Baseerat Online News Portal

ہتھنی پر آنسو،حاملہ خاتون کا پیٹ چیرا جانا کھیل ۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ۔8790193834
بہیمانہ قتل چاہے کسی کی بھی ہو قابل افسوس ہے، اسکی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس طرح کے وحشیانہ قتل کرنے والے کو سخت سے سخت سزا ملنی ضروری ہے۔ ہمیں کیرالہ میں ہوئے ایک حاملہ ہتھنی کی موت پر افسوس ہے جس طرح سے اناناس کے اندر پٹاخے رکھ کر اسے کھلایا گیا اور پھر اسکی تڑپ تڑپ کر موت ہوئی اس طرح کی وحشیانہ حرکت کرنے والے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جان سبھی کی ہے جینے کا حق سبھی کوہے چاہے وہ جانور ہو یا پھر انسان لیکن افسوس تو تب ہوتا ہے جب اسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے اسکے خلاف مورچے کھول دئے جاتے ہیں اور سیاسی قائدین اور وزراء ایک ہتھنی کی موت پرمگرمچھ کے آنسو اس قدر بہاتے ہیں کہ جیسا انکا کوئی اپنا مرا ہو شاید انکے اپنے مرنے میں بھی اتنے آنسو سیاسی قائدین نہیں بہاتے لیکن جس طرح سے اسے سیاسی رنگ دیا جارہا ہے اسے دیکھ کربڑا افسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف ایک ہتھنی کی موت اور دوسری طرف سیکڑوں انسانوں کی موت،ان دونوں طرح کی موت میں فرق بس اتنا رہا کہ ایک لئے آنسو کے دریے بہا دئے گئے اور دوسرے کے لئے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا گیا، بلکہ انکی حوصلہ افزائی کی گئی ، چاہے وہ موب لینچنگ ہو،1992 کے دنگے ہوں،2002 گجرات کے منصوبہ بند فساد ہو یا پھر 2020کے دہلی دنگے ہوں ان منصوبہ بند فسادات میں کئی بے قصوروں اور معصوموں کی جان گئی، کئی کے مانگ اجڑ گئے ، کئی کی گود سونی ہو گئی، کئی بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے، کئی نابالغ بچیوں اور نوجوان خاتون کی سر راہ عصمت لوٹی گئی اور اسکے پوشیدہ عضو کو کاٹ ڈالا گیااورکئی حاملہ خاتون کے پیٹ تلوار سے چیر کر اسکے بچے کو تلور کی نوک پر لہرایا گیا، اس وقت توکسی بھی سیاست دانوںکے آنکھوں میں آنسو نہیں آئے تھے،اس وقت تو کئی سیاسی قائدین خوش ہو کرنیوز چینلوں میں آ کر اپنا چہرہ چمکا رہے تھے، کیا اس وقت انکی آنکھیں خشک ہو گئی تھی،کیا بے قصوروں کے بہیمانہ قتل کا انہیں ذرا بھی افسوس اور احساس نہیں تھاویسے تو فسادیوں نے جب جب اپنے ملک میں فساد ہوئے بے قصوروں کو دردناک موتیں دیں،انکے گلے میں جلتے ہوئے ٹائر جلا کر بے رحمی سے مار ڈالا ،کئی معصوم بچوں کو جلتی ہوئی آ گ میں ڈال کر بھون ڈالا گیا،ہر موت درد ناک تھی لیکن اس سے بھی بڑی دردناک اور سخت سے سخت انسان کے دلوںکو ہلا دینے والی موت گجرات فسادات میں ہوئی تھی جسے سن کر ہی لوگ سہم جاتے ہیں،گجرات کے 2002 فساد میں جس طرح سے یک طرفہ موت کا تانڈو کھیلا گیا وہ ابھی تک لوگوں کے نظروں کے سامنے ہے۔گجرات کا ایک خونخوار قاتل بابو بجرنگی یاد ہے جسکا تعلق آرایس ایس اور بجرنگ دل سے تھاجس نے اسٹینگ آپریشن کے دوران قبول کیا تھا کی اس نے گجرات دنگوں میں ایک حاملہ مسلم خاتون کے پیٹ میں کس طرح تلوار ڈال کر بچے کو تلور کی نوک پر ٹانگ لیا تھا ،اس طرح کی وحشیانہ کاروائی کو انجام دینے والے کی سرپرستی ہو رہی تھی اور اس مسلم خاتون کے ساتھ جو دردناک واقعہ ہوا اس کے حق میں کسی کے بھی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے وہ بھی تو ایک حاملہ خاتون تھی وہ تو انسان تھی وہ زیادہرحم کے قابل تھی لیکن رحم تو دور اس مظلومہ کے سلسلے میں ہمدردی کے دو بول بھی نہیں بولے گئے ۔اس بابو بجرنگی کے چاہنے والے یعنی مرید ایک ہتھنی کے لئے آنسو بہائیں گے تو یقیناً آنسو فرضی لگیں گے اور دکھ بھی ہوگا،محض ایک ہتھنی کی موت پر چپراسی سے لے کر وزراء تک آنسو بہائیں اور پھراسے سیاست کا رنگ دیں کہیں سے بھی معقول نہیں لگتا ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ اس لاک ڈائون کے دوران سڑکوں پر بے یارو مدد گار لاکھوں غریب مزدوروں کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور جس طرح سے انکی ٹرین سے کٹ کر اور اکسیڈنٹ سے موت ہو رہی تھی اس دردناک منظر پر تو کسی کے آنسو نہیں بہے بلکہ سبھی وزراء چاہے وہ بی جے پی کے ہوں یا پھر غیر بی جے پی کے، سبھی اپنے اپنے دامن جھاڑ تے ہوئے دکھائی دئے مزدوروں کی موت پر انکے اہل خانہ کے آنسو پونچھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے سیاست کرتے ہوئے دیکھے گئے کسی نے انکی موت پر افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ مزدوروں کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا نہ تو انہیں کوئی سہولت دی گئی اور نہ ہی انکے آنسو پونچھے گئے بس انکی موت پر سیاست چمکائی گئی اور بدستور سیاست چمکائی جا رہی ہے۔تعجب تو اس بات کی ہے کہ انسانوں کی موت پر کسی بھی چپراسی اور وزراء کے آنسو نہیں بہتے۔ کسی کے دل میں درد نہیں ہوتا،کوئی قصورواروں کے خلاف مورچہ نہیں کھولتا لیکن ایک ہتھنی کی موت پر پورے دیش کے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، سبھی کے دلوں میں رحم دلی کا جذبہ اچانک امڈ پڑتا ہے، اور پھر اسکے خلاف مورچہ کھول دیا جاتا ہے، حیرت تو تب ہوتی ہے جب گودی میڈیا اس مہم میں کود پڑتی ہے اور انسانوں کی موت سے بڑھ کر ایک ہتھنی کی موت کوعالمی غم قرار دیتی ہے،اور قصوروار کو گرفتار کرنے کی بات کہتی ہے۔بے شک ایک انسان کی جان لینے والا بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا بے زبان جانور کی جان لینے والا، جان کسی کی بھی اسے مارنے والے کو بخشا نہیں جانا چاہئے لیکن تعجب تو اس بات کی ہے کہ ایک ہتھنی کی موت کے ذمہ دار کی گرفتاری آناً فاناً میں ہو جاتی ہے لیکن افسوس انسانوں کا قتل کرنے والا اور اسکی سازش رچنے والے کی گرفتاری کے لئے پولیس کو جوتے گھیسنے پڑتے ہیں یا پھر ایک طرح سے یہ کہا جائے کہ انسانوں کے قاتل کو اپنی سہولت کے حساب سے پولیس گرفتار کرتی ہے یا پھر اوپر سے حکم صادر کے بعد ہی اسکی گرفتاری ہوتی ہے جسکی تازہ مثال دہلی فساد کی ہے جہاں فساد کی سازش رچنے والے اور بھڑکائو بھاشن دینے والے کھلے طور سے گھوم رہے ہیں لیکن اسکی گرفتاری ابھی تک نہیں ہوئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے سر پر مضبوط ہاتھ ہے۔
بہر حال! کیرل کی ہتھنی کی موت کا سب کو افسوس ہے ویسے تو کئی ریاست میں ہاتھیوں کو مار بھی دیا جاتا ہے اسکے پیچھے راز یہ ہے کہ ہاتھیوں کا جھنڈ فصلوں کو برباد کر دیتے ہیں جس کے سبب کسانوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اپنے فصلوں کو بچانے کے لئے انہیں مارنا بھی پڑتا ہے لیکن کیرل کی ہتھنی کی موت کو لے کر جس طرح سے آنسو بہائے جا رہے ہیں اور سیاست کی جا رہی ہے وہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔حالانکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اناناس میں پٹاخے ڈال کر جنگلی سووروں کو کھلانے کے لئے رکھا گیا تھا اس میں کسی کی منشا نہیں تھی کہ وہ ہتھنی کو مارے اچانک وہاں ہتھنی آگئی اور وہ اس اناناس کو کھا گئی جس سے کہ اسکے منھ میں پٹاخے پھوٹ گئے اور اسکی موت ہو گئی اس میں یہ منشاء شاید نہیں ہوگی کہ ہتھنی کو مارا جائے لیکن اسے خواہ مخواہ کا ہنگامہ کھڑا کرکے اسے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے جس میں بی جے پی کے وزراء پیش پیش ہیں، کیرل میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے اور وہ اسی کو مدعا بنانا چاہتی ہے، جس میں فی الحال اسے ناکامی ملی ہے۔ختم شد

Comments are closed.