مقصد کی تعیین کامیابی کی اولین شرط!

 

نقی احمد ندوی

ریاض ، سعودی عرب

[email protected]

تیرہ سال کی عمر سے ایک معمولی اخبار میں لکھنے والا، ”نپولین ہل“ مرنے سے پہلے کروڑوں لوگوں کو جینے اور کامیاب ہونے کا فن سکھاگیا، اس نے اپنی زندگی کے پچیس سال اس ریسرچ میں صرف کردیے کہ دنیا میں ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے مگر ہوتا نہیں ہے۔ آخر وہ کون سے اسباب و وجوہات اور اصول وقوانین ہیں جن کو اپنا کر کچھ لوگ اتنے کامیاب ہوجاتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ نپولین ہل نے اپنے دور کے پانچ سو سے زائد مشہور و معروف شخصیات جن میں سائنسداں، صنعت کار، ارب پتی افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے کا انٹرویو لیا، ان کی زندگی کا مطالعہ کیا اور ان کی زبردست اور محیر العقول کامیابیوں کے پیچھے کارفرما اسباب و عوامل کو جاننے کی کوشش کی جن کی بنیاد پر وہ دولت و شہرت اور ترقی و عروج کی ثریا تک پہنچے۔

26/اکتوبر 1983ء میں امریکہ میں نپولین ہل کی پیدائش ہوئی، ماں کا انتقال دس سال کی عمر میں ہوگیا مگر پھر بھی انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی، تیرہ سال کی عمر سے ہی مقامی اخبارات میں مضامین لکھنا شروع کردیے، سترہ سال کی عمر میں ہائی اسکول پاس کرلیا، پھر وکالت کی پڑھائی کرنا چاہی، مگر مالی مشکلات کے باعث وکیل بننے کا خواب نہ پورا ہوسکا اور وکالت کی پڑھائی ادھوری رہ گئی۔ تھوڑے دنوں بعد ایک میگزین میں نوکری کرلی۔ بچپن سے لکھنے کی عادت اور بہترین قلمی صلاحیت نے نپولین ہل کو بہت جلد ہی صحافت کے میدان میں آگے بڑھا دیا، چناں چہ ایک دن ایڈیٹر نے اس نوجوان صحافی کو امریکہ کے سب سے امیر آدمی کا انٹرویو لینے کے لیے انتخاب کیا جن کا نام انڈریو کارنیج تھا۔ ایک معمولی کلرک سے دنیا کے ارب پتیوں کے کلب میں شامل ہونے والے انڈریو کارنیج کی شخصیت گونا گوں صفات کی حامل تھی۔ اگر وہ ایک طرف اسٹیل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے تو دوسری طرف تحقیق و جستجو کا بھی انہیں شوق تھا، ان کا خیال تھا کہ دنیا کے تمام شعبوں میں جو لوگ ترقی و عروج کی اونچائیوں تک پہنچتے ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ ایسی صفات ضرور پائی جاتی ہیں جو سب میں مشترک ہوتی ہیں۔ آخر وہ صفات اور خصوصیات کون سی ہیں؟ جب نپولین ہل نے انڈریو کارینج کا انٹرویو لیااور دونوں کا آپس میں تعارف ہوا توانڈریو کو نپولین ہل کی شکل میں ایک ایسا محقق مل گیا جو ان کے لیے کام کرسکتا تھا، لہٰذا انھوں نے نپولین ہل کو دنیا کے پانچ سو کامیاب ترین افراد کا انٹرویو لینے اور ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے کی ذمہ داری سونپی اور کہا کہ ان سب کی کامیابی کا راز کیا ہے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں۔

نپولین ہل نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بیس سال تک دنیا کے مشہور و معروف کامیاب افراد کا انٹرویو لیا۔ ان کی زندگیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر چار ضخیم جلدوں میں اپنی تحقیق اور ریسرچ کو جمع کیا جو "The Law of Success”کے نام سے شائع ہوئی۔ نپولین ہل نے اپنے دور کی جن اہم شخصیات کا انٹرویو لیا تھا، ان میں ہنری فورڈ، تھوماس ایڈیسن، گراہم بل اور وڈرو ویلسن جیسی شخصیات شامل تھیں۔ اس کے بعد 1937ء میں نپولین ہل نے "Think and Grow Rich” کتاب لکھی۔ جو اپنے موضوع پر نہ صرف ایک معرکۃ الآراء کتاب تسلیم کی جاتی ہے بلکہ اس کتاب نے پوری دنیا میں اتنی مقبولیت حاصل کی کہ اس کے کروڑوں نسخے اب تک بک چکے ہیں اور بے شمار لوگوں نے اس کتاب سے استفادہ کرکے اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ اس کتاب میں نپولین ہل نے کامیابی کا پہلا اصول جو لکھا ہے وہ مقصد کی تحدید و تعیین ہے۔ زندگی میں اگر مقصد نہیں تو زندگی بے رنگ اور بے سود ہے۔

جس طرح خوشبو کے بغیر پھول کا، نغمہ کے بغیر گیت کا اور لہراتی اور بل کھاتی ہوئی لہروں کے بغیر کسی سمندر اور ندی کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا اسی طرح کسی خاص مقصد اور ہدف کے بغیر کامیابی کا تصور بھی محض  ایک سراب اورخیال ہے جس کے خوبصورت نقوش ذہن و دماغ کے پردوں پر تو دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت کی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ کامیابی کا مطلب ہی ہے کام کو پالینا، لہٰذا زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک مقصد اور ہدف کا سامنے ہونا ضروری اور لازم ہوتا ہے۔

میں اپنی زندگی کی طرف پلٹ کر جب دیکھتا ہوں تو نپولین ہل کی بات صد فیصد صحیح نظر آتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاندار کامیابی کے لیے ایک شاندار مقصد کا ہونا ضروری ہے اور صدر جمہوریہئ ہند اے پی جے عبدالکلام نے بھی تو یہی کہا ہے کہ کسی خواب کے شرمندہئ تعبیر ہونے کے لیے خواب دیکھناضروری ہے۔ میں آپ ہی کی طرح جب مدرسہ میں آیا تو میرے سامنے کوئی خاص مقصد اور ہدف موجود نہیں تھا، مجھے یاد ہے کہ اترپردیش کے مدرسہ ضیاء العلوم میں تین سال پڑھنے کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں جون 1986ء میں جب داخلہ لیا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں ایک نئی دنیامیں آگیا ہوں۔ بلند و بالا او ر پرشکوہ عمارتیں، عظیم الشان لائبریری، بڑا سا گراؤنڈ، وسیع و عریض کلاس روم، بڑے بڑے ہال جہاں پر طلباء تقریر و تحریر کے جوہر دکھاتے۔ مختلف قسم کے علمی و ادبی پروگرامس اور فاضل اساتذہ کے تبصرے اور ریمارکس غرض یہ کہ ایک نئی دنیا تھی جس کا موازنہ ایک چھوٹے سے شہر کے کسی معمولی مدرسہ سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا تھا۔

حیرت واستعجاب کی یہ کیفیت دھیرے دھیرے احساس کمتری میں اس وقت تبدیل ہوگئی جب میں نے اپنی عمر سے کم کے بچوں کو اسٹیج پر شعلہ فشاں تقریریں کرتے سنا، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا کم علم ہوں کہ یہاں کے بچے بھی مجھ سے بہتر نظر آرہے ہیں۔ اس احساس نے اگلے دو تین سالوں تک مجھے سخت محنت کرنے اور جلدازجلد طلباء کے اندر ایک مقام پیدا کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ میں نے شب و روز محنت کی، سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کا اور اپنی تقریر و تحریر کی صلاحیت میں اضافہ کرکے جلد ہی قابل اور کامیاب طلباء کی پہلی صف میں آگیا۔ میری عربی زبان بہتر ہوچکی تھی۔ اردو زبان پر بہترین قدرت حاصل تھی، تاریخِ اسلام میری زبان پر تھی اور قرآن و حدیث کی قابل قدر سمجھ پیدا ہوچکی تھی، اب احساس کمتری کی کیفیت آہستہ آہستہ احساس برتری میں تبدیل ہونے لگی۔

دورِ طالب علمی میں میرے دوست و احباب اور کلاس ساتھی علم و ادب میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہمیشہ کوشش کرتے تھے اور میں بھی کسی سے کم نہ تھا۔ ذہین تھا، محنتی تھا اور سب سے بڑھ کر زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا مگر ندوہ سے فراغت کے بعد جب حقیقی دنیا میں ہم نے قدم رکھا تو میرے کلاس کے وہ ساتھی جو کسی بھی طرح مجھ سے زیادہ ذہین اور محنتی نہیں تھے، وہ سب صرف چند سالوں میں مجھ سے کہیں آگے نکل گئے۔ ان میں کوئی پروفیسر بن گیا، کوئی آئی اے ایس آفیسر بن گیا، کوئی مقرر اور خطیب بن گیا تو کوئی شاعر اور ادیب، کوئی ڈاکٹر بن گیا تو کوئی محقق اور اسکالر مگر میں تیس سال کے بعد بھی جب اپنی کامیابی کا جائزہ لیتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ آج میں کسی بھی مقام پر نہیں ہوں۔ اب مجھے ان کی کامیابی اور ناکامی کی وجہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ میرے کامیاب ساتھیوں کے سامنے دورِ طالب علمی ہی میں ایک خاص مقصد تھا، ایک منزل تھی اور انہیں پتہ تھا کہ کہاں جانا ہے۔ وہ ایک سمت میں چل رہے تھے اور میں بے سمت چل رہا تھا، میرا مقصد متعین نہ تھا، میری منزل خاص نہیں تھی، میرا نشانہ کلیئر نہیں تھا، جس کی وجہ سے میں کہیں نہیں پہنچ سکا اور یہی غلطی بیشتر طلباء کرتے ہیں۔

جب آپ ایک سمت اور ایک جہت میں چلتے ہیں تو چاہے آپ آہستہ چلیں، مگر ایک نہ ایک دن آپ اپنی منزل پرضرور پہنچ جائیں گے۔ آپ نے کبھی کسی ایسی ٹرین یا پلین کا ٹکٹ لیا ہے جس کے بارے میں آپ پتہ نہیں کہ وہ کہاں جائے گی، مگر آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے، ہرگز نہیں۔تو پھر ہم زندگی کے سفر پر کیسے نکل سکتے ہیں اور ہمیں پتہ نہیں کہ سمندر کے کس ساحل پر یہ زندگی ہمکنار ہوگی، جب کوئی طالب علم اپنی زندگی کا ایک مقصد اور مشن طے کرلیتا ہے تو پھر اس کے اندر توانائی، حوصلہ، لگن، یکسوئی، وقت کے صحیح استعمال، حالات سے پنجہ آزمائی، طوفانوں سے مقابلہ آرائی اور ایک ایسا جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے جس کی بنیاد پر وہ غیر معمولی کارنامے اور حیرت انگیز کرشمے کردکھاتا ہے۔

اور ایسا ہی حیرت انگیزکرشمہ ویلما روڈولف (Wilma Glodean Rudolph) نے کردکھایا، ایک معمولی گھرانہ میں پیدا ہونے والی لڑکی جو پولیو کی وجہ سے چلنے سے معذور تھی، ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی چل نہیں پائے گی، جب وہ محض چار سال کی تھی تو اس کو پولیو ہوگیا اور اس کا بایاں پیر مفلوج ہوگیا، وہ اپنے ناتواں اور کمزور پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی تھی لہٰذا ڈاکٹروں نے اس کے پیرمیں Braceلگادیا تاکہ اس کے سہارے وہ چل سکے۔ جب وہ نو برس کی ہوئی تو ڈاکٹروں نے آرتھوپیڈک جوتے کے استعمال کی صلاح دی۔ ویلما کے پیر گرچہ کمزور تھے مگر ا س کے حوصلے انتہائی بلند تھے، وہ دوسرے بچوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ وہ بھی دوڑنا چاہتی ہے، مگر اس کے کمزور پیر اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک روز ویلما نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف دوڑنا چاہتی ہے، بلکہ وہ دنیا کی سب سے تیز دوڑنے والی لڑکی بننا چاہتی ہے۔ ویلما نے یہ طے کیا کہ چاہے، جو کچھ بھی ہوجائے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکررہے گی۔ اس عظیم الشان مقصد نے ویلما کے اندر ایک نئی روح اور ایک نئی جان پھونک دی، وہ تکلیف اور درد کے باوجود چلنے کی پریکٹس کرنے لگی۔ 1940ء میں پیدا ہونے والی لڑکی جو اپنے پیروں سے لاچار تھی، اپنی زندگی میں مخالف طوفان سے لڑنے نکل گئی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ بغیر کسی سہارے کے چلنے لگی۔ 1952ء یعنی گیارہ سال کی عمر میں وہ دوڑنے لگی۔ ویلما کہتی ہے کہ ا سوقت میں اپنی گلی اور محلہ کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں سے کودنے پھاندنے اور ریس کا مقابلہ کرنے لگی تھی۔

ویلما جس اسکول میں پڑھتی تھی وہاں وہ کھیل کود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اس کے اسکول میں باسکٹ بال کھیلاجاتا ہے جس میں وہ دوسرے طلباء کے ساتھ کھیلتی تھی مگر ویلما کی ایک خوبی ایسی تھی جو دوسرے بچوں میں مفقود تھی، وہ دوڑتی بہت تیز تھی، اسکول کے کوچ نے ویلما کی اس خوبی کو نوٹ کیا اور اسے مشورہ دیا کہ باسکٹ بال کے بجائے وہ (Sprints) میں حصہ لے۔ اسپرنٹس مختصر فاصلے کے دوڑکے مقابلے کو کہا جاتا ہے۔ ویلما نے دوڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی اور بہت جلد ہی نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کے قابل ہوگئی۔ اسی درمیان آسٹریلیا کے میلبورن میں اولمپک کا مقابلہ ہونے والا تھا، ویلما نے اس میں حصہ لیا اور کانسہ کا تمغہ جیتا۔ یہ1956ء کا اولمپکس گیم تھا اور ویلما کی یہ پہلی جیت تھی، اس وقت ویلما کی عمر سولہ سال تھی۔ 1960ء کے اولمپک گیمس سے پہلے ہی ویلما نے دوسو میٹر کی ریس 22.9سیکنڈ میں جیت کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا تھا، اور 1960ء میں روم کے اولمپکس ریس میں سو میٹر11.3سیکنڈ، دو سو میٹر23.2سیکنڈ اور 4×100میٹر کی ریس جس کی وہ ٹیم ممبر تھیں 44.4سیکنڈ میں جیت کر تین گولڈ میڈل جیت لیا۔اس طرح ایک معذور لڑکی امریکہ کی وہ پہلی خاتون کھلاڑی بن گئی جس نے ایک ہی اولمپک میں تین ریسوں میں لگاتار جیت کر تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے تھے۔(1)

ایک معذور اور اپاہج لڑکی جس کو ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ کبھی چل نہیں پائے گی اپنے عزم و حوصلے کی ایسی کہانی لکھ رہی تھی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی -مارک ٹوین ایک مشہور امریکی مصنف، افسانہ نویس اور ناول نگار ہیں، جن کی ادبی تخلیقات امریکن کلاسیکل ادب میں ایک مایہ ناز مقام رکھتی ہیں، ان کا مشہور قول ہے:

"آپ کی زندگی میں دو دن ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں۔ پہلا دن وہ جس دن آپ پیدا ہوئے، دوسرا دن وہ جس دن آپ کو یہ انکشاف ہوگیا کہ آپ کیونکر پیدا ہوئے۔”

Comments are closed.