تیرا میرا رشتہ کیا ہے؟

اسجد عقابی
عموماً ایسے سوالات ‘ناراض رشتہ دار’ اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کیلئے ایک دوسرے سے کرتے ہیں، لیکن وبائی زمانے میں پیش آئے پے در پے واقعات و حادثات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ رشتے صرف وہی نہیں کہلاتے ہیں، جنہیں خونی رشتوں سے تعبیر کیا جائے یا بندھن میں باندھ کر بنایا جائے۔ بلکہ اگر رشتوں کی تقسیم کی جائے تو سینکڑوں قسم کے رشتے بنتے ہیں۔ بعض ایسے رشتے بھی ہوتے ہیں جن کی ڈوریں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ انہی رشتوں کے درمیان ایک رشتہ عوام کا اپنی قیادت اور اپنی حکومت سے ہوتا ہے۔ اس رشتہ کی سب سے مضبوط کڑی ‘اعتماد’ ہے۔ اعتماد ایسا ستون ہے جو اس رشتہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھتا ہے، اگر اعتماد ٹوٹ جائے یا اعتماد کی ڈور ڈھیلی پڑ جائے تو یہ رشتہ کمزور ہوجاتا ہے یا پھر ٹوٹ کر بکھر جاتاہے۔
جمہوریت میں عوام اپنے نمائندوں کو اسی اعتماد کی بنیاد پر ووٹ دیکر ایوان تک پہنچاتے ہیں، تاکہ یہ ہمارے کام آسکے۔ ہمارے دکھ درد میں شامل ہوسکے۔ ضرورت کے وقت ہماری مدد کرسکے۔ پریشانی میں ہمارا تعاون کرسکے۔ ہماری راہنمائی کرسکے۔ ترقیات کی جانب توجہ دے سکے۔ علاقائی سطح پر امن و امان کو بحال رکھ سکے۔ تعلیمی نظام کو قابلِ ذکر بناسکے۔ معیشت کی جانب خصوصی توجہ دے سکے۔ حفظانِ صحت کی جانب موثر اقدامات کر سکے اور ان جیسے دیگر توقعات وابستہ ہوتے ہیں ایک ‘قائد’ سے، اور ان کی بنیادی وجہ وہ اعتماد ہے جو عوام اپنے ‘قائدین’ سے وابستہ رکھتے ہیں۔ اور انہی وعدوں کے رتھ پر سوار ہوکر قائدین منتخب ہوتے ہیں۔
لیکن کیا ہمارے ملک کے منتخب نمائندے ان اعتماد پر مکمل اترتے ہیں؟ جواب بالکل واضح ہے، موجودہ صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قائدین نے اپنے علاقے کے افراد کے ساتھ کیا رویہ اپنایا ہے، اور موجودہ منتخب حکومت نے عوامی پریشانیوں کو حل کرنے کےلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ ‘مہاجر مزدوروں’ کی صورتحال نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان غریبوں کا قصور کیا ہے۔ خود کو ‘مسیحا’ کہنے والے قائدین اپنے گھروں کے پرتعیش فرودگاہ میں بیٹھے سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کو کھلے آنکھوں دیکھ رہے تھے، لیکن قساوت قلبی نے ان کے دیدوں کو اس قدر خشک بنا رکھا تھا کہ، افسوس کے آنسو تو درکنار، ان غریبوں کی حالت پر کہنے کیلئے اور ان کی دلجوئی کیلئے چند الفاظ کا ‘تلفظ’ بھی ادا نہ کرسکے بلکہ ان غریبوں کی حالت زار پر ‘مزاحیہ’ جملے کسے ہیں کچھ تو اس طرح کی اموات کو عمومی اموات سے تعبیر کرتے ہوئے اس سے دلبرداشتہ نہ ہونے کو کہہ رہے تھے کچھ بے حس لیڈران نے تو ان غریب مزدوروں کی موت کو سیاسی مفاد کی خاطر خوب استعمال کیا ہے اور سیاسی روٹیاں سینکی ہیں- ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بجائے ایک پارٹی دوسری پارٹی کو، ایک لیڈر دوسرے لیڈر کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ غریبوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگنے والے غریبوں کے خالی ہاتھ دیکھ کر اسے سامان ‘تضحیک’ بنائے پھرتے نظر آئے ہیں۔ کبھی غریبوں کے قدموں کو پانی سے دھونے والے، ان غریبوں کے قدموں میں لپٹے چیتھڑے کا مذاق اڑاتے نظر آئے ہیں۔ الیکشن کے زمانہ میں غریبوں کی تھالی میں اپنی بھوک مٹانے والے لیڈران، اس بھکمری کے زمانے میں ان غریبوں کی خالی تھالی پر تالی بجاتے نظر آئے ہیں۔
ہمارے ملک میں عوام اور حکومت کا رشتہ ایک کچی ڈور کی مانند ہے، جو صرف الیکشن کے زمانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بقیہ کے پانچ سال دیدار یار کو آنکھیں ترس جاتی ہے، لیکن امکان کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ بعض ایسے لیڈران بھی ہیں، جو الیکشن کے زمانہ میں ہی نظر آتے ہیں، اس کے بعد ان کی نظر اپنے علاقہ سے پھر جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ، یہ حال لیڈران کی بیجا بے التفاتی سے واقع ہوا ہے، بلکہ اس میں عوام بھی برابر کے شریک ہے۔ ہمارے ملک میں ووٹنگ نمائندے کے کام کاج سے نہیں، بلکہ پارٹی اور مذہب کے نام پر ہوتی ہے۔ اگر عوام کام کاج کی بنیاد پر ووٹنگ دینے اور منتخب کرنے کا عزم کرلیں تو پھر ان نمائندوں سے سوال کرنا، ان کے کام اور ان کی کارکردگی کو جانچنا سب کچھ ممکن بھی ہوگا اور آسان بھی۔ ایسی صورت میں یہ بات ہر لیڈر کے ذہن میں محفوظ رہے گی کہ کام کے بغیر عوام کی حمایت نہیں مل سکتی ہے۔
اس بات کو بتانے کی ضرورت ہے کہ، ووٹنگ اور انتخاب کا عمل نفرت کی بیج بونے، انسانیت دشمنی اور ذات پات پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق براہ راست عوام کے فلاح و بہبود سے وابستہ ہے جو عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے خواہ وہ کسی بھی مذہب اور پارٹی سے تعلق رکھتا ہو منتخب کیا جائے گا اور جو اس کے برخلاف ہو جو عوامی توقعات کے مطابق نہ ہو، جو اپنی عیش پرستی میں مگن ہوکر عوام سے رشتہ توڑ لے انہیں نہ منتخب کیا جائے پھر دیکھیے مذہب ذات پات اور زبان و نسل کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے- ملک کے عوام کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں عوام اور قائد کا رشتہ خوف و دہشت کا نہیں ہونا چاہیے جو قائد جو لیڈر جو رہنما خوف و دہشت پھیلا کر، نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں ان سے دوری اپنائیں جبھی ملک کی ترقی ممکن ہے نفرت اور دھوکے باز پارٹیوں کو آزما کر دیکھ لیا گیا ہے کہ ملک ایک بار پھر ۱۹۴۷ میں پہنچ گیا ہے اس لیے نفرت کا خاتمہ کرکے ترقیات اور عوامی خدمات کرنے والوں کو منتخب کریں، ہاتھوں میں قلم کی قدر کرنے والوں کو چنیں نہ کہ گولی بندوق اور خون خرابہ جیسی باتیں کرنے والوں کو ایسی پارٹی کے امیدواروں کو جتائیں جس کے لیڈران صاف و شفاف ہوں، بے داغ شبیہ کے مالک ہوں اگر کسی بھی پارٹی میں ایسے لیڈران نہیں ہیں تو سیکولر پارٹی کی بنیاد رکھیں اصول و ضوابط، مضبوط قانون بنائیں تاکہ اس نئی پارٹی میں کوئی فرقہ پرست داخل ہوکر اسے داغدار نہ کردے – مجرم پیشہ افراد، گناہوں کے دلدل میں پھنسے امیدوار اور نفرت کے پجاری امیدوار سے اپنا رشتہ توڑ لیا جائے تاکہ ہم ایک بہترین اور پر امن ہندوستان، جس کا خواب ہمارے آباء واجداد اور مجاہدینِ آزادی نے دیکھا تھا تعمیر کرسکے اور عوام کو خوشحال بنانا ممکن ہوسکے۔
Comments are closed.