شخص کو بتایا کہ : میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔ ان رفقاء کی آپسی گفتگو میں اللہ کی محبت کا دبے پاوں شامل ہوجانا قابلِ توجہ ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "روحیں لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں، چنانچہ جو روحیں ایک دوسرے سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں اور جو روحیں ایک دوسرے سے انجان و نامانوس تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) اختلاف رکھتی ہیں”۔ یہی انس و تعارف دائمی سرمایہ ٔ محبت و الفت ہے کیونکہ روح لازوال ہے اس کے باوجود آج یہ کیفیت ہے کہ ؎یوں لگے دوست ترا ہم سے جداہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا خفاہو جاناجماعت اسلامی ہند اور علماء و مشائخ کے درمیان گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر ایک بُعد تھا ۔ اس فاصلے کو مولانا قاسمی صاحب کی محبت بھری شخصیت نے پاٹ دیا ۔ دارالعلوم دیو بند تو خیر ان کی مادرِ علمی تھی ۔ انہوں نے نہ تو خود اپنے آپ کو کبھی اس سے الگ سمجھا اور نہ دیو بند کے اکابرین نے انہیں غیر جانا لیکن دیگر مکتبہ فکر علماسے بھی مولانا کے نہایت قریبی تعلقات تھے۔ مرکز میں علماء کا تربیتی اجتماع ایک انوکھا خیال تھا لیکن مولانا کی نگرانی میں وہ خواب بحسن و خوبی شرمندۂ تعبیر ہوا۔ وہ تمام لوگ جنھوں نے ان تربیتی اجتماعات میں شرکت کی سب کے سب جماعت کے ساتھ مولانا کے گرویدہ ہوکر لوٹے ۔ ان مرکزی اجتماعات کے بعد مختلف صوبوں میں مجلس علمائے ہند کا قیام و انصرام مولانا رفیق قاسمی صاحب کی ایک انقلابی پیش رفت ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے اور اس کےدوررس نتائج مرتب ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مولانا کواس عظیم خدمت کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ مرکز میں اگر پہلے ہی دن مولانا قاسمی سے ملاقات نہیں ہوپاتی تونہ صرف ایک خلاء محسوس ہوتا تھا۔ ان کے اس سوال کا کہ’ کب تشریف آوری ہوئی ؟‘ خوف محسوس ہوتا اور ایک احساسِ جرم ستانے لگتا تھا۔ ان سے ملنے کا اسی طرح اشتیاق رہتا تھا جیسا کسی دیرینہ دوست کا ہوتا ہے ۔ مولانا ارشد سراج الدین صاحب نے مولانا کی رحلت کے بعد فون کرکے تعزیت کرتے ہوئے یہی بات کہی۔ ممبئی آنے کی خبر ملتی تو ملاقات کے لیے طبیعت بے چین ہوجاتی تھی لیکن سیکڑوں ملاقاتوں کے بعدبھی ان کے تئیں احترام میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔مولانا قاسمی کے تعلق سے اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ بے تکلف تھے یا نہیں تھے ؟ شاید وہ تو تھے مگر میں نہیں تھا لیکن میں بھی تو بے تکلف تھا ۔ جو من میں آتا پوچھتا اور جو جی میں آتا بول دیتا ۔ پھر بھی اندر سے آواز آتی نہیں ،ایسا نہیں تھا ۔ وہ کیسا تعلق تھا اس کوالفاظ کی مدد سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎اُس کا وجود میرے تصور کا معجزہ جیسا میں اس کو سوچ لوں , ویسا دکھائی دے
مولانا سے پہلی ملاقات ہوئی تو ناظم علاقہ تھے پھر ملا تو امیر حلقہ ہوگئے تھے اورآگے چل کر مرکز میں شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ۔یہ طویل سفر ان کے مزاج پر اثر انداز نہیں ہوسکا تھا ۔ ان کی شگفتگی اور وارفتگی میں اس دوران کوئی فرق نہیں واقع ہوا تھا ۔ ان کی مہمان نوازی اور دل بستگی اپنے عروج پر پہنچ کر ٹھہر گئی تھی۔ گردشِ زمانہ سے وہ بے نیاز ہوگئے تھے۔ مولانا نے ابھی حال میں ایک ویڈیو سیریز شروع کی تو نہ جانے کیا سوچ کر اس کا عنوان ’سوچو تو سہی‘ رکھ دیا۔ ہلکے پھلکے انداز میں فکر انگیز گفتگو ان کی یادوں کے ساتھ باتوں کو بھی زندہ و تابندہ رکھیں گی۔ مولانا نے شاید کبھی یہ نہیں سوچا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچیں گے ۔ اپنے انداز میں ایک بھرپور زندگی گزاری اور ہنستے ہنساتے اس طرح رخصت ہوئے کہ یقین نہیں ہوتا کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ مولانا قاسمی کے حوالے سے حال کا صیغہ اچانک ماضی میں بدل گیا ۔ دل کی عجیب سی کیفیت ہے ۔ مولانا کے داغِ مفارقت سے یہ احساس رفاقت بہت شدید ہوگیا ہے کہ؎
دوستی عام ہے لیکن اے دوست دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

جماعت اسلامی ہندکے سابق سکریٹری اوررکن شوریٰ مولانارفیق قاسمی کاانتقال
ممبئی: 6؍جون(بی این ایس)
جماعت اسلامی ہندکے رکن شوریٰ اورسابق مرکزی سکریٹری مولانارفیق احمدقاسمی کاآج صبح حرکت قلب بندہونے سےدہلی میں انتقال ہوگیا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
مولانارفیق قاسمی مرحوم جماعت اسلامی ہند سے بہت قدیم وابستگی رکھتے تھے. ناظم علاقہ اور امیر حلقہ کی ذمہ داری کے بعد مرکزی سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے طویل عرصے تک خدمات انجام دیں. ملت کے اندر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔مولانامرحوم آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن تاسیسی بھی تھے اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ تھے۔

Comments are closed.