نیو یارک ٹائمز میں کشمیرپرگرافکس مجموعہ شائع

عبدالرافع رسول
کشمیرکی اصل صورتحال کوجاننے کے لئے کشمیرکے مقامی اخبارات میں شائع رشحات کوپڑھ کربہت حدتک کشمیرکی اندرکی کہانی کادقیق وعمیق پتاچل جاتاتھااوراس ضیق وانقباض سے سیرحاصل آگہی بھی مل جاتی تھی جوبھارتی فوجی جبرکے باعث یہاں پایاجاتاہے۔اپنے کندھوںط پر اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانااورانہیں مزارات شہداء میں دفنادینے سے ان کے قلق واضطراب کو کچھ مدواہوتاتھاجنازوں میں شریک لاکھوں کے اجتماع کومقامی پریس کورکرتاتھااورعہدوفاکی داستانیں رقم ہوجایاکرتی تھیں۔لیکن اب اول یہ کہ انکے پیاروں کی لاشیں انکے سپردنہیں کی جاتی ہیں اوردوئم یہ کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ کشمیرکے مقامی پریس کے حوالے سے دہلی کی طرف سے تیورمذیدکڑے ہوتے چلے جارہے ہیںاورہراس اخباراوراسکے مالک کوکڑی سے کڑی سزادینے کے لئے نئی میڈیاپالسی وضع کی جارہی ہے جوکشمیری شہدائے سے متعلق سٹوری لکھیں یابھارتی فوج کے ہاتھوںارض کشمیرپرہورہی بربریت ،ماردھاڑ،لوٹ مار،جلائوگھیرائوجیسی خبریں شائع کرے تودوسری طرف مقام شکرہے کہ عالمی اخبارکشمیرسے متعلق حقائق کوطشت ازبام کرکے دنیاکوکشمیرکی اصل صورتحال باخبرکررہے ہیں اوربھارتی چہرے سے سیکولرازم کانقاب اتارپھینک رہے ہیں۔ قطرکے ممتاز میڈیا چینل( الجزیرہ)نے 18مارچ2020کوکشمیرکی صورتحال پر ایک سٹوری کورکی جس میںبتایاگیاکہ کس طرح دہلی نے کشمیرمیں صحافیوں اور صحافتی اداروں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے ۔رپورٹ میں بتایاگیاکہ کس طرح 5اگست 2020سے لیکرمارچ 2020تک پچھلے 8ماہ سے سرزمین کشمیر پر بھارتی افواج ، اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کی نگرانی میں کشمیرمیں کام کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیابھارتی جبر تلے بری طرح سانسیں لے رہا ہے ۔
کشمیری اخبار نویسوں کے خلاف جبر ، استحصال اور توہین کے جملہ ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ہندو محقق روی آر پرشادنے جاری کی ہے۔روی پرشاد صاحب ویانا’’آسٹریا‘‘میں ہیڈ آفس رکھنے والے تحقیقی ادارے( IPI)کے ڈائریکٹر ہیں ۔دل دہلا دینے والی اس تفصیلی رپورٹ میں کشمیر کے کئی صحافیوں کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں جنھیں گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران کئی بھارتی اداروں کی طرف سے متنوع مظالم سہنا پڑے ہیں ۔ حفظِ ماتقدم کے تحت ، رپورٹ میںکئی کشمیری صحافیوں کے نام بدل دیے گئے ہیں لیکن کئی صحافیوں نے جرات سے اپنے اصل نام شایع کرنے کے اجازت دی ہے ۔ جس روز (IPI)کی مذکورہ تہلکہ خیز رپورٹ نے دنیا کے سامنے بھارت کا گھنائونا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب کیا، اسی روز نیویارک میں بروئے کار بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے عالمی ادارے (CPJ) کی سینئر ایشیا ریسرچر نے بھی یہ انکشاف کرکے دنیا کو بتایا ہے کہ عالمی لعن طعن اور مذمتوں کے باوجود کشمیر میں بھارت مختلف النوع جبریہ اقدامات سے باز نہیں آرہا ۔
جمعہ 12جون 2020امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے جموںوکشمیرسے تعلق رکھنے والے ناول نگار ملک سجاد کی تیار کردہ 24گرافکس کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے جن میں ارض کشمیر میں طویل ترین بھارتی محاصرے کے دوران لوگوں کے دکھ درد کی منظر کشی کی گئی ہے۔ سجاد نے محض 15برس کی عمر سے سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار(GREATER KASHMIR) کے ساتھ بطور کارٹونسٹ کام کرنا شروع کر دیا تھا اور وہ اپنی گرافکس میں بھارتی فوج کے ہاتھوںاسلامیان کشمیرپرہورہے وحشت انگیزمظالم اوراس کے نتیجے میں انکی ابتر ہوتی ہوئی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ان خاکوں کے ذریعے جہاں وادی کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم بے نقاب ہوئے وہیں سرزمین کشمیر پر طویل ترین لاک ڈائون اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے اجاگرہوئے ہیں۔
تین عشروں سے بھارتی فوج کے ہاتھوں لگاتارجار ی جبر،بربریت،ماردھاڑ،لوٹ مار ،،جلائوگھیرائو،لوٹ ماربندشیںاور کرفیو سے وادی کشمیر میں عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ بلاشبہ امریکی اخبارکا تصویری خاکہ سے عالمی رائے عامہ کو کشمیری مسلمان مشکل ترین روزوشب کیسے گذارنے پرمجبورہیںسمجھنے میں مددملے گی۔ ناول نگار ملک سجاد کی تیار کردہ گرافکس کا یہ مجموعہ وادی کشمیر میں طویل ترین بھارتی محاصرے کے دوران لوگوں کے دکھ درد کی منظر کشی کررہی ہے اور وہ اپنی گرافکس میں کشمیریوں کی ابتر ہوتی ہوئی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں۔یاد رہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے زائد عرصے سے بھارتی محاصرہ اور نظام زندگی کو مفلوج کرنے دینے والا لاک ڈائون جاری ہے جبکہ مہلک وبا کروانا کی آڑ میں24مارچ 2020سے یہ محاصرہ مزیدسخت ہوچکاہے۔ جموں وکشمیر میں قبرستان کی مانند سناٹا ہے،لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہ لیاجائے کہ کشمیریوں نے بھارتی جابرانہ قبضے پرخاموشی اختیارکرلی ہے۔ یہاںدہائیوں سے کشمکش پائی جارہی ہے اس کالازمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس آتش فشاں میںاندرہی اندرسے جولاوا پک رہاہے وہ اچانک ابل پڑتاہے پھٹ پڑتاہے جس کاارتعاش دوردورتک محسوس کیاجاتاہے ۔
اسے قبل جمعرات 3 اکتوبر 2019کوبھی امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مظلوم کشمیریوںکی آواز بنتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اداریہ شائع کردیا۔ نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے مسئلہ کشمیر پر اداریہ شائع کرتے ہوئے لکھاتھا کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو اب مزید نظر انداز نہیں کر سکتا اور بھارت کے اقدام نے دو جوہری طاقتوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔اخبار نے لکھا تھاکہ ہندو انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے عام کشمیری نوجوانوں،سیاسی کارکنوں، وکلا ء اور صحافیوں کو گرفتار کیا ، ذرائع مواصلات پر مکمل پابندی لگائی اور کرفیو سمیت کشمیریوں پر مسلسل تشدد کی راہ اختیار کی۔امریکی اخبار نے لکھاتھاکہ اگر بھارتی وزیراعظم کا خیال کہ انہوں نے مسئلہ حل کرلیا ہے تو وہ غلط سوچ رہے ہیں، اس سے محض کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے۔کشمیرپریہ ادارتی نوٹ لکھنے سے قبل 24اگست 2019کوبھارت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل وریندا گورو نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے لیے لکھی گئی ایک سٹوری میں کشمیر کو قبرستان کی طرح خاموش قرار دیا۔1500الفاظ پر مشتمل اپنی رپورٹ میں انہوں نے ویڈیو اور تصاویر کا بھی استعمال کیا جس سے کشمیر کی صورتحال عیاںہوئی ہے۔
نیویارک ٹائمزکے ساتھ ساتھ واشنگٹن پوسٹ بھی کشمیرپراپنی رپورٹس شائع وجاری کرتارہاہے ۔واشنگٹن پوسٹ نے سروے میں بھارت کے خلاف مظلوم کشمیریوں کے اصل جذبات کو طشت از بام کیا ہے۔ مارچ 2020 کے پہلے ہفتے میں شایع ہونیوالے کشمیرپر اس کے ایک سروے میںبتایاگیاکہ کشمیری نوجوانوں کی واضح اکثریت بھارت سے مکمل آزادی چاہتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: سروے میںواضح طور پر اجاگر ہوا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کے سنگین و ظالمانہ کریک ڈاون اور ذرایع مواصلات کی مستقل بندش کے باوجود بھی کشمیری نوجوانوں کی بڑی اکثریت پرامید ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور جلد یابدیر کشمیری عوام کا حقِ خودارادیت بہرصورت تسلیم کرلیا جائے گا۔
ادھر13جون 2020ہفتے کوایک امریکی سرکاری رپورٹ میں بھارت میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں پر حملوں اور انکے ساتھ امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے تیار کردہ انٹرنیشنل مذہبی آزادی رپورٹ 2019 جس میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے بڑے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میںکشمیرکابطورخاص تذکرہ کیاگیا ہے کہ بھارتی حکومت نے دسمبر2019کے وسط تک کشمیر میں بیشتر مساجد کو بھی بند رکھا ۔ یہ رپورٹ10جون 2020 بدھ کوسیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جاری کی۔ رپورٹ میں گذشتہ برس اگست میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور دسمبر میں بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کی منظوری کو گذشتہ سال بھارت میں پیش آنے والے بڑے واقعات کے طور پر پیش کیا گیا۔ امریکی رپورٹ میں کہا گیا متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد اترپردیش اور آسام میں مظاہرین اور بھارتی فورسز کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں 25شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں متعدد غیر سرکاری تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کی ان تمام رپورٹس جن میں مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں پرہورہے تشدداور ہلاکتوں کے مرتکب فرقہ وارانہ جماعتوں کو قانونی اداروں کی طرف سے نظرانداز کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بابری مسجد کیس سے متعلق بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ برائے سال 2019کے عنوان سے رپورٹ میں بھارت میں مذہبی آزادی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ سینیٹر مارکی نے محکمہ خارجہ سے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کی درخواست کی۔ انہوں نے امریکی حکومت سے یہ بھی اپیل کی کہ بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

Comments are closed.