اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے

مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی
اردوزبان کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ عموم وقبول حاصل ہے،بلکہ اس نے اپنے اندر اسلامی ودینی علوم وفنون کا اتنا سرمایہ منتقل کرلیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کی عام ضروری دینی تعلیم کے لئے کافی ہے ،بلکہ اسلامی تعلیمات کے وسیع تر مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کی تشفی کے لئے بھی عقلی ونقلی دونوں اعتبار سے بہت کچھ ذخیرہ فراہم ہوگیا ہے ۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ زبانوں کے اختلاف وتنوع اور قدرت ِبیان کو خود قرآن مجید کی سورہ ٔ روم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی آیات ودلائل میں شمار کیا گیا ہے ۔اور قدرتِ بیان کی تعلیم کو بطور احسان وانعام جتلایا گیاہے۔اس سے معلوم ہواکہ تمام زبانوں کا استعمال بجائے خود جائز ومباح ہے۔لیکن بعض اسباب و خصوصیات کی بنا پر بعض زبانوں کو بعض پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے۔چنانچہ عربی زبان کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو تین وجہ سے محبوب رکھو۔ ایک تو میںعربی ہوں،دوسرے قرآن عربی ہے اورتیسرے یہ کہ اہل جنت کی گفتگو عربی ہوگی۔
عربی کے بعدفارسی کو تعلق وتلبس کی بنا پر فضیلت حاصل ہے ۔جس طرح فارسی کو عربی سے مناسبت ہونے کی بنا پر فضیلت حاصل ہے اور چونکہ اس فضیلت کا اثر احکا م دینیہ میں بھی ہے،اس لئے وہ فضیلتِ دینیہ ہے۔اسی طرح بلاشبہ عربی وفارسی کے ساتھ ایسی ہی قوی مناسبت ہونے سے اردو کو بھی دینی فضیلت حاصل ہے۔بلکہ فارسی کوتو عربی سے صرف مشابہت ہی کی مناسبت ہے ،اور اردو کو فارسی وعربی سے جزئیت کی مناسبت ہے۔فارسی وعربی کے جس کثرت سے مفرد الفاظ اردو میں ہیں ،کسی زبان میںنہیں۔مفرد الفاظ ہی کیا بہت سے جملے ایسے ہوتے ہیں ،کہ بجز کا،کی وغیرہ کے پورا مادہ فارسی وعربی میں ہوتا ہے ۔یہ تو فضیلت والی زبان سے اردو کا تعلق ہوا،دوسری فضیلت اردو کی یہ ہے کہ ایشیاء بر صغیر میںدینی علوم کا اس میں غیر محدود وغیر محصور ذخیرہ ہے،جس کو علماء و مشائخ نے صدیوں کی مشقت اور اہتمام سے جمع فرمایا ہے۔خدا نخواستہ یہ زبان ضائع ہوگئی تو یہ تمام ذخیرہ ضائع ہوجائے گا،بالخصوص عام مسلمانوں کے لئے تو علمِ دین کا کوئی ذریعہ ہی نہ رہے گا ۔کیونکہ عربی نہ جاننے کی وجہ سے ان کا استفادہ اردو ہی پر موقوف ہے ،اور کیا اس طرح ضائع ہوتے دیکھنا اور اس کے انسداداورروک تھام کی فکر نہ کرنا شرعاً جائز ہے،ایک اور خصوصیت اردو کی اس کا سلیس اور آسان ہونا ہے ۔یہ بھی بڑی فضیلت ہے ،کیونکہ حصولِ دین کے لئے زبان کی آسانی کو اللہ الیٰ نے بطور احسان کے ذکر فرمایا ہے،غرض اس وقت اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے۔اس بنا پر حسب استطاعت یہ حفاظت واجب ہے،اور قدرت کے باوجود اس سلسلہ میں غفلت کرنا مؤاخذۂ آخرت کاسبب ہوگا۔
اب یہ حقیقت روزروشن کی عیاں ہوگئی کہ اردو زبان کا سیکھنا ہماری شرعی اورمذہبی ضرورت بھی ہے اس لئے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں اسلامی علوم وفنون کا بہت بڑا ذخیرہ اردو زبان ہی میں موجود ہے ،اس اعتبار سے اردوزبان آج ہندوستان میں اسلامی تہذیب کی علامت اور اسلامی علوم وفنون کی کنجی ہے۔اس لئے اردو زبان کا نہ سیکھنا سراسر نقصان دہ بلکہ شرعی اورتہذیبی لحاظ سے ہلاکت خیز ہے۔درحقیقت اردو کے بغیر دینی عقائدوتہذیبی اقدار کا تحفظ وفروغ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اردو سے وابستہ افرادکو خصوصیت کے ساتھ اردو زبان کے شرعی وتہذیبی اور علمی وتعلیمی کردار کے تحفظ اور فروغ کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اردواپنے بولنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے انگریزی اور چینی کے بعد دنیا کی تیسری بین الاقوامی زبان مانی جارہی ہے۔اس طرح فارسی ،عربی اور سنسکرت کی وارث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عوامی زبان کی حیثیت سے اردو بھی ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اس کی ابھرتی ہوئی آفاقیت کے پیش نظر عصر حاضر میں اس کے شاندار مستقبل کے لئے وہی دعویٰ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے جو تقریباً دوسو سال قبل مِکاؤلے نے انگریزی کے لئے کیا تھا۔اس وقت انگریزی یورپ کی جدید ترین ترقی پذیر زبان تھی اور آج اردو ایشیاکی جدید ترین ترقی پذیر زبان ہے۔نوری نستعلیق وغیرہ ٹائپ کی ایجاد کے بعد اب وہ دن دور نہیں معلوم ہوتا جب اپنے بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے اردو خود انگریزی کے مخصوص علاقوں میں انگریزی کے ساتھ مسابقت کرنے لگے،یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق آج بھی ستر فیصد مسلمان اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے۔ہمارے لئے ان کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اسی طرح آج ہمارے ماحول میں اور خاص طور سے اکثر انگلش میڈیم اسکولوںمیں اردو کو بہت پیچھے ڈالدیا گیا ہے جو ہمارا تاریخی ورثہ ہے۔ اُس اردو زبان سے اپنے بچوں کو کاٹ دینا، یہ ہمارا زبردست قومی،شرعی اورمذہبی نقصان ہے ،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بچے اور بچیاں جہاں وہ انگریزی اور دوسرے مضامین میں اچھے معیار کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ اردو لکھنے پڑھنے کے لئے اور اپنی اردوکتابوں کا مطالعہ جاری رکھنے کے لئے تیار ہوں ،اوراپنی زبان اور اپنی ثقافت اور اپنے ادب کو ترویج دینے میں ان کا بھی بڑا حصہ ہو۔ اس لئے کہ ہمارے بچے اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد انگلش میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم ہے۔جن کے لئے اردو پڑھنا ،لکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور ان کی فکر کرنا انگلش میڈیم اسکولوں کے منتظمین کابھی قومی،ملی اور شرعی فریضہ بھی ہے، انگلش میڈیم اسکولوں میںہمارے بچے اوربچیوں کے لئے اردو اور دینیات کی تعلیم کے نظم کا نہ ہونا ،یہ ایسی کمی ہے جس کو دور کرنا ان اسکولوں کے منتظمین کی اولین ترجیح ہونا چاہئے ،اس کی وجہ سے مغربی طرز زندگی ہی ان بچے اور بچیوںکے لئے ماڈل بھی ہے اور آئیڈل بھی۔ جس کی وجہ سے ان کے لئے فکری تہذیبی ارتداد کاسامنا ہے،اس لئے وقت کی ضرورت اور نزاکت کے پیش نظر انگلش میڈیم اسکولوں کے طلبہ وطالبات کے ساتھ ساتھ منتظمین ،معلمین ،معلمات اور عملہ سب کے لئے منظم طریقہ سے اردواور دینیات کی تعلیم کا انتظام کرنا انتہائی ضروری ہے۔اور اس تعلیم سے محرومی اسلامی معاشرہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج بن کر سامنے آچکا ہے۔اور یہ سب کچھ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ تعلیم جیسے مقدس ترین پیشہ کوبعض لوگ بزنس کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔آج علم کا تصور ۔کنسیپٹ۔بدل دیا گیا ہے،تہذیب ،آداب زندگی اوراخلاقی قدروں کا استخفاف عام ہے،جہالت بہت خوبصورت پیرہن میں آچکی ہے ،جس چیز کو ماضی میں فحاشی اوردیوثیت سے تعبیر کرتے تھے ،اب وہ ’’کلچر‘‘کی شکل میں نمودار ہوئی ہے ۔دنیا کی تمام تہذیبوں نے سپر ڈال دیا ہے ۔اس لئے آج ضرورت ہے چپے چپے اور بستی بستی میںسب کے لئے اردو پڑھنے اورپڑھانے کی اور اردو کی ترقی اور ترویج میں بھر پورحصہ لینے کی۔اور اردو پڑھ کر اپنے ایمان وعقیدے اور تہذیب کی حفاظت کرنے کی۔

Comments are closed.