آن لائن تدریس اور تعلیمی فیس

ابو تابش ندوی،کلکتہ
موبائل:91630 85211
کرونا وائرس یا کووڈ -۱۹سے بچنے کے لئے اپنایی گئی احتیاطی تدبیر بندش کامل نے کئی نیے مسائل کھڑے کیے ہیں اور ایسا کہا جارہا ہے کہ مختلف اعتبار سے انسانوں کی کمر ٹوٹ سی گئی ہے۔ ان بڑے نقصانات میں ایک نقصان بچوں کی تعلیم کا ہے ۔ بندش کامل کے آغاز سے ہی تمام تعلیمی اداروں کی سرگرمیاں بالکلیہ معطل ہیں اور فی الوقت اس کے امکانات بھی ناپید ہیں کہ ان میں از سر نو روح پھونکی جاسکے گی۔ ان حالات میں ایک بڑا مسیلہ یہ سامنے آیا کہ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی خلاف معمول گھروں میں بند ہوگئے۔ اور ابتداء سے ہی ایسے واضح اشارات ملنے لگے کہ معطلی کا یہ سلسلہ دراز ہوگا۔ ایک طرف تو والدین و گارجین حضرات کو یہ فکر دامنگیررہنے لگی کہ بچوں کے تعلیمی نقصان کا تناسب شاید اتنا بڑھ جایے گا کہ اس کی تلافی ناممکن ہوگی۔ اور مشغولیتوں سے یکسر خالی ہونے کی وجہ سے گھروں میں رہتے ہوئے بچوں کی ضدوں اور شرارتوں کے نت نئے روپ سامنے آنے لگے اور والدین حضرات اپنی اولادوں سے بے پناہ محبتیں کرنے کے باوجود ان کی شرارتوں سے دق محسوس کرنے لگے اور ہفتہ عشرہ میں ہی یہ سوچنے لگے کہ خدایا کب حالات معمول پہ آئیں گے اور بچوں کی تعلیم گاہوں اور ٹیوشنوں کی مصروفیات از سر نو شروع ہونگی۔ اور دوسری سمت اسکولوں اور مدارس و مکاتب کے ذمہ داران کو یہ غم ستانے لگا کہ تدریسی سلسلہ موقوف ہونے اور معاشی مار سہنے کی وجہ سے جب ہم بچوں کے گارجینوں سے تعلیمی فیس کے مطالبہ کا حق بھی کھو بیٹھیں گے تو ہمارے جائزو ناجائز بالخصوص تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی تنخواہوں کے اخراجات کی تکمیل کیسے ہوگی۔
بس ان ہردو فکروں کے پیش نظر یکے بعد دیگرے مختلف تعلیمی اداروں نے مختلف ایپس کے ذریعہ آن لان تدریس کا سلسلہ شروع کردیا اور گزشتہ ڈھائی ماہ سے تقریبا ستر سے اسی فیصد کامیابی کیساتھ یہ سلسلہ تدریس جاری ہے۔ ابتداء تھوڑی بہت مخالفت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ چلتا رہا اور فی الوقت زیادہ تر تعلیمی ادارے اس پر عمل پیرا ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اگرچہ یہ طریقہ تدریس کلاس روم میں بالمشافہ تدریس کا مقابلہ تو نہیں کرسکا، جس کا احساس طلبہ، گارجین، اساتذہ اور ذمہ داران کو بھی ہے، لیکن وہ بچے جو خالی وقت سوتے ہوئے، موبائل میں گیم کھیلتے، کارٹون چینل دیکھتے یا ایسے مہلک حالات میں باہر نکلنے کی ضد کرتے ہوئے گزار دے رہے تھے وہ کم از کم چار سے پانچ گھنٹوں کے لئے مصروف ہوگئے اور اس سلسلہ کے شروع ہونے کے دوچار دنوں بعد سے ہی انہیں یہ فکر دامنگیر رہنے لگی کہ اب کلاس شروع ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے یا ہمیں فلاں اور فلاں ہوم ورک کرنا ہے۔ گارجین نے کسی حد تک عافیت محسوس کی اور یہ خدشات کم ہوتے دکھائی دیے کہ بچوں کاوقت ضایع ہورہا ہے یا ان کی تعلیم کا نقصان ہورہا ہے۔ اسی درمیان گزرتے وقت کے ساتھ تاخیر سے ہی صحیح زندگی کی گاڑی حرکت میں آنی شروع ہویی اور اپنی اپنی بساط بھر حصول معاش کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوگئی اگرچہ اس کی رفتار ابھی قابل ذکر بھی نہیں ہے پھر بھی ٹوٹتی امیدوں کو سہارا تو ضرور ملا ہے۔
اس صورتحال میں آن لائن ہی صحیح تدریس کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ایک آدھ فیصد تعلیمی فیس کا آنا بھی شروع ہوگیا۔ اسی درمیان عوامی ذرائع ابلاغ و ترسیل پر خال خال ایسے صوتی و تحریری پیغامات موصول ہونے شروع ہوگئے جن میں والدین اور گارجین کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اور ان پر پڑنے والی معاشی مار کی دہائی دیتے ہوئے اس طرح کی منظم تحریکیں چلانے کی باتیں کی جانے لگیں کہ بندش کامل کے ایام کی جن میں یا تو تعلیمی سلسلہ موقوف رہا یا آن لائن شروع بھی ہوا جو یکسر غیر مفید بلکہ بچوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے بھی مضر ہے ان کی تعلیمی فیس لینا تعلیمی اداروں کے لئے درست نہیں ہے۔ اس طرح کی پے سروپا باتیں کرنے سے پہلے یہ ضرور ذہن نشیں ہونا چاہیے کہ اسکول کے ذمہ داروں اور اساتذہ نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ آن لائن طریقۂ تدریس کو اپناکر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں آن کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس طریقہ تدریس کے ذریعہ بالمشافہ تدریس سے محرومی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تلافی پورے طور پر کردی ہے بلکہ انہوں نے محض بچوں کے خالی یا غیر مفید چیزوں میں ضایع ہونے والے اوقات کو ایک مقصدیت عطا کی ہے اور اس سے کسی نہ کسی حد گارجین بھی خوشی محسوس کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ تدریس سے جڑنے والوں کا تناسب صد فیصد نہیں ستر سے پچھتر فیصد تو یقینی ہے۔ اب ایک دوسرا مسیلہ یہ ہے کہ ہر غیر سرکاری تعلیمی ادارے کے اساتذہ و ملازمین اتنے فارغ البال نہیں ہوتے کہ تین چار ماہ یا امکانا اس سے بھی زاید عرصہ سے تنخواہیں نہ مل پانے کے باوجود عیش کی روٹیاں توڑ سکیں ان کی قوت لایموت کی فکریں نہ کرنا انہیں بھی فاقہ کش یا لقمہ اجل بنانے کے مرادف ہے اور نہ ہی ہر تعلیمی ادارے کے پاس قارون کے خزانون کی کنجیاں ہیں کہ بایں الفاظ لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء فیس کی عام معافی کا اعلان کردیں اور ان خزانوں سے داد عیش دیتے رہیں۔
یقینا کچھ تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ماہانہ تعلیمی فیس کے علاوہ مختلف عنوانوں سے لی جانے والی رقومات ان کے پاس وافر مقدار میں ہوتی ہیں جن سے وہ مدت مدید تک اپنے ماتحتوں کی کفالت کا سامان مہیا کراسکتے ہیں لیکن اگر ہوایی باتیں نہ کی جائیں اور ذرا گردوپیش پر نظر رکھی جائے کہ ایسے فارغ البال تعلیمی اداروں کا تناسب کیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کا تناسب اکایی سے آگے بڑھنے کی جسارت کرسکے گا۔ اس کے برعکس ایک خاصی تعداد ایسے تعلیمی اداروں کی ہے جو اس بندش کامل کی کمر توڑ مار زیادہ دیر تک سہنے کی تاب نہیں رکھتے۔ ٹھیک اسی طرح گارجین اور والدین میں بھی یقینا سارے ایسے نہیں ہیں کہ وہ معاشی بحران کی مار سے بستر لگ گئے ہوں اور اب ان کے اندر اٹھنے کی سکت تک نہ ہو۔ بلکہ ایک خاصی تعداد ان کی بھی ہے ان حالات میں جن کے دسترخوانوں کے ذایقے محض محدود ہوگیے ہیں پھر بھی وہ آج بھی عام اور متوسط طبقہ سے بلند اور صاحب استطاعت ہیں۔ یعنی بندش کامل کی مار سے قبل معاشرہ میں معاشی اعتبار سے محمود و ایاز کے مابین پایا جانے والا امتیاز ابھی بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہردو اپنی سابقہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔ اس لئے کلی طور پر یہ حکم صادر کردینا کہ بندش کامل کے ایام کی تعلیمی فیس بالکل نہ لی جایے یا اداروں کا تمام والدین و گارجین کو بلا استثناء فیس کی ادائیگی کا مکلف بنانا دونوں جرم ہے۔ اس لئے ایک ہی حکم دونوں فریق کے ہر فرد کے لئے صادر کرنا سراسر نامعقولیت ہے اور کچھ نہیں۔
زیادہ تر گارجین اسکول کے حالات اجمالی طور جانتے ہیں اسی طرح ہر اسکول کے اساتذہ و ذمہ داران بڑی حد تک والدین اور گارجین کے احوال سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی بدحالی کا رونا رونے سے پہلے ہر شخص اپنی جگہ پر اداروں اور ان سے کسی نہ کسی حیثیت سے جڑے افراد کو رکھے اور پھر فیصلہ کرے کہ وہ اساتذہ جو ہمارے بچوں اور قوم و ملت کی آنے والی نسل کو تراش خراش کر جوہر قابل بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں وہ اور ان کے بچے بھی ہماری اپنی اولادوں کی طرح ہماری توجہات کے مستحق ہیں۔ جس دن یہ سوچ پیدا ہوجائے گی اور یہ زاویہ فکر بن جائے گا اس دن سارے سوالات کے جوابات خود ہماری اپنی ذات میں مل جائیں گے۔
اب رہا یہ سوال کہ بہت سارے ادارے اتنی وافر مقدار میں داخلہ تجدید داخلہ اور ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں کہ محض ایک دوماہ میں حاصل ہونے والی رقومات ان کے سال بھر کے واجبی اخراجات کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ ایسے اداروں کی تعداد ہی کتنی ہے اور جو ہے بھی ان میں ہم نے خود دانستہ طور پر اپنے نونہالوں کو دیا اور ان کے واجبات اٹھانے کا اقرار کیا ہے ورنہ کیا ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ماہانہ ہزاروں اور سالانہ لاکھوں کے اخراجات والے اداروں میں پڑھاکر معاشرے میں اپنی ناک اونچی کریں تعلیم تو وہاں بھی ہوتی ہے جن کے یہاں اخراجات واجبی سے ہیں بلکہ بعض اوقات تو اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں۔
بہرحال ان حالات میں پیش آمدہ صورتحال کا حل یہ نہیں ہے کہ فیس کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ہلہ بول دیا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ہم نے معاشرہ میں ضرورت مندوں کی امداد کرتے وقت ہر ضرورتمند و غیر ضرورتمند کے لئے دست تعاون نہیں کھول رکھا ہے بلکہ اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ حق بہ حقدار رسید کا معاملہ رہے اسی طرح فیس کی فوری ادائیگی، مہلت یا جزوی یا کلی رعایت کے معاملہ میں بھی یہی طرز اختیار کرنا چاہیے کہ ضرورتمندوں اور مجبوروں کا خیال بھی رہ جایے اور تعلیمی اداروں سے کسی بھی حیثیت سے جڑے افراد بھی نان شبینہ کے محتاج نہ رہیں۔
یہی درمیان کا راستہ اور درپیش صورتحال کا مناسب حل ہے۔ اور اس کے علاوہ بے اعتمادی آپسی رسہ کشی اور غیر معقول اختلافات کا سامان۔
Comments are closed.