بھارت نیپال سرحدی جھگڑا

عبدالرافع رسول
آج جہاں خطے میںچین ،بھارت حریفانہ ورقیبانہ کشمکش اورتلاطم عروج پر ہے اور تادم تحریرچین نے لداخ میںپوری وادی گلوان پر اپنا دعوی نہایت بلندآہنگی کے ساتھ برقرار رکھا ہواہے اورجرنیل سطح کے مذاکرات کے دوران اس نے اپنی نئی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کیا ہے ۔بھارتی میڈیاپرکذب بیانی پرمبنی تاویل وتوجیہہ کے باوجود اس صورتحال سے بھارت بطورریاست عسکری، دفاعی ،سیاسی اور نفسیاتی دبائوکاشکارہے اورمودی کے 56انچ سینے کاجنگی جوش حباب کے طرح بیٹھ کررہ گیاہے۔ وہیں2104کومودی کے بھارت میں برسر اقتدار آنے کے بعد نیپال اور بھارت کے درمیان بھی سرحدی تنائواٹھ کھڑاہواہے اورمشکل صورتحال پیداکرچکاہے۔بھارت نیپال کواپناچھوٹابھائی کہتارہاہے لیکن آج بھارت اپنے چھوٹ بھائی کی اہانت وتذلیل کرکے اس کابھی حریف ورقیب ثابت ہوچکاہے ۔نیپال جنوبی ایشیا کا ایک زمین بند ملک ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے مگر سندھ و گنگ کا میدان کا بھی کچھ حصہ نیپال میں آتا ہے۔ اس کی کل آبادی 26.4ملین ہے ۔ آباد ی کے لحاظ سے یہ دنیا کا 48واں بڑا ملک ہے اور بلحاظ رقبہ یہ دنیا کا 93واں بڑا ملک ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں چین، جنوب، مشرق اور مغرب میں بھارت ہے۔ بنگلہ دیش یہاں سے محض 27کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ بھوٹان اور نیپال کے بیچ میں بھارت کی ریاست سکم ہے۔ نیپال کا جغرافیہ انتہائی متنوع ہے۔ یہاں زرخیز میدانی زمین، جنگلاتی پہاڑ اور دنیا کے آٹھ بلند ترین پہاڑ بھی نیپال میں ہی ہے بشمول سب سے زیادہ بلند پہاڑی چوٹی جسے دنیا مائونٹ ایورسٹ کے نام سے جانتی ہے۔ نیپال کا دارالحکومت کٹھمنڈو ہے اور یہی ملک کا بڑا شہر بھی ہے۔
نیپال کاشمار غریب ملکوں میں سے ہوتا ہے اس کا سبب بھارت کا سیاسی تداخل ہے۔بھارتی تداخل کے باعث اسکی اقتصادی حالات کمزور ہے ۔پہلے بھارت نے نیپال کواقتصادی لحاظ سے اپنادست نگربنادیالیکن اب وہ اس کی جغرافیہ کابھی قلع وقمع اوراسے ہضم کرنے پرتلاہوانظرآرہاہے ۔بھارت کے حالیہ اقدام سے نیپالی عوام کی ناراضی دور کرنے کے لیے نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو ملکی پارلیمان میں یہ وضاحت دینی پڑی کہ ’’نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا‘‘۔نیپال نے بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضی کا اظہار کیا جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8مئی 2020 مئی جمعہ کو چین کے ساتھ منسلک حقیقی کنٹرول لائن پر واقع’’ لیپو لیکھ ‘‘کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔نیپال کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس کے لیپولیکھ علاقے میں 22کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر کی ہے جونیپال کی جغرافیائی سرحدکی حدودکی کھلم کھلاخلاف ورزی ہے۔
لیپو لیکھ وہ جگہ ہے جہاں بھارت، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ بھارت نے نیپال کی جغرافیائی حدودکوپامال کرنے اورنیپال کے ایک بڑے حصے کوہضم کرنے کے لئے جوبہانہ تراشاوہ یہ کہ ہندو اساطیریادیومالائی کہانیوں کے مطابق کیلاش مانسرور شیوا کی جائے قیام ہے اوربھارت کے ہندو ہر سال وہاں یاترا کے لیے جاتے ہیں۔بھارت کاکہناہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے بھارتی یاتریوں کی آمد و رفت میں کافی سہولت ہوگی۔ لیکن سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد نیپالی وزیر اعظم کو کل جماعتی اجلاس طلب کرکے وضاحت کرنی پڑی۔نیپال کی وزارت خارجہ نے بھی کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کر کے سخت احتجاج کیا اور کہا بھارت نیپال کے علاقے کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔
دوسری طرف15مئی 2020جمعہ کوکو بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے یہ بیان دیا کہ بھارت کی طرف سے مذکورہ سڑک کی تعمیر میں انہیں کچھ متنازع نہیں دکھائی دیتا ہے۔بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ نیپال ایسا چین کے اشارے پر کررہا ہو۔ نیپال نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کی سخت مذمت کی اور نیپال کے وزیر دفاع ایشور پوکھریال نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو نیپال کی تاریخ کی توہین قرار دیا ہے۔بھارتی آرمی چیف نے کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا کہ جب چین کی فوجیں لداخ میںوسیع علاقے کواپنے قبضے میں لے چکی ہے۔نیپال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سرحدی تنازع کو بھارت کے سامنے کئی مرتبہ اٹھایا ہے لیکن بھارت کی کان پرجوتک نہیں رینگی۔
نومبر 2019 میں بھارت کی طرف سے ایک نقشہ شائع کیاگیاتھااس نقشے میں نیپال کے کالاپانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔ پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھااوربھارت کومتنبہ کیاتھاکہ اس نقشے میں پائے جانے والی سرحدی ہیر پھیرکودرست کرلیاجائے ۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ نیپال کی حکومت نے بھارت کے اقدام کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اسکی شدیدمذمت کی اور اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کرے گا۔
کالاپانی سطح سمندرسے20 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور 1962کے بھارت چین جنگ کے بعد بھارت نے یہاں اپنی فوجیں تعینات کردی تھیں۔ اتنی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ کافی فوجی اہمیت کا حامل ہے۔اسے قبل نیپال اور بھارت کے درمیان تعلقات میں2015میں اس وقت تلخی اجاگر ہوکر سامنے آئی جب نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشی برادری نے سڑک جام کردی تھی۔ اس کی وجہ سے نیپال کو کافی اقتصادی پریشانی اٹھانی پڑی۔ نیپال نے بھارت پر مدھیشیوں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔یوں تو نیپال اوربھارت کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور لاکھوں نیپالی بھارت میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے پی اولی اور ان کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کا جھکا ئوچین کی طرف ہے۔ نیپال کہتاہے کہ سوال یہ نہیں کہ نیپال کا کس کے ساتھ جھکائو ہے یانہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ نیپال اپنے علاقوں پربھارت کے جھوٹے دعوے پرکیسے خاموش رہ سکتا ہے ۔اسی تناظرمیں گذشتہ کئی برسوں سے نیپال میں بھارت مخالف نعروں کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔
انڈیا کے معروف اخبار دی ٹائمز آف انڈیامیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2019میں جب بھارت نے جس ریاست جموں و کشمیر کواپنے نئے نقشے میں جموں و کشمیر اور لداخ کوبھارت کے زیرانتظام کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اس نقشے میں نیپال کے کئی علاقوںلمپیادھورا، کالاپانی اور لیپولیکھ کوبھی انڈیا کا حصہ بتایا گیا ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس اقدام کے بعد نیپال کا چین کی طرف جھکائو بڑھا ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ حکومت بھارت کا خیال ہے کہ لیپولیکھ میں سڑک کے افتتاح کو بڑی دھوم دھام سے نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ٹائمزآف انڈیاکے مطابق ایسا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس مسئلے پر نیپال کے بڑھتے ہوئے اقدامات کی وجہ سے اب دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
نیپالی وزیر اعظم اولی کاکہناہے کہ غیر ملکی فوجیں’’بھارتی فوجیں‘‘ ہماری سرزمین سے واپس جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم کسی اور کی زمین نہیں چاہتے تو ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سرزمین سے فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے۔اولی نے کہا کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نقشے کو درست کرنا چاہیے۔ یہ تو ہم ابھی کر سکتے ہیں۔ یہیں پر کرسکتے ہیں۔ یہ نقشے کی بات نہیں ہے۔ معاملہ اپنی زمین واپس لینے کا ہے۔ ہماری حکومت زمین واپس لے گی۔ نقشہ تو پریس میں پرنٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ نقشہ چھاپنے کا نہیں ہے۔ نیپال اپنی سرزمین واپس لینے کا اہل ہے۔ ہم نے ساتھ مل کر یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور یہ ساتھ بہت اہم ہے۔
نیپال کاکہناہے کہ بھارت نے 1962میں چین کے ساتھ ہونے والی جنگ کے بعد نیپال کی شمالی پٹی سے اپنی تمام سرحدی چوکیوں کو ختم کردیا تھا لیکن کالا پانی سے نہیں۔کالا پانی انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے پتھوڑا گڑھ ضلعے میں 35مربع کلومیٹر اراضی پر محیط علاقہ ہے۔ یہاں انڈو تبت سرحدی پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی سرحد نیپال سے 80.5کلومیٹر اور چین سے 344 کلومیٹر تک ملتی ہے۔ دریائے کالی کی ابتدا بھی کالا پانی ہے۔ انڈیا نے اس دریا کو بھی نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔ 1816میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے مابین سگولی معاہدہ ہوا تھا۔ اس وقت دریائے کالی کی مغربی سرحد پر مشرقی انڈیا اور نیپال کے مابین نشاندہی کی گئی تھی۔ جب 1962میں انڈیا اور چین کے مابین جنگ ہوئی تو انڈین فوج نے کالا پانی میں ایک چوکی تعمیر کی تھی۔نیپال کا دعوی ہے کہ ہند چین جنگ سے قبل نیپال نے1961میں یہاں مردم شماری کروائی تھی اور انڈیا نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ نیپال کا کہنا ہے کہ کالا پانی میں انڈیا کی موجودگی سگولی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
ایک طرف نیپال اوردوسری طرف چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت الجھاہواہے سوال یہ ہے کہ بھارت اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیک وقت ٹکرا ئوکامتحمل ہوسکتاہے ؟حال ہی میں بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ مشرقی لداخ میں بڑی تعداد میں چینی فوجی داخل ہو گئے ہیں۔ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سرحدی تنازعے کے حوالے سے انڈیا اور چین کے فوجی اہلکاروں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے لیکن تعطل ختم نہیں ہوا۔واضح رہے کہ 6جون2020کو دونوں ملکوں کی افواج کے اعلی افسران کے درمیان دودن تک مذاکرات ہوئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکاچین نے واپس جانے سے صاف انکارکردیا۔چین نے لداخ خطے میں دربوک سے دولت بیگ اولڈی تک 255کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر کی ہے۔اس سڑک کی تعمیر سے وادی گلوان تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یہ درہ قراقرم کے نزدیک ختم ہوتی ہے۔چین وادی گلوان کو اپنا خطہ تصور کرتا ہے۔ چینی فوجی گلوان وادی میں کم از کم تین مقامات پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
تادم تحریرچین نے لداخ میںپوری وادی گلوان پر اپنا دعوی برقرار رکھا ہواہے اورمذاکرات کے دوران اس نے اپنی پوزیشن سے ہٹنے سے صاف انکار کیا تواس صورتحال سے بھارت عسکری، سیاسی اور نفسیاتی دبائوکاشکارہے یہ اسی دبائوکاشاخسانہ ہے کہ اس نے عین اس موقع پر پاکستانی ہائی کمیشن کے دو اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کرتاہے اورکشمیرکی جنگ بندی لائن پرفضائی حملے یاائیرسٹرائیک کی دھمکیاں دے رہاہے۔پاکستان نے ان دھمکیوں کوگیدڑ بھبکیوں کے ساتھ تشبیہ دے کربھارت کوبالاکوٹ ائیرسٹرائیک پرمسکت جواب ملنے کے واقعے کی یاددہانی کرائی کہ اگربھارت نے پھرایسی کوئی حرکت کی جواب سخت سے سخت دیاجائے گا۔سوال یہ ہے کہ بھارت اپنے تین پڑوسی ملکوں کے ساتھ بیک وقت محاذ کھول کر کیاحاصل کرناچاہتاہے ۔

Comments are closed.