آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

مسلمانوں کی غیر مسلم بھائیوں کی آخری رسوم میں شرکت اور مدد
سوال: ابھی لاک ڈاؤن کے درمیان کئی جگہ سے یہ خبر آئی کہ مسلمانوں نے غیر مسلموں کا جنازہ اُٹھایا اور اُسے شمشان گھاٹ تک پہنچایا، تو کیا شرعا ان کا عمل جائز ہے؟ کیا مسلمان غیر مسلم میت کو غسل دے سکتا ہے، جو کپڑا اسے پہنایا جاتا ہو، پہنا سکتا ہے، اگر میت کو دفن کیا جاتا ہو تو دفن کر سکتا ہے، اور جلایا جاتا ہو تو کیا اس کی لاش کو جلا سکتا ہے، اور کیا اس کے جنازہ میں شامل ہو کر شمشان گھاٹ تک جانا درست ہوگا؟ ( شاہ نواز حسین، ملے پلی)
جواب: اس سلسلہ میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہماری رہنمائی کرتی ہے، جب حضرت ابو طالب کا انتقال ہو اتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت دی:
اذھب فاغسلہ وکفنہ وجننہ ولا تحدثن شیئاََ حتیٰ تأتیني (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر:۱۴۵۶)
’’جاؤ اس کو غسل دو کفن دو اور اس کو چھپا دو، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام اس وقت تک مت کرنا جب تک کہ میرے پاس نہ آجاؤ‘‘
یہ بات بھی احادیث میں آئی ہے کہ حضرت ابو طالب کی لاش کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی قبر پر تشریف لے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ:
الف: غیر مسلم میت کے جلوس جنازہ میں پسماندگان کی دلداری کے نقطۂ نظر سے یا آخری رسوم کے لئے افراد کار کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے جایا جا سکتا ہے۔
ب: مردہ کو غسل دیا جا سکتا ہے، یہ غسل بطور پاکی کے نہیں ہے؛ بلکہ صفائی ستھرائی کے طور پر ہے۔
ج: مردہ کو جو کپڑا پہنایا جاتا ہے، اگر نہ پہنایا گیا ہو تو مسلمان اس کام کو انجام دے سکتے ہے۔
د: اگر اس کو دفن کرنے کی ضرورت پیش آئے جیسا کہ عیسائی حضرات اپنے مردہ کو دفن کرتے ہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔
ہ: چوں کہ کسی بھی انسان کو جلانے کی ممانعت ہے؛ اس لئے مردہ کو آگ لگانا جائز نہیں؛ البتہ اگر اس کے ورثہ طلب کریں تو لکڑی اور تیل یا جو چیزیں جلانے کے لئے مطلوب ہوتی ہیں، فراہم کی جا سکتی ہیں؛ کیوں کہ یہ براہ راست آگ لگانا نہیں ہے، ایسے اسباب کا فراہم کرنا ہے جن کا استعمال جائز مقاصد کے لئے بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ شامیؒ فرمائے ہیں:
’’ویغسل المسلم ویکفن ویدفن قریبہ الکافر الأصلی عند الاحتیاج من غیر مراعات السنۃ، فیغسلہ غسل الثوب النجس ویلفہ فی خرقۃ ویلقیہ فی حفرۃ‘‘ (ردا المحتار: ۳؍ ۱۳۴)
مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کو( جو اصلاََ غیر مسلم ہوں، مرتد نہ ہوں)غسل دے سکتا ہے، بہ وقت ضرورت کفن پہنا سکتا ہے، دفن کر سکتا ہے اور وہ اسے اس کی قبر میں ڈال سکتا ہے۔
ایک اور بڑے فقیہ علامہ خطیب شرلابینی شافعیؒ ہیں، وہ فرماتے ہیں:
ولا بأس باتباع المسلم جنازۃ قریبہ الکافر (مغنی المحتاج: ۱؍۳۵۹)
’’ مسلمان کے اپنے غیر مسلم رشتہ دار کے جنازہ کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج نہیں‘‘
اس میں رشتہ دار کی قید لازمی نہیں ہے؛ بلکہ اتفاقی ہے، کیوں کہ عام طور پر غیر مسلم رشتہ داروں ہی کی آخری رسوم میں شرکت کی نوبت آتی ہے؛ اس لئے فقہاء نے رشتہ دار کی بات لکھی ہے، حاصل یہ ہے کہ آخری رسوم اسلامی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی فریضہ بھی ہے، اور شریعت میں دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھا گیا ہے؛ اس لئے مسلمان کو تو غسل وغیرہ دینا واجب ہے اور غیر مسلموں کو غسل دینا جائز ہے۔

نکاح کی فیس
سوال: علماء سے سنا ہے کہ نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور ایک عبادت ہے؛ لیکن اکثر نکاح پڑھانے والے نکاح پڑھانے کی فیس لیتے ہیں، تو کیا نکاح پڑھانے پر فیس لینا جائز ہوگا؟ ( نوید اختر، سکندرآباد)
جواب: نکاح اصل میں عبادت نہیں؛ بلکہ ایک معاشرتی معاہدہ ہے؛ اسی لئے اس کو عقد کہتے ہیں، اس بناء پر اس کا حکم ان افعال سے الگ ہے، جو اپنی اصل کے اعتبار سے عبادت ہیں، اور پھر علماء جو کہتے ہیں کہ نکاح عبادت کے درجہ میں ہے، وہ نکاح پڑھانے کو نہیں؛ بلکہ نکاح کرنے کو، مقصد یہ ہے کہ عاقدین کو یہ عمل احکام شریعت کی رعایت کرتے ہوئے انجام دینا چاہئے، جیسا کہ عبادتیں احکام شریعت کے مطابق انجام دی جاتی ہیں، نکاح کی فیس اصل میں اجرت ہے، جس میں نکاح پڑھانے والے کا عمل اور نکاح کا دستاویز دونوں شامل ہوتے ہیں، نکاح پڑھانا اور اس کے لئے دستاویز تیار کرنا دونوں باتیں جائز ہیں اور کسی بھی جائز کام پر جو پہلے سے اس کے ذمہ لازم نہ ہو، اجرت لی جا سکتی ہے، لہٰذا نکاح پڑھانے کی فیس لینا اور دینا دونوں جائز ہیں؛ البتہ عام طور پر جو اجرت مروج ہو وہی اجرت لینی چاہئے:
وکل نکاح باشرہ القاضی، وقد وجب مباشرتہ علیہ کنکاح الصغار والصغائر، فلا یحل لہ أخذ الأجرۃ علیہ، وما لم یجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الأجرۃ علیہ (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی: ۸؍۶۲)

کورٹ سے فسخ نکاح کی ایک صورت
سوال: بیوی نے کورٹ میں فسخ نکاح کے لئے مقدمہ دائر کیا، اس کا شوہر عدالت میں حاضر ہوا، جج کے استفسار کرنے پر اس نے کہا کہ آپ جو مناسب سمجھیں، کر دیں، اور جج نے ان کے درمیان طلاق کا فیصلہ کر دیا، تو شرعاََ ان دونوں کے درمیان علاحدگی ہو جائے گی؟ (حامد محی الدین ایڈوکیٹ، ناگپور)
جواب: اگر جج مسلمان ہو تب تو بہر صورت اس کا نکاح فسخ کرنا معتبر ہوگا؛ لیکن اگر جج غیر مسلم ہو تو اس کا فسخ نکاح معتبر نہیں ہوگا؛ البتہ جو صورت آپ نے لکھی ہے، اس میں چوں کہ مسلمان شوہر نے خود عدالت سے کہا ہے کہ آپ جو مناسب سمجھیں، کر دیں، تو یہ اس کی جانب سے وکیل بنانا ہے اور وکیل غیر مسلم کو بھی بنایا جا سکتا ہے؛ لہٰذا اگر اس صورت میں کورٹ نے طلاق کا فیصلہ کر دیا تو طلاق واقع ہو جائے گی:
من قال لامرأتہ إنطلقی إلی فلان حتی یطلقک فذھبت فطلقھا فلان، صح ویصیر فلان وکیلا بالتطلیق وان لم یعلم بوکالتہ (الفتاویٰ الھندیۃ : ۱؍۴۰۲)

ٹی وی کے سلام کا جواب
سوال: ٹی وی پر آنے والا شخص بعض اوقات سلام کرتا ہے، کیاس اس سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ (فضل الحق، مہدی پٹنم)
جواب: ٹی وی پروگراموں کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ پروگرام پہلے سے ریکارڈ کیا ہوا ہے اور اسے سنا دیا گیا، یہ سلام نہیں ہے؛ بلکہ سلام کی نقل وحکایت ہے، اس سلام کا جواب دینا ضروری نہیں، دوسری شکل لائیو پروگرام کی ہے، جس میں سلام کرنے والا اس وقت براہ راست ناظرین وسامعین کو سلام کرتا ہے، ظاہر ہے کہ اس کے سننے والے لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں میں ہوتے ہیں، اگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی سلام کا جواب دے دیا تو یہ واجب کی ادائیگی کے لئے کافی ہے؛ لیکن خود سننے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیا دوسرے سامعین نے اس کے سلام کا جواب دیا ہے؛ اس لئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جواب دے دیا جائے اور یہ جواب دینا اس کے لئے باعث اجر ہے۔

تقریر اور خطبہ سے پہلے سلام
سوال: بعض مقررین جب تقریر کے لئے کرسی پر بیٹھتے ہیں، تو سب سے پہلے سلام کرتے ہیں؛ بلکہ بعض خطباء جمعہ کے خطبہ میں بھی پہلے سلام کرتے ہیں، کیا اس وقت سلام کرنا درست ہے؟ ( کبیر الدین، شاہین نگر)
جواب: اگر مقرر صاحب پہلے سے جلسہ گاہ میں موجود نہ تھے، آتے ہی خطاب شروع کیا، اور پہلے سلام کیا، یا خطیب جمعہ کے پہلے سے مسجد میں نہیں تھے، آتے ہی منبر پر بیٹھ گئے تو اس صورت میں ان کا سلام کرنا درست ہے؛ لیکن اگر پہلے سے جلسہ گاہ اور مسجدمیں موجود تھے، اور سلام کر چکے تھے تو اب تقریر وخطبہ شروع کرتے ہوئے سلام نہیں کرنا چاہئے، سلام جلسہ گاہ میں آنے اور مسجد میں داخل ہونے کے وقت ہی کرنا چاہئے تھا:
’’ الخطیب إذا صعد المنبر لا یسلم علی القوم عندنا، وبہ قال مالک؛ لأنہ قد سلم عند دخولہ فلا معنیٰ لتسلیمہ ثانیا‘‘ (حلبی کبیری: ۵۶۲)

Comments are closed.