لینے کے دینے پڑگئے

سمیع اللہ ملک
انڈیا اورچین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے ایک بارپھرسراٹھایاہے اوراس تناکو1999میں انڈیااورپاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعدسے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہاجارہاہے۔ اس سے قبل2017میں انڈیااورچین کی افواج ڈوکلام کے مقام پرآمنے سامنے آئی تھیں لیکن گذشتہ ایک ہفتے کے لداخ سمیت انڈیا اورچین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)کے مختلف مقامات پردونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھاجارہاہے جوپہلے کبھی نہیں دیکھاگیا۔سرحدی تنازع اس قدرکشیدہ ہے کہ مودی نے منگل کے روزبری،بحری اورفضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اورقومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول سے مشورہ کیاہے جس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے تینوں افواج کے سربراہان اورچیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت سے علیحدگی میں بات چیت بھی کی ہے۔ان دونوں میٹنگزکاپیش خیمہ رواں ماہ ایل اے سی پرکم ازکم چارمقامات پردونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ رہی ہے۔لداخ میں پینگونگ ٹیسو،گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پردونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل منوج نراونے نے کہاہے ان دونوں علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں کوئی تعلق نہیں تاہم3جون کوانڈین فوج کی تین روزہ ششماہی کانفرنس میں اعلی کمانڈرزنیانڈین فوج کی اعلی سطحی قیادت سکیورٹی کی تازہ صورتحال،انتظامی چیلنجزپرغوروخوض اوربری فوج کے مستقبل کامنصوبہ تیار کیاگیا۔دوسری جانب انڈین خبررساں ادارے کے مطابق چینی صدرنے انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظراپنی فوج کو جنگ کیلئے تیار رہنے اورملک کی سالمیت کامضبوطی سے دفاع کرنے کاکہاہے۔
66برس کے شی جن پنگ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا(سی پی سی) کے جنرل سیکرٹری نے حال ہی میں ایک پارلیمانی سیشن میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے)اور پیپلز آرمڈ پولیس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہیں۔چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی شنہوکے حوالے سے پی ٹی آئی نے لکھاکہشی جن پنگ نے فوج کو خراب ترین صورتحال کیلئیتیار،اپنی تربیت اورجنگی تیاری کی سطح میں اضافہ کرنیتاکہ فوری طورپرمثر ڈھنگ سے ہرقسم کی پیچیدہ صورتحال سے مضبوطی سے نمٹ سکنے،قومی سلامتی،سکیورٹی اور ترقیاتی مفادات کا دفاع کی تیاری کاکہاہے۔ بہرحال چینی صدرنے ملک کودرپیش کسی خاص مسئلے کاذکرنہیں کیا۔لداخ میں سرحدکے نزدیک چینی فوج کے ہیلی کاپٹربھی پروازکر رہے ہیں جبکہ دیمچوک،دولت بیگ اولڈی،دریائے گلوان اور پینگونگ سوجھیل کے اطراف میں انڈین اورچینی فوج نے اپنی تعیناتی میں اضافہ کیاہے اوردونوں نے اپنے اپنے علاقے کی جھیلوں میں کشتیوں کی گشت میں بھی اضافہ کیاہے۔گذشتہ ہفتے بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیامیں کہاگیا کہ مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیاکے ذریعے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کوبدلنے کی کوشش کے بعدپیپلزلبریشن آرمی نے اپناکنٹرول سخت کردیا ہے۔
مشرقی لداخ میں پینگونگ سوجھیل کے نزدیک پانچ اورچھ مئی کوچینی اورانڈین فوجیوں کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی۔انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی نے انٹیلی جنس ماہرین کے اوپن سورسزڈیٹریسفاکے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین پینگوگ جھیل سے200کلومیٹرکے فاصلے پراپنے ایئربیس پربڑے پیمانے پرتعمیراتی کام کررہاہے۔ اس نے چھ اپریل کی ایک سٹیلائٹ تصویرپیش کی ہے جو21مئی کی سیٹلائٹ تصویرسے بالکل مختلف ہے۔اس سے قبل انڈیانے کہاتھاکہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔اس کے بعدانڈیانے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ انڈیا وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے۔
ایک ٹویٹ میں عمران خان کاکہناتھاکہ انڈیاشہریت کے قانون سے بنگلہ دیش،ایک جعلی کاروائی سے پاکستان کوجبکہ نیپال/چین کے ساتھ سرحدی تنازعات صورتحال کی سنگینی کوہوا دے رہاہے۔ادھرپاکستان نیاپنے ردِ عمل میں انڈیاکے متنازعہ علاقہ میں تعمیرات کوخطے میں امن واستحکام کیلئے شدیدخطرہ قراردیتے ہوئے دنیاکوانڈیاکے عزائم اورجارحیت کا نوٹس لینے کاکہاہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نییہ بھی کہاکہ انڈیاکوکبھی نیپال سے مسئلہ ہوجاتاہے اورکبھی افغان امن عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتاہیکبھی یہ بلوچستان میں شورش کو ہوادیتاہے اوراب انڈیانے لداخ میں وہی حرکت کی ہے اورالٹاچین کوموردالزام ٹھہرارہاہے۔
انڈیا اورچین کاسرحدی تنازع بہت پراناہے اور1962کی جنگ کے بعد یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ انڈیا اورچین کے درمیان تین ہزار488کلومیٹرکی مشترکہ سرحدہے۔یہ سرحد جموں وکشمیر،ہماچل پردیش،اتراکھنڈ،سکم اور ارونا چل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے اوراس سرحدکوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔مغربی سیکٹریعنی جموں وکشمیر،مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اوراتراکھنڈاورمشرقی سیکٹریعنی سکم اوراروناچل پردیش۔بہر حال انڈیااورچین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اورجس ملک کاجس علاقے پرقبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیاہے تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپناعلاقہ ہونے کادعوی کرتے رہے ہیں جوکشیدگی کاباعث ہے۔انڈیا مغربی سیکٹرمیں اکسائی چین پراپنادعویٰ کرتا ہے لیکن یہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ 1962کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پرقبضہ کرلیاتھا۔دوسری جانب چین مشرقی سیکٹرمیں اروناچل پردیش پر اپنادعوی کرتاہے۔چین کاکہناہے کہ یہ جنوبی تبت کاایک حصہ ہے۔ چین تبت اوراروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کوبھی قبول نہیں کرتا اور اس نے اکسائی چین سے متعلق انڈیاکے دعوے کومستردکردیاہے۔
سابق سفیراورانڈین اورچینی امورکے ماہرپی سٹوبدان نے انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں لکھاہے کہ تازہ کشیدگی کو صرف ایل اے سی کی خلاف ورزی کے طورپرنہیں دیکھاجاسکتا ہے۔جب انڈیا نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370اور35اے کوہٹاکرلداخ کومرکزکے زیرانتظام علاقہ قراردیاتھاتوچین نے اس پرسخت تنقیدکی تھی اوراسیناقابل قبول اورچین کی سالمیت کی خلاف ورزی قراردیاتھایہاں تک کہ اس نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھی اس معاملے کواٹھایاتھا۔
بنارس ہندویونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسراورانڈیااورچین کے رشتے پرکئی کتابوں کے مصنف کیشومشرانے بھی کہا کہ انڈیا اورچین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔اس پرسب سے پہلے1996میں دیوگوڑاحکومت نے چیانگ زیمن کے ساتھ ایک لیگل فریم ورک پراتفاق کیاتھاجس کے تحت ایل اے سی پرزیادہ سے زیادہ پرامن رہنے اور کشیدگی کوکم کرنے اورصبر وتحمل کامظاہرہ کرنے کی باتیں سامنے آئی تھیں اوراس سے قبل راجیو گاندھی بھی جب چین کے دورے پرگئے تھے تواس وقت بھی سرحدی تنازع ہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ قرارپایاتھا۔تاہم 2010کے بعد سے سرحدی تنازعے میں اضافہ دیکھاگیااورانڈیانے جب سے سرحد کے قریب سڑک کی تعمیرات کاکام تیزکیاہے اس پرچین کی گہری نظرہے۔چینی میڈیا میں اس سرحدی تنازعے کوکوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی لیکن انڈیامیں قوم پرست میڈیامیں اس پرخاطر خواہ توجہ دی جارہی ہے ۔انڈیا اورچین کی سرحدپرتنابڑھتاجارہاہے۔دونوں ممالک(ایل اے سی) پراپنی فوج کی موجودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اکسائی چن میں موجود وادی گالوان کے سبب دونوں ممالک کے مابین تناکی ابتداہوئی تھی۔چین کا الزام ہے کہ انڈیا وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہیجبکہ انڈیاکے مطابق وادی گالوان کے اطراف میں چینی فوج کے کچھ خیمے دیکھے گئے جس کے بعد انڈیا نے بھی وہاں فوج کی تعداد میں اضافہ کیا۔9مئی کوشمالی سکم میں انڈین اورچینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔اسی دوران لداخ میں ایل اے سی کے قریب چینی فوج کے ہیلی کاپٹردیکھے گئے۔اس کے بعد انڈیا نے بھی دوسرے لڑاکا طیارے بشمول سوکھوئی کے ساتھ بھی گشت شروع کردیا۔ایئر فورس کے سربراہ بھڈوریاکے مطابق”وہاں کچھ غیرمعمولی سرگرمیاں دیکھی گئی۔اس طرح کے واقعات پرہم گہری نظراورضروری کاروائی بھی کرتے ہیں۔ ایسے معاملات میں زیادہ تشویش کی ضرورت نہیں ہے۔اسی دوران آرمی چیف جنرل ایم ایم ناروانے نے گذشتہ ہفتے دونوں ممالک کی فوجوں کے مابین تصادم کے بعدکہاتھاکہ چین کی سرحدپرانڈین فوج اپنی جگہ پرقائم ہے اورسرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچیکیلئیترقیاتی پروگرام پرکام جاری ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے جوانوں کا سلوک جارحانہ تھا لہذا انھیں معمولی چوٹیں آئیں ہیں۔
چین نے انڈیاکواس تناؤکی وجہ قراردیاہے۔چین کے سرکاری اخبارگلوبل ٹائمزکے مطابق انڈیاکودریائے گالوان(وادی)کے خطے میں کشیدگی کاذمہ دارٹھہرایاگیاہے۔انڈیانے اس علاقے میں دفاع سے متعلق غیرقانونی تعمیرات کی ہیں جس کی وجہ سے چین کو وہاں فوجی تعیناتی میں اضافہ کرناپڑاہے۔ انڈیا نے اس کشیدگی کی ابتدا کی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہان ڈوکلام جیسی صورتحال پیدانہیں ہوگی جیساکہ 2017میں ڈوکلام میں ہواتھا۔انڈیا کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے اور اس نے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے گالوان میں تناؤپیداکیا۔ وادی گالوان ایک چینی علاقہ ہے۔انڈیاکی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے انڈیااورچین کے مابین سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔انڈیا مئی کے آغازسے ہی وادی گالوان میں سرحد عبور کرکے چینی سرزمین میں داخل ہورہاہے۔
وادی گالوان کامتنازع علاقہ گالوان وادی لداخ اوراکسائی چن کے درمیان ہند-چین سرحد کے قریب واقع ہے۔یہاں(ایل اے سی)چین کوانڈیا سے الگ کرتاہے۔انڈیا اور چین دونوں اکسائی چن پراپنی ملکیت کادعویٰ کرتے ہیں۔یہ وادی چین میں جنوبی سنکیانگ اور انڈیا میں لداخ تک پھیلی ہوئی ہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسراور بین الاقوامی امورکے ماہرایس ڈی منی نے بتایا کہ یہ علاقہ انڈیاکیلئے سٹریٹجک لحاظ سے اہم ہے کیونکہ یہ پاکستان،چین کے سنکیانگ اور لداخ کی سرحدوں سے متصل ہے۔یہاں تک کہ 1962کی جنگ کے دوران دریائے گالوان کا یہ علاقہ جنگ کا مرکز تھا۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ انڈیااپنے بیرونی آقاؤں کہ شہہ پرگلگت بلتستان پرفوجی جارحیت کرکے سی پیک منصوبے کوسبوتاژکرنے کی تیاریوں میں مصروف تھااوریہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے چترال سے لیکرگلگت تک پاکستانی افواج انڈیاکے اس مکارانہ حملے کاجواب دینے کیلئے پوری طرح چوکس ہیں۔چین کے ساتھ لداخ میں چھیڑچھاڑکامقصدچین کو مصروف اورسی پیک سے توجہ ہٹانامقصودتھالیکن اب لداخ کاواہ راستہ جہاں سے انڈیاپاکستان پرحملہ کرکے پاک چین کے مشترکہ منصوبے سی پیک کونقصان پہنچانے کاسوچ رہاتھا، وہ بری طرح مکمل طورپرناکام ہوچکاہے تاہم بھارتی میڈیاچین سے جوتے کھانے کے بعداپنی شرمندگی اورخفت مٹانے کیلئے پاکستان کودہمکیاں دے رہاہے۔

Comments are closed.