کورونا کی فریاد !ہر حرف مرا کرب ِ مسلسل کی گھٹن میں

ش ۔م۔ احمد کشمیر
7006883587
حیرت و حسرت کے عالم میں میری زبان سے برجستہ نکلا: بار الہٰا !یہ کورونا نے اپنا کیا حال بنایا ۔۔۔بکھرے بال، پریشاں حال، پیکر ِحزن وملال، غم سے نڈھال، رنج سے پامال۔۔۔ یہ اللہ کی بارگاہِ اقدس میں سائل و فریادی کیوں بنا ؟ دنیا ئے دوں میں یہ اپنی نامرادی، اپنی پسپائی، اپنی بے بسی کا شکوہ کر تے ہوئے کہہ رہا تھا :
اے مالک ِہردو جہاں!
خالقِ ارض وسماء، شافع الامراض ، دافع الٓافات و البلیات ! یہ حقیر سائل کورونا آپ کی اَن گنت ہلاکت آفرین وباؤں میں ایک نیا اضافہ ہے۔ میں ایک معمولی جرثومہ ، مگر انسانی دنیا کے لئے آپ خدائے رحمن ورحیم کا غصہ، لاعلاج بیماری کا دبدبہ ، قرنطینہ کا غلغلہ،قیامت کی علامت، تکالیف کی شامت ، لاک ڈاؤن کا سفیر ، غربت بڑھا نے والوں کا مشیر، جسامت سے عاری ، قوت وقدرت سے خالی، تولہ نہ ماشہ، بس ملک ِ زُکام کا زلزلہ، سلطنت ِبخار کا پادشاہ،خرابی ٔ تنفس کا نا مہربان سلسلہ، کھٹمل مچھر پسو سے پست حددرجہ ،ابابیلی کنکر سے بے وزن، دنیا میرا لمحاتی مسکن ؎
لب پہ کسی اُجڑی ہوئی جاگیرکاماتم
ہر لفظ میرا حلقہ ٔ جاگیر کا ماتم
پرودرگار ِ عالم !
آپ نے اس کم تر وجود کو جو بہت بڑا کام سونپا ، اُسے تاحکم ِ ثانی ملکوں ملکوں ،قوموں قوموں خاک چھان کر خوب خوب کر رہاہوں، ابھی تک کئے جارہا ہوں ۔۔۔ مگر گستاخی معاف، ا س کا حاصل میری ادنیٰ نظر میں ندارد!
بندے نے وُہان چین سے اپنا لمبا مہاماری سفر تخریب شروع کیا، اٹلی جا پہنچا،ا سے وسیع قبرستان بناڈالا، ایران کی خوب خبرلی،اسپین میں ڈیرا ڈالا،اس کی کھال اُتاری، جرمنی کی راہ لی، اینٹ سے اینٹ بجالی، برطانیہ سے اپنا وجود منوایا، فرانس کو دن میں ہی تارے دکھائے، امریکہ میں خیمہ زن ہوکر موت کی دھینگا مشتی میں مصروف ہوں، روس کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کیا،دلی سے تراہی تراہی کہلوایا ، اسلام آبادکا گلا پکڑا ، عربستان سے ناکوں چنے چبوا ئے، افریقہ میں آدم خوری کے لئے حاضری دی ۔ غرض آسمان کی چھت کے نیچے زمین پہ جہاں جہاںآدم زاد کی بودوباش ، وہاں آپ کے اِذن سے بیماری ولاچاری سے ادھم مچائی ، زندگی کا پہیہ جام کیا ، عقل کا گھوڑا لنگڑا کر ڈالا ، سوچ کا سفینہ ڈبو دیا۔
اے خدائے بزرگ و بر تر!
کرہ ٔ ارض پرجہاں یہ حقیر وکم ترین قدم رنجہ ہوا وہاں ہر چیز پوری طرح تہس نہس ، ہر شئے اُلٹا پلٹ، خوف کے چابک سے رشتوں کو توڑے ، رابطوں کو منقطع کیا ، تعلقات کے چمن بیخ وبُن سے اُکھاڑے ،ہر چیز کی اُجلی اُجلی چمک دمک پر سیاہی کی پرتیں، بے رونقی کی دُھندیں جمائیں ۔ پلک جھپکنے کی دیر میںانسانی بستیاں غیر آباد،کھیت کھلیان ویران، دجالی ایوان کھنڈرات ، کارخانے خاموش ، طیران گاہیں عضوئے معطل ، قیمتی گاڑیاں بے دام، عیاشی کے اڈے فحاشی کے مرکز مقفل، تعلیم گاہیں تحقیقی ادارے قصہ ٔ پارینہ ، قصر ومحلات، بنگلے، جھگی جھونپڑیاں بے چراغ۔ مساجد، مندر ، گرجے، گردوارے ، کنیسہ سمیت تمام معابد یک قلم تالہ بند۔ سڑکیں بازار گلی کوچے سننان، باغات خزاں دیدہ ، تفریح گاہیں پر بُریدہ، قریہ قریہ خوف خوف کا پہرہ، نگری نگری ڈر کی چھایا۔ حتیٰ کہ سیہ کار کائنات میں یقین وایماں کے ہمہ پہلو نور بکھیرتے دو روشن ترین چراغ، عبادات واذکار سے تاباں و درخشاں حرمین شریفین تک میں انسانی سجدے موقوف ، اب ان میں صرف فرشتے سر بسجود دست بدعا ۔ یہ سب آپ کی شانِ بے نیاری کے صدقے ہوا تا کہ بگڑا ہواآدم زاد اصلاحِ احوال کا نوشتہ ٔ دیوار پڑھ لے۔۔۔ مگر افسوس صد افسوس!
اے بادشاہِ دوعالم !
آپ کے اذنِ جلیلہ سے اس کم مایہ وجود نے انسان کے شعور وادرک، عقل و فہم ، بصیرت وبصارت کے بند کواڑ کھلوانے کے لئے اپنی خموش گفتگو میں یہ معنوی اعلان کیا:
غا فل بندگانِ خدا! تمہارا غرور بے جا ، پندار ناپائیدار، زمین پر مجازی خدا بننے کا خواب ایک سراب۔ عدل واخلاق سے باغی ہوکر عالم گیر طاقت بننے کی تمہاری احمقانہ دوڑ لایعنی، تم مجبورِ محض ہو، مختارِ کل نہیں، بے بس وبے کس جان مخلوق۔ خدا کا مہر وماہ پھر سے تمہارے ساتھ مگر شرط یہ کہ پہلے گناہوں ، لغزشوں، خطاؤں سے باز آ، بازآ،بازآ،ورنہ تمہاری بر بادیوں کے مشورے ہورہے ہیں آسمانوں میں۔ جلدی کرو، آہ وبکا عجز وانکساری کی زادِ راہ لے کر توبہ واستغفار کی شاہراہ
پکڑ و، تخریب نہیں بلکہ تعمیر کی سواری اپنی فطرتِ ثانیہ بنا ، دوسرے
بند گان ِ خدا پر ظلم وتشدد کی بھٹیاں کبھی نہ سلگا ؤ، جنہیں اپنی ماؤں نے آزاد جنا ، تم انہیں اپنی غلامی کی زنجیروںمیں ،اپنی من مانی بندشوں میں ، اپنے فرعونی ونمردوی داؤ پیچ میں جکڑنا چھوڑو، عارضی وجفاکار تخت وتاج کے دوام کے لئے مصائب ومظالم کے جہنم زراوں میں کمزوروں کو بلا تکلف جھونکنا ترک کرو۔ سن بہت ہوا،اب بس کر ، باز آجا، اپنا سکون واطمینان فضولیات میں غارت نہ کرو، آدمیت کا مان کر و، انسانیت کی لاج رکھو ،ورنہ تیرے اوپر خدا کا اور زیادہ قہر ٹوٹے گا ۔ یہ فرمان ِ خدا وندی تمہارے لئے چشم کشا ہونا چاہیے :
آخر کار ہم نے ان پر ( گمراہ فرعونیوں پر ) طوفان بھیجا، ٹڈی دَل چھوڑے، سر سریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے ،اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھا ئیں، مگر وہ سرکشی کئے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے( الاعراف : ۱۳۳)
اس فرمان ِ خداوندی کو غور سے سنو ، ا س میں درج تمام قیامتوں اور چتناؤنیوںکا حال آج دنیا کے سامنے ہے، مگر نوعِ انسانی سر پھری ، سرکشی اور گمرہی کی طرف مائل !!!
اپنی گرہ باندھ لے یہ بات تم اللہ کی خد ائی میں رَتی بھر بھی شریک ِ کار نہیں۔ اسی لئے تمہاری دوائیاں ، تمہارے شفاخانے ، تمہارا سائنس، تمہاری ٹیکنالوجی ، تمہاری تجر بہ گاہیں ، فضائے بسیط میں تمہاری اونچی اُڑانیں، زمین پر اپنا سکہ جمانے کی تمہاری بے تکان پروازیں ، پہاڑ اورسمندر کھنگالنے کی تیری جستجوئیں، سب کی سب خدائے کن فکان کے روبرو ہیچ ، بے مطلب، بے سود ۔ تمہاری کسمپرسی کا یہ حال کہ آج مستشفیٰ آباد ، قبرستان با رونق ۔ میرے دم قدم سے کرہ ٔ ارض میں ہر لحظہ ہرآن سرد آہیں سنتے ہو ، آنسوؤں کی راگ سمجھتے ہو، یہ سب تمہاری گناہ گاریوں کا کھلا اشتہار ہے ۔ تم آخر گناہوں اورجرائم سے باز نہ آکر دُکھوں کی اندھیاں ،غموں کے پہاڑ کب تلک سہارتے رہو گے؟ کب تک اپنے کمائے ہوئے صدموں پر کف ِافسوس ملتے رہوگے ؟
اے مولائے کریم !
میرا قیاس و گمان تھا جگہ جگہ مجھے دندناتا پھر تا دیکھ حضرت انسان نے عبرت پکڑی ، مہا ماری کے عالم ِاضطراب سے ، بے قابو شور ِ محشر سے،عالمی تباہیوں سے ، قیامت خیز بربادیوں سے، سر چکرانے والی وناکاش کا ریوں سے، موت کے ننگے ناچ سے، بے کاری و بے روزگاری و بے اعتباری میں دنیا غرقآب ہونے سے اس مشت ِخاک کی کایاپلٹ گئی۔ وہ ضرور اصلاح کی شمعیں روشن اور سدھار کی مشعلیں فروزاں کر نے لگا ۔ مالک ِبحر وبر کا مطیعِ فرمان ، انسانیت سے مالامال ، شرافت کا غلام ، صداقت کا پرچم بردار ، حقانیت کا طرف دار ، عدل وانصاف کا سپہ سالار ، کمزور وناتواں کے واسطے رحم دلی کا علمبردار، انسانی اصولوں کا وفادار ، گفتار نہیں بلکہ صرف کردار کا پرستار ہوا ۔ اور جب یہ سب ہوا تو دنیا میں اپنا کیا کام؟بسترہ گول کروں ، چلو ایک اچھے انجام پر اس تعذیبی کھیل کا خاتمہ ہوا۔ بے حدوحساب شکر کہ اس فقیرِ بے تقصیر سے خدائے لم یزل نے عالمی اصلاح کا اپنا اصل ہدف مکمل کیا۔ اللہ بخشن ہار ہے، جن و انس کا پالنہار ہے ، رحمتوں کا منبع شفقتوں کا انبار ہے، پھر سے تباہ حال دنیا کی تعمیر نو کا اینٹ گارا نوعِ انسانی کے ہاتھ تھمادے گا جیسے طوفان میں نوح ؑ کو سفینہ ٔ نجات بنانے کی ہمت وہدایت دی۔
ناچیز کی یہ خوش فہمی ہوا ہوائی نہ تھی بلکہ جا بہ جا سر کی آنکھوں سے دیکھا دنیا مجھ سے خائف ،سہمی سہمی ،سُونی سُونی ۔ کورونا کورونا چلّا کر ہرانسان کو اپنے سائے تک سے ڈرتا دیکھا، مجھ سے بھاگ بھاگ کرخود سے بھی بہت دور ہوتے نظر آیا، دہشت کے عالم میں اپنا چہرہ تک آئینہ میںدیکھنا بھول گیا ، الاماں والحفیظ کی صدائیں کانوں سے ہربار ہر جگہ ٹکراتی رہیں ۔ بد معاشی کے اڈے نابود ، نائٹ کلب بند، شراب خانے مقفل، ناچ نغمہ نہیں، فحاشی نہیں ،عیاشی نہیں ۔ غالب گمان یہی تھا انسان بدل گیا، کردار سنبھل گیا ، دنیا سنور گئی، انسانیت کا سر فخر سے پھر اونچا ہوا۔ اب سینہ ٔ کائنات میں خداترسی کی پُروائیاں چلیں گی مگر وائے افسوس صدا فسوس ! ایں خیال است و محال است وجنوں
اے مہربان خدا !
آپ واحد مہربان ذات، رحمن ورحیم ، ہر فرد بشر کا ہمددر، ہر ملک وقوم کا رکھوالا، نوعِ انسانی کاا کیلاغمگسار ۔ آپ کی پایاںمحبت کے سامنے ماں کا غیر مشروط پیار ہیچ ، آپ کی رحمتوں کا سایہ زمین وزماں پر تاقیام قیامت دراز ، آپ خیر ہی خیر، پیار ہی پیار، تبریک ہی تبریک، ہر پستی وبلندی پر صرف آپ ہی کا راج ، آپ ہی قادرِ مطلق، عادل و منصف ، جہاںگیر و جہاں نگر ، جن وانس کے فقط آپ ہی سردار ۔۔۔
میں اس دربار ِ خداوندی میں بدیں الفاظ فریاد وفغان کر نے کی سوچ رہاتھا: اے رب ذوالجلال والاکرام! حشرات الارض میں ایک ذرہ ٔ بے نشان ذات کی حیثیت سے آپ کے حضور ملتجی ہوں:آپ کے اذنِ مقدس کا مطیع ہوں،آپ کے ا حکامات و فرامین کا ادنیٰ تابع دار ہوں ، جانتا ہوں انسانوں کے ساتھ آپ کی رحمتیں ، آپ کی شفقتیں ، آپ کی محبتیں ماپنے کا کوئی پیمانہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ چونکہ دنیائے انسانیت اپنی ڈگر سے ہٹ گئی تھی ، اس لئے آپ نے میری شکل میں اپنی بے آواز لاٹھی سے دنیاکو ہانک کر واپس اپنی اصل کی طرف پلٹ آنے کا مبارک موقع فراہم کیا ۔ قسم آپ کے عزت کی ! مجھے آپ نے قطعی اپنی حسین دنیا برباد کر نے نہیں بھیجا ، صرف ا نسانوں کی معمولی کان کھنچائی کا کام سونپا ۔ یہ کان کھنچائی سنت اللہ کے عین مطابق ہے۔اس میںانسان کے لئے سدھرنے کا سندیسہ چھپاہے، گر کرسنبھلنے کا اشارہ ہے۔ میں تعمیل ِحکم میںسرنگوں تمام اقوام ،تمام افراد کے پاس پہنچا، ڈر کاپیام بر بن کر نہیں اصلاح کا فرستادہ بن کر ،انہیں جگانے، جبریہ طاقتوں کا نشہ اُتارنے ، دستورِ انسانیت کی ترویج کرنے ،حفظانِ صحت کی طرف نظر التفات پھیرنے ، طبی تحقیقات کی نئی جہتیں کھلوانے ، مرے ہوئے ضمیر وں کو سرنو زندہ کرنے، حاکم ومحکوم کو احساس ِذمہ داری دلانے ۔ مقصد صرف یہ کہ انسانی دنیا اپنا بھولا ہوادرس ِ وحدانیت یاد کرے ، عالمی برائیاں عالمی بھلائیوں سے بدل جائیں ، دھرتی پر ایک نیاانسان جنم پائے ، اس کے نئے سبح وشام ہوں۔اس نئی دنیا میں رہنے والا ابن ِآدم مفسدانہ نہیں بلکہ مصلحانہ اسلوب ِ حیات اپنائے ، ایک ایسا نظریہ ٔ زندگی مانے جو نا انصافیوں کا قلع قمع کر ے ، بے اعتدالیوں کا صفایا کر ے ، انسان دشمنی کا خاتمہ کرے ، یوں دنیا کو نمونہ ٔ جنت بنائے ۔ یہ ایک ایسی ارضی جنت ہو جہاں بھوک ، بیماری ، جہالت ، منافرت،استحصال ، کرسی کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا داستان ِ پارینہ ہو ، جہاں انسان دوستی کا بول
با لا ہو ، جہاں اخلاقیات کا سورج کبھی غروب نہ ہو، جہاں ہر دل میںخدائی مواخذے کا ثقہ یقین پیدا ہو، جہاں انسان کی جملہ تخلیقی صلاحیتیں انسا نیت کے بچاؤ میں استعمال ہوں۔ یہی صحت مند اصول نئے عالمی نظام کی شاہ کلید بنیں تو بات بنے گی۔۔۔ مگر آہ ! یہاں آکر دیکھا کہ خطرے کا اَلارم بجنے کے باوجود اُلٹی ہی گنگا بہنا بہی جارہی ہے، ہدایت طلبی سے کسی غالب قوم کو غرض نہیں،ا صلاح یافتہ ہونے کی قوت والے غنڈوں کو چٹی ہی نہیں۔ یہاں دو مختلف دنیا ئیں آبادہیں : ایک دنیا میں مظلوم ومغلوب ومعتوب انسان بستے ہیں جو بے نوائی کی ماریں کھا تے ہیں ، غربت کی ٹھوکریں برداشت کرتے ہیں ، استحصال کے چابک سینوں پر کھا تے ہیں ۔دوسری دنیامنافرتوں کے نامی گرامی تاجر وں کی ہے جو تخریب کاریوں کے سیاسی داتا ہیں، جو اپنے چہیتے ا میروں کی پیالہ برداری کر تے ہیں اور غریبوں کو آپس میں دست وگریباں کئے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خُو چھوڑی نہ وضع
اے علیم وخبیر خدا ئے کریم!
آپ سب جانتے ہیں۔ یہ افغانستان دیکھئے۔ میں اپنے ہلاکت خیز بال و پر یہاں پھیلا رہا تھا ، نامعلوم لوگ توبہ واستغفار میں ڈوبنے کی بجائے یہاں سنگ دلی کی حدیں پار کر نے پر تُل گئے ، پہلے بندوق کی گھن گرج میں ایک گرودوارے میں پوجا پاٹھ میں مشغول لوگوں کی لاشیں گرائیں، پھر ایک بچہ ہسپتال میں اُن نوزائیدہ معصومین تک کا قتل عام کیا ،جن کا قصور یہ تھا کہ دنیا میں آنکھ کھول چکے تھے ۔ اگر یہ بچے کسی جنگل میں کسی وحشی جانور سے جمنے ہوتے تو شاید آج زندہ ہوتے ۔ یہ امریکہ ہے ، جمہوریت وانسانی حقوق کا نام نہاد محافظ،جہاں میرا پیغامِ اجل اب تک ایک لاکھ امریکیوںکو زندہ نگل چکاہے ، لاکھوں لوگ ہسپتالوں میں بھرتی ہوکر انتظار کر رہے ہیں کہ کب اُن کا جنازہ اٹھے ۔ یہاں کے انتہا پسند گوروں میں کسی کو ندامت ہے نہ پچھتاوا۔ میں نے دیکھا تو اشک بار ہوا کہ کس بے رحمی سے نسل پرستی کی مہلک وبا میں مبتلا ایک پولیس افسر نے دن دھاڑے سیاہ چمڑی والے ایک شخص کو نو منٹ تک اپنے گھٹنو ں کے نیچے دبوچ کر مار ڈالا تاکہ اندر کے حیوان کو خون ِ ناحق کر نے سے تشفی ہو۔ اس پر امریکہ اتنا برافروختہ ہو اکہ صد رکو قصرِ ابیض کے تہ خانے میں چا چھپنا پڑا۔ یہ امریکہ کا دُم چھلاا سرائیل ہے جو میری تباہ کارانہ پیش قدمی دیکھ کر اپنے ناقابل معافی گناہوں اور جرائم سے باز آنے کے بجائے فلسطین کے مغربی کنارے پر للچائی ہوئی بد نیت نظریں گاڑے ہوا ہے ۔ یہ انڈیا ہے جہاں تنخواہ دار ڈھنڈورچیوں سے کسی خیر کی توقع ہی نہیں، ان لوگوں نے اپنی سرشت اور خصلت کے عین مطابق پہلے مجھے مسلمان جتلاکر بیس کروڑ مسلمانوںکی بدنامی ، کردار کشی، معاشی مقاطعے ، طرح طرح کے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے تاکہ مسلم اقلیت کا جینا دوبھر کیا جائے۔ رئیس ِ شہر نے غریب و بے آسرا کروڑوں مزدوروں کو کسمپرسی کی حالت میں بے یارو مددگار چھوڑ ا، ان کی ناگفتہ بہ بپتا دیکھ کر آسمان کا کلیجہ بھی پھٹ پڑا ہوگا۔ اُلٹی سوچ کا غلبہ اتنا کہ راشن کی فراہمی کے برعکس شراب کی دوکانیں کھول دی گئیں، مطلب خوفِ الہیٰ اور معاشرتی اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا ئی گئیں۔ اتناہی نہیں بلکہ جہاں غرباء سے مجھے بددعائیں، وہاںذخیرہ اندوزو ں منافع خوروں سے خوب دعائیں ملیں ، جن راشی رنگروٹوں کے وا رے نیارے ہوئے وہ مجھے سلامیاں دیں۔
اے رب ِ کریم! میں انسانوں کے لئے سوط ِ عذاب تھا مگر اعتراف کرتاہوں کہ مجھ سے عبر تیں اور نصیحتیں حاصل کرنے کی بجائے انسان گمرہیوں ، سر کشیوں اور بددماغیوں کے ادھیڑ بن میں دربدر پھر رہاہے ۔ شاید حضرت انسان کو سنبھلنے سدھرنے کے لئے کسی اورزیادہ شدید زلزلے اورزوردار اصلاحی دھچکے کا انتظار ہے ؎
ہر حرف مرا کرب ِ مسلسل کی گھٹن میں
کرتا ہے میرے خانہ دل گیر کا ماتم
نوٹ: ش م احمد وادی ٔ کشمیر کے آزاد صحافی ہیں

Comments are closed.